کراچی ٹارگٹڈ آپریشن میں رینجرز کا کردار
جن کلیوں کو خون سے سینچا جاتا ہے ان کی جڑوں میں اگر زہر کی آبیاری شروع کردی جائے تو پھول کی خوشبو۔۔۔
جن کلیوں کو خون سے سینچا جاتا ہے ان کی جڑوں میں اگر زہر کی آبیاری شروع کردی جائے تو پھول کی خوشبو محسور کن رہتی ہے، نہ پھل میں حیات بخش تازگی برقرار رہتی ہے۔ نمو کا یہ خطرناک کھیل کلی کلی اور گل در گل پھیلتا چلا جاتا ہے۔ پوری فصل کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ فصلوں اور نسلوں کی تباہی کی بساط پھیلانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی پالی پوسی سنڈیاں سب کچھ چاٹ لینے کے بعد خود ان کو بھی چاٹ جائیںگی۔ خیر و شر کی کشمکش ازل سے جاری ہے، چلتی ہی رہے گی۔ پہلا خون پتھر سے ضرور بہا تھا، اب ہمہ جہت ترقی کا دور ہے، آتش و آہن کی بوچھاڑ سے کوئی نحیف و نزار بچہ بھی دسیوں کو ان کے لہو کا غسل دے سکتا ہے۔
کراچی بھی خونی گرداب کے اس کھیل میں آن پھنسا ہے۔ ارباب اختیار پر کسی کا اختیار باقی و اثر نہیں رہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ان کے تین کارکنوں کی ہلاکتوں کے بعد رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ کارکنان کی ہلاکتوں نے 90 کی دہائی میں ماورائے عدالت قتل کی یاد تازہ کردی۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے متعدد بار کراچی آپریشن کو 90 ''نائن زیرو'' کی جانب موڑنے کے خدشات ظاہر کیے تو بعد ازاں برملا اظہار کیا جاتا رہا کہ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی جانب موڑ دیاگیا ہے، خاص طور پر ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے برملا اسے پیپلزپارٹی حکومت کی سازش قرار دیتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن کو کراچی و حیدرآباد میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے میئر شپ کے لیے سیاسی طور پر استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے۔
دوسری جانب تباہ و برباد لیاری سے منتخب ہونے والی رکن اسمبلی ثانیہ ناز نے میڈیا کو 43 ایسے مقتولین کی فہرست فراہم کیں جو ان کے مطابق لیاری میں آپریشن کے دوران رینجرز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ رکن صوبائی اسمبلی ثانیہ ناز نے آپریشن میں مارے گئے افراد کی فہرست اعلیٰ حکام کو فراہم کرنے کا دعویٰ کیا، جبکہ رینجرز حکام نے ثانیہ ناز کے الزامات مسترد کرتے ہوئے ایسی کسی فہرست کے موصول ہونے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔
یہ فہرست اس وقت میڈیا کو فراہم کی گئی جب لیاری میں مقتول اعجاز کے بھائی کی درخواست پر عدالت نے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ یہ درخواست ADJ ii ساؤتھ کو دی گئی تھی۔ جس میں یاسر زمان کے مطابق اس کے بھائی کو رینجرز نے گرفتار کیا اور اس کے پیروں میں گولی ماری۔ زخمی اعجاز کو اہلکار موبائل میں ڈال کر لے گئے اور چار روز بعد سول اسپتال میں اعجاز کی لاش ملی۔ ثانیہ ناز رکن صوبائی اسمبلی سندھ کے مطابق 5 ستمبر سے 14 دسمبر تک 43 افراد کو آپریشن میں مارا گیا۔ ان میں سے 27 افراد کو رینجرز نے زندہ گرفتار کیا تھا، جبکہ 16 افراد کو مکینوں کے سامنے گولیاں ماری گئیں۔ متحدہ قومی موومنٹ اور ثانیہ ناز جو پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے منتخب ہوئیں ہیں، دونوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ماورائے عدالت قتل پر نوٹس لینے کا مطالبہ اور اپیل کی ہے۔
اس حوالے سے اگر یہ دیکھا جائے کہ کیا صرف سیاسی جماعتیں ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہیں تو قطعی طور پر ایسا نہیں ہے۔ حکومت نے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیارات دیے تو دیکھا یہی گیا ہے کہ بعض افسران و اہلکاروں نے جب اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تو ادارے کی ساکھ بچانے کے لیے اعلیٰ افسران کو خود مداخلت کرنا پڑی۔
