فاتحین اورجنگیں
فاتحین نے مفتوح قوموں کی دولت، وسائل اور انسانی قوت پر ڈاکا ڈالنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔
تاریخی طور پر جنھوں نے مادر وطن کا دفاع کیا، وہ فاتحین کی نظروں میں دشمن کہلائے۔ فاتحین نے مفتوح قوموں کی دولت، وسائل اور انسانی قوت پر ڈاکا ڈالنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ اسی وجہ سے انھوں نے دنیا بھر میں سارے خطوں کو فتح کیا، انھیں اپنی رعایا بنایا، بادشاہتیں اور سلطنتیں قائم کیں۔
اس تسلسل میں لاکھوں کروڑوں معصوم لوگوں کا قتل کیا، تباہ و برباد کیا، ان کی دولت کو لوٹا، ان کے شہروں کو جلایا اور تباہ کیا ، ان جنگجوؤں نے دنیا کے کسی بھی حصے کو قبضہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔ دوسری جانب دنیا کے کروڑوں امن پسند انسانوں، دانشوروں، مزدوروں اور فلاحی تنظیموں نے انصاف، برابری، بھائی چارگی اور محبت کے لیے آوازیں اٹھائیں اور لڑتے رہے لیکن فاتحین نے انھیں مار بھگایا۔
تاریخی طور پر ہمارے آباو اجداد نے ایک جیل خانے جیسے ماحول میں وقت گزارا، وہ گونگا بہرا سماج تھا۔ انھیں سماجی حقوق کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ وہ مداخلت کاروں کی رعایا بنے رہے وہ تحسین کی تہذیب، زبان، مذہب، خداؤں اور دیویوں کو اپناتے رہے۔ دوسری جانب فاتحین ان کا قتل، سر قلم، سولی، جلاتے اور زندہ دفن کرتے رہے۔
موجودہ دور میں چند جوہری ہتھیاروں سے نہ صرف پوری دنیا کی آبادی کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سیارے کو بھی تباہ کیا جاسکتا ہے۔ شمسی نظام کی بربادی سے سورج اور چاند سے دنیا ٹکرا سکتی ہے۔ اس سے قبل دنیا کبھی بھی اس بھیانک صورتحال سے دوچار نہیں رہی۔ آخر کس بنیاد پر ساری دنیا کے لوگوں کو سزا دی جا رہی ہے۔
ہمیں دنیا کے دفاعی نظام پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے ممالک خطیر رقم 1200 ارب ڈالر ہر سال صرف اس دفاعی نظام کی نگہبانی پر خرچ کر رہے ہیں۔ چالیس برس کے بعد دنیا کی دو تہائی آبادی مصنوعی سرحدوں اور نااہل انتظامیہ کی وجہ سے ختم ہو جائے گی۔ دفاع کے نام پر بنی نوع انسان کو موت کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
موجودہ جمہوریت کسی بھی صورت میں غیر جمہوری مداخلت کو روک نہیں سکتی۔ اس جنگی تیاری کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری ذخیرہ کرنے اور خطرناک تباہی سے بچایا نہیں جاسکتا۔ یہ جنگ کے دوران فوج کے اخلاقی جرائم کو کبھی بھی روک نہیں سکتی اور یہ نہ کبھی عالمی طور پر جنگ کی نفسیات پر حاوی ہو سکتی ہے اور نہ پرانے ذہنی امراض کو روک سکتی ہے۔ قابضین کے لیے تاریخ میں مذمت کرنے کے بجائے انھیں جنگی بہادری اور فتح مندی کے لیے سب کچھ کرتے ہوئے گزر جانا ایک کارنامے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
گزشتہ پانچ ہزار برسوں کے درمیان سلطانوں اور بادشاہوں نے مصنوعی سرحدیں تخلیق کیں۔ اس قسم کی سرحدوں کی تخلیق میں سیکڑوں ملین عوام مارے گئے اور سیکڑوں ملین فوجیں بھی اپنی جانیں قربان کیں۔ ساری تاریخ میں زیادہ تر فوجی نوجوان اور صحت مند ہوتے ہیں۔ انھیں یہ تصور دیا گیا کہ زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ فاتحین کے لیے مریں۔
دنیا گواہ ہے کہ صرف 20 ویں صدی میں سرحدوں کے ٹوٹنے سے 100 سے زیادہ ملکوں کی تخلیق ہوئی۔ آج کل دنیا بھر میں جنگی تیاریوں کو بنی نوع انسان کے تحفظات کے لیے کیے جانے کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ تمام قومیں اپنی فوجی قوتوں کو مضبوط ترکرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے سے ڈرے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
