سینیٹ انتخابات میں اپ سیٹ کیا پی ٹی آئی کوئی سبق سیکھے گی

موجودہ سینیٹ الیکشن اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست اگلے تین سال بھی غیر مستحکم ہی رہے گی


سالار سلیمان March 04, 2021
حکومت اور پی ڈی ایم دونوں ہی اخلاقی میدان میں ہار چکی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

سینیٹ کے انتخابات بھی ہوگئے اور اسلام آباد کا دلچسپ ترین الیکشن کانٹے کے مقابلے کے بعد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جیت لیا ہے۔ اسلام آباد کا الیکشن اس لیے بھی اہم ترین تھا کیونکہ اس میں قومی اسمبلی کے اراکین دو سینیٹ کی نشتوں کےلیے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ پنجاب کے فکس الیکشن کے بعد یہ امید تو نہیں تھی لہٰذا گیلانی صاحب کی جیت ایک بہت بڑا اپ سیٹ تصور کی جارہی ہے۔

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ہماری سیاست کے نہ سینے میں دل ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقیات باقی ہیں، جبکہ ضمیر کا تو ہر سال باقاعدہ عرس ہونا چاہیے۔ ان نتائج کے بعد یہ بات مزید واضح ہوگئی ہے کہ زرداری فیکٹر پارلیمانی سیاست میں بہت اہم ہے۔ انہوں نے اس سے قبل بھی اپنے اس جادو کو دکھایا تھا، جب انہوں نے راتوں رات ہی بلوچستان میں حکومت تبدیل کی، جب انہوں نے چیئرمین سینیٹ تبدیل کیا اور اب انہوں نے نمبرز گیم کے برعکس جاکر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کروا لیا ہے۔

اگرچہ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ ان نتائج کو چیلنج کرے گی۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ووٹوں کی دو مرتبہ گنتی کے بعد گیلانی صاحب کی جیت کا اعلان ہوا ہے۔ اگر 'کسی بھی طرح' سے اس نتیجے کو تبدیل کیا جاتا ہے تو حکومت اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارے گی اور یہ الیکشن متنازع ہونے کے بعد بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ جگ ہنسائی کا باعث ہوں گے۔ جیسے ڈسکہ الیکشن میں حکومت کو سبکی کا سامنا ہوا، ویسے ہی اس الیکشن میں اس کو سبکی اٹھانا پڑے گی۔

یہاں ایک بات اور بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ اسی ایوان نے دوسری نسشت پر پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار کو 174 ووٹوں سے منتخب کروایا ہے۔ گیلانی صاحب کو ملنے والے ووٹ 169 ہیں جبکہ حفیظ شیخ کو ملنے والے ووٹ 164 ہیں جبکہ 7 ووٹ مسترد ہوئے ہیں۔ اس سے کیا بات سمجھ میں آتی ہے؟ اس سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے ہی بعض اراکین کےلیے حفیظ شیخ کو ہرانا مقصود تھا اور انہوں نے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر یہ مقصد باآسانی حاصل بھی کرلیا ہے۔

حفیظ شیخ کیوں ہارے؟ اس کی وجہ ان کا خود کو عقل کل سمجھنا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے اندرونی حلقے ہی ان کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ملک بھر میں معاشی عدم استحکام، مہنگائی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے ذمے دار حفیظ شیخ اور رضا باقر ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو کمزور کرنے اور اس کو عوامی سطح پر بےعزت کروانے میں حفیظ شیخ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا یہ خیال بھی ہے کہ حفیظ شیخ اپنی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی بریف کیس اٹھا کر باہر نکل جائیں گے اور یہ اپنے حلقے میں عوامی غضب کا اکیلے ہی مقابلہ کریں گے۔ پیپلز پارٹی جانتی تھی کہ کون کون سا رکن اسمبلی حفیظ شیخ کو پسند نہیں کرتا، بلکہ ذرائع نے تو بتایا ہے کہ انہوں نے خود پی ڈی ایم سے رابطہ کیا تھا کہ ہماری انا کا مسئلہ ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیں گے۔