رینجرز کی جانب سے کراچی میں پہلا دیدہ دلیری کا واقعہ نجی ٹی وی چینل کے کرائم رپورٹر سالک شاہ کے بھائی سرفراز شاہ کے قتل کی صورت سامنے آیا جب ہجرت کالونی کے اس نہتے رہائشی کو بے نظیر پارک میں رینجرز اہلکاروں نے قتل کردیا۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر اہلکاروں کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب الیکٹرونک میڈیا نے قتل کی اس ہولناک واردات کو نشر کر ڈالا۔ اہلکاروں کو سزائے موت سنادی گئی لیکن وارثین پر دباؤ و لالچ دے کر اہلکاروں کو رینجرز نے معاف کرادیا جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور مرید عباس کو سرعام گولیاں مارکر رینجرز اہلکاروں نے قتل کردیا۔ اس قتل کا بھی از خود نوٹس عدالت عظمیٰ نے لیا۔ پولیس نے رینجرز کاحسب توقع مکمل ساتھ دیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا۔ مبینہ طور پر 4 ماہ تک بیوہ پر دباؤ اور بھاری رقم کا لالچ دے کر پولیس نے 3 اہلکاروں کو بے گناہ قرار دلوادیا اور غلام رسول کے واقعے کو حادثہ قرار دے دیا گیا۔
اسی طرح ایک اور شہری غلام حیدر رہائشی شاہ فیصل کو رینجرز کے اہلکار شہزاد نے گاڑی نہ رکنے پر گولی ماردی۔ ملزم نے خود عدالت میں اقرار کیا کہ غلطی سے گولی ماری گئی۔ اس کیس میں بھی پولیس نے تین اہلکاروں کو بے گناہ قرار دلوادیا۔ حال ہی میں روزنامہ ایکسپریس میں نمایاں طور پر شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا کہ عدالتی اہلکار امتیاز خان کو رینجرز اہلکاروں نے اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا، عدالت سے رجوع کرنے پر حسب روایت رینجرز نے مسلح ہوکر اس کے اہل خانہ سے معافی مانگی اور ظاہر ہے کہ غریب خاندان خوف زدہ ہوکر معافی دینے پر مجبور ہوا۔
رینجرز کی جانب سے ماورائے قانون گرفتاریوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج، مظاہرے اور پریس کانفرنسیں اب کوئی نئی بات نہیں رہی ہے، لیکن اب ماورائے عدالت قتل کے سنجیدہ الزامات باعث تشویش ضرور ہیں۔ جب عام شہری اور سیاسی جماعتیں کسی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہیں تو اس معاملے میں یقینی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیکیورٹی ادارے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے مامور ہوتے ہیں، ان کا فرض عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اگر ان ہی اداروں پر عوام کا اعتماد مجروح ہوجائے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے میں وقت نہیں لگتا۔
سیکیورٹی اداروں کو لامحدود اختیارات دینے کی روش قائم تو ہے لیکن ان کے لامحدود اختیارات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس یا مانیٹرنگ نہیں ہوپاتی اور یہی ان اداروں میں خامی گردانی جاتی ہے۔ جس طرح شورش زدہ علاقوں میں سیکیورٹی اداروں کو گرفتاریوں اور تفتیش کے اختیار کا نیا قانون پاس کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں ان اداروں کو جبری حراست کے قانون میں اس بات کا اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی شخص کو 120 دن تک سول انتظامیہ کی نگرانی میں حراست میں رکھ سکتے ہیں یہ قانون لاپتہ افراد کے مقدمے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے وزیراعظم کو بھیجا گیا ہے جو تاحال منظور نہیں ہوا۔ لیکن تحفظ پاکستان آرڈیننس صوبہ سندھ میں نافذ ہے جس میں رینجرز کسی بھی ملزم کو عدالت میں پیش کرکے 90 دن تک تفتیش کرسکتی ہے۔ سینٹرل جیل اور لانڈھی جیل میں خصوصی طور پر تفتیش کے لیے بیرکیں الاٹ کیں جا چکی ہیں اور تادم تحریر رینجرز متعدد ملزمان جس میں ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے اس قانون کے تحت 90 دن کے لیے تفتیش پر حاصل کرچکی ہے۔
اداروں کو لامحدود اختیارات دینے کی ضرورت اس وقت ہی پیش آتی ہے جب ماتحت ادارے اپنے فرائض کما حقہ سرانجام نہ دیں۔ لیکن اس قانون کا سب سے اہم ستم ان اختیارات کی مانیٹرنگ کا نہ ہونا ہے۔
کراچی ایک آتش فشاں بن چکا ہے۔ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود رینجرز امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ پولیس محکمہ، مقامی افراد کو بھرتی کرنے کے بجائے فوج سے ریٹائر ہونے والے فوجیوں کو بھرتی کررہا ہے۔ کراچی میں سیاسی رسہ کشی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مورال بری طرح گررہا ہے، ان اداروں کے سربراہان کو بہرحال سوچنا ہوگا کہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کی جانے والی کارروائیوں یا ماورائے قانون کارروائیوں سے ان کا اعتماد عوام میں بڑھ رہا ہے یا گر رہا ہے۔ یہ ادارے اپنی انٹیلی جنس سے یہ رپورٹیں لیں کہ عوام ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو یقینی طور پر ''سب اچھا'' کی رپورٹ قطعی نہیں ملے گی۔ رینجرز سمیت تمام اداروں کو سنجیدگی سے اپنے کردار کو عوامی امنگوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