مغرب کے ترقی یافتہ ممالک اپنے آپ کو مستحق گردانتے ہیں کہ وہ دنیا کی جمہوری اور مہذب قومیں ہیں، مگر وہ بری طرح سے جنگی تیاریوں میں سرفہرست ہیں جوہری اور دیگر مہلک ہتھیاروں کی تیاری میں پیش پیش ہیں۔ تاریخی طور پر یہ ترقی یافتہ ممالک ماضی میں گھناؤنی حرکات اور مداخلت کی جنھیں فاتحین کہا گیا۔ انھوں نے دنیا کے بڑے خطوں کو خوفزدہ کیا، دولت بٹوری اور سیکڑوں ممالک کے وسائل کی لوٹ مارکی۔ پہلی عالمی جنگ میں 9 ملین فوجی سپاہی سرحدوں کے دفاع میں جان سے جاتے رہے، 7 ملین سپاہی مکمل طور پر مفلوج ہوئے، 15 ملین بری طرح زخمی ہوئے۔
اس کے بعد بیماریوں نے تباہی مچا دی۔ صرف انفلوئنزا میں 20 ملین زندگیاں داؤ پر لگ گئیں۔دوسری عالمی جنگ کے وقت فرانس دنیا کا دوسرا نوآبادی رکھنے والا ملک تھا۔ ایک کروڑ 23 لاکھ کلومیٹر سرزمین، برطانیہ کے قبضے میں تھی۔ انھوں نے لاکھوں نوجوانوں کو غلام قوموں کے طور پر رکھا ہوا تھا۔ ہندوستان نے برطانوی سامراج کو اپنی 2.587 ملین سپاہی حوالے کر رکھا تھا جس میں 1.58 ملین نے اپنی جان کی قربانی دی۔ فاتحین فوج نے دنیا کے معصوم شہریوں پر 27 لاکھ ٹن بم گرائے۔
عام ریپ سے گریز کرنے کے لیے جاپان کے متعلقہ حکام کی جانب سے ایک مخصوص جگہ (RAA) کو 350,000 امریکی فوجیوں کے لیے مختص کردیا گیا تھا جہاں وہ بلا روک ٹوک جائز پروسٹیٹیوشن کرسکتے تھے۔ یورپی سامراج نے 75 ملین عوام کا قتل کیا جن میں 20 ملین فوجی اور 40 ملین سویلین تھے۔ 7 ملین سے 15 ملین کے لگ بھگ چینی قتل ہوئے۔ جب کہ کوئی ماں ایسی نہیں ہوگی کہ وہ اپنی لڑکی کو ریپ کے لیے پیش کرے کوئی ایسا باپ نہیں ہوگا جو لوٹ مار اور قتل کرنے کے لیے اپنے بیٹوں کو فوج میں جانے دے۔
یہ انتہا درجے کے جرائم ہیں۔ ہمیں ایسا سماج بنانا ہوگا جو ہتھیاروں اور تباہ کن اسلحے اور ہر قسم کے اسلحے سے پاک ہوگا۔ لوگوں کو ان کی تہذیب، یقین اور زبان کو آزادی دینی ہوگی۔ جہاں نسل پرستی، قتل و غارت گری، تشدد، غلامی اور دوسروں کو ان کے وسائل لوٹنے کی اجازت نہ ہو۔
23 ویں صدی قبل از مسیح ہسپانوی، برطانوی اور فرنچ مداخلت کار حمورابی، اسیرین، سائرس دی گریٹ، الیگزانڈر دی گریٹ اور دیگر نے ملکوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں۔ انھوں نے سو ملکوں کو غلام بنانے میں اوزار کا کردار ادا کیا۔ 330 صدی قبل ازمسیح میں تقریباً ایک ملین پرشین فوج جن کا ایکامینیر سلطنت سے تعلق تھا، الیگزانڈر دی گریٹ کے خلاف جنگ لڑے اور شکست کے بعد سیکڑوں برس یونانی حکومت کی خدمت کرتے رہے۔ یورپ، مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ پر مداخلت کاروں رومن اور بیزنتائن کی 1500 سال تک خدمت کی۔
ہندوستان برصغیر کی مقامی فوج کی شکست کے بعد مداخلت کاروں کی غوریوں، تغلقوں، خلجیوں، لودھیوں، مغلوں اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ خدمت کی۔ اب مداخلت کار تو درکنار خود فرانس، بھارت، امریکا، اسرائیل، ارجنٹینا، روس، چین اور یورپ کے عوام اپنے ہی ظالم حکمرانوں کے خلاف نبردآزما ہیں۔ ہر جگہ پیداواری قوتیں، انارکمیونسٹ، سینڈیکیٹ انارکسٹ، امن پسند، آزاد لوگ اور محنت کش عوام دنیا کے ہرگوشے میں اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہزاروں مقامات پر انھوں نے کمیون سوسائٹی قائم کر رکھی ہے۔