سوال یہ ہے کہ جس انسان کی غیر مقبولیت کی رپورٹ پیپلز پارٹی کے پاس تھی، اس کی رپورٹ حکومت وقت کے پاس نہیں تھی؟ پھر کیوں حفیظ شیخ کو اس اہم ترین حلقے سے کھڑا کیا گیا؟ کیوں سارے ہی وسائل اس کی جیت کےلیے جھونکے گئے؟ کیوں اس کےلیے میڈیا ہائپ بنائی گئی؟ اگرچہ حفیظ شیخ چند ہی ووٹوں کے فرق سے ہارے ہیں لیکن یہ حکومت بھی چند ہی ووٹوں کے فرق سے قائم ہے تو کیا اِن ہاؤس تبدیلی کی تھیوری ٹھیک ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے حفیظ شیخ سے نفرت کا اظہار کیا ہے تو ہی اس کو ہروایا گیا ہے، ورنہ تو فوزیہ راشد نے اس ہی دن، اسی ہی ایوان سے 174 ووٹ لیے ہیں۔ لہٰذا، خاکسار کی رائے میں شبلی فراز سمیت دیگر وزرا کو دل بڑا کرکے حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

یہ کہہ دینا کہ اس الیکشن میں صرف پیسہ چلا ہے، بالکل غلط ہے۔ پیسے کی حیثیت ثانوی تھی۔ پارلیمانی سیاست میں پیسے کا عمل دخل کئی دہائیوں سے ہے۔ دوسری جانب حفیظ شیخ کی ذاتی حیثیت نے اُن کو ہروانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اگر شیخ صاحب نے ان ڈھائی سال میں کوئی ڈھنگ کی معاشی پالیسی بنائی ہوتی، مہنگائی کو ایک سطح پر روکا ہوتا، ملک کے معاشی حالات بہتر ہوتے تو آج کے نتائج یہ نہ ہوتے۔ لیکن کیا کیجئے، ملازم اپنے اصل آجر ہی کی تو فکر کرتا ہے اور اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ حفیظ شیخ اصل میں کس کا ملازم ہے۔ گیلانی صاحب کے بیٹے کی ویڈیوز سامنے آچکی ہیں، ان کے حوالے سے تحقیقات کرنا متعلقہ اداروں کا کام ہے۔ لیکن اگر ہم 2018 میں چلیں تو پی ٹی آئی کی مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی میں ترین فیکٹر کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جہانگیر ترین کا تو ٹی وی انٹرویو ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں وہ دوسرے الفاظ میں تسلیم کررہے ہیں کہ میں نے عمران خان کےلیے اراکین سے سودے بازی کی تھی۔ میں نے حکومت بنانے کےلیے اپنے ذرائع اور وسائل کا استعمال کیا اور آزاد اراکین سے معاملات طے کیے۔ اس اعتراف کو کہاں رکھیں گے؟

حکومت اور پی ڈی ایم دونوں ہی اخلاقی میدان میں ہار چکی ہیں۔ سیاست میں پیسے کا استعمال کرپشن کے دروازوں کو کھولتا ہے۔ جو سرمایہ کاری کرتا ہے وہ سود سمیت منافع لینے کےلیے ہی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اس پیسے نے ہی سسٹم کو کھوکھلا کیا ہوا ہے۔ کل پی ٹی آئی نے غلط کیا تھا، آج پی ڈی ایم نے غلط کیا ہے۔ تو جب ایک ہی حمام میں سب ننگے ہیں تو چھج نے چھاننی کو طعنہ کیا دینا ہے۔ ابھی تو دیکھیے گا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کیا ہوتا ہے؟ اس کے بعد کیا پاکستان کی سیاست مستحکم ہوگی؟ میرا خیال ہے موجودہ سینیٹ الیکشن اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست اگلے تین سال بھی غیر مستحکم ہی رہے گی۔ جب واضح اکثریت کسی کے پاس بھی نہیں ہے تو مطلب یہ کہ ڈوریاں تو کہیں اور ہیں۔ کہاں ہیں؟ اس سے یاد آیا کہ شمالی علاقہ جات کا موسم کیسا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں