دھچکا
سیاست سے لے کر صحافت تک اور معیشت سے لے کر عدالت تک ہر جگہ اخلاقی گراوٹ کے مظاہر نظر آتے ہیں۔
قومی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو کہ جس کے بارے میں کامل اعتماد اور یقین سے کہا جاسکے کہ یہاں بدعنوانی،کرپشن، اخلاقی پستی، رشوت ستانی اور اقربا پروری جیسی بد اعمالیوں کا گزر نہیں ہے۔
سیاست سے لے کر صحافت تک اور معیشت سے لے کر عدالت تک ہر جگہ اخلاقی گراوٹ کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ سیاست تو بالخصوص ایک کاروباری صنعت کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے لے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت تک ہر درجے کی سیاست میں ''چمک'' کا بنیادی کردار نظر آتا ہے۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا بالاتفاق یہ ماننا ہے کہ سیاست میں آنے کا مقصد جو کبھی خدمت ہوا کرتا تھا، اب عنقا ہے ،آج کی سیاست پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ کرپشن کے زہر نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سیاست میں پیسے کی ریل پیل کو خوب انجوائے کیا جا رہا ہے۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ ہر سیاسی جماعت اور اکابرین سیاست اپنے مخالفین پرکرپشن و بدعنوانی کے الزامات ایسے وثوق سے لگاتے ہیں کہ جیسے خود وہ دودھ کے دھلے ہوں اور انھوں نے زندگی میں کبھی کرپشن کا ''ذائقہ'' نہیں چکھا ہو۔
آپ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے لے کر پاکستان پیپلز پارٹی تک اور پاکستان تحریک انصاف سے لے کر دیگر جماعتوں تک کے اکابرین کے اثاثوں کی تفصیلات میں گزشتہ تین چار دہایوں کے درمیان آنے والے برق رفتار اضافے کا جائزہ لے لیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔
برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی جس کے سربراہ عمران خان کا سب سے بڑا دعویٰ ہی کرپشن و بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی حکومت کے گزشتہ ڈھائی سالوں میں چینی و آٹا اسکینڈل کے قصے زبان زدعام ہیں۔
دواؤں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہتی ہے،اخباری خبروں کے مطابق گزشتہ سینیٹ کے الیکشن میں کے پی کے میں پی ٹی آئی کے 20 ارکان اسمبلی نے اپنے ضمیر کی قیمت وصول کی جس کی ویڈیوز نے پی ٹی آئی کے نعرہ انصاف کو داغ دار کردیا۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں وزیر اعظم نے کرپشن کے خاتمے اور ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے اور شفاف سینیٹ انتخابات کے لیے عدالت عظمیٰ سے رائے طلب کی کہ اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ الیکشن کرانے کی اجازت دی جائے۔ صدر مملکت نے آرڈیننس بھی جاری کیا۔
تاہم عدالت نے آئین کے تحت خفیہ رائے شماری کے حوالے سے رائے دیتے ہوئے گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں ڈال دی کہ اس ضمن میں آئینی ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن کو کہا گیا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنائے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس روکنے کے لیے مانیٹرنگ سیل قائم کیا تھا تاکہ سینیٹ الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس قدر شور و غل کے باوجود سینیٹ کے ٹکٹوں کی خرید و فروخت کے پہلو بہ پہلو ارکان اسمبلی کی ''ہارس ٹریڈنگ'' کی خبریں بھی حکومت اور اپوزیشن ہر دو جانب سے زور شور سے پھیلائی جاتی رہیں۔
خیبر پختون خوا میں سینیٹ ٹکٹ 70 کروڑ میں فروخت ہونے کی بات بھی کی گئی اور سندھ میں پی ٹی آئی کی جماعت کے ایک رہنما نے سینیٹ ٹکٹ 25 کروڑ میں فروخت کرنے کی بات کی پھر یوسف رضاگیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی ویڈیو نے معاملہ اور مشکوک بنا دیا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں (ق) لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کے تجربے نے کام دکھایا اور تمام امیدوار بلا مقابلہ ہی منتخب ہوگئے۔ مریم بی بی ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے تحت پنجاب میں مقابلہ کی خواہاں تھی لیکن میاں نواز شریف نے اپنے ہی نعرے کو ووٹ پر سمجھوتے سے تبدیل کر دیا۔ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں البتہ سینیٹ کا معرکہ ہوا۔
سب سے بڑا اکھاڑا اسلام آباد میں لگا جہاں پی پی پی رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جو پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار تھے اور پی ٹی آئی امیدوار حفیظ شیخ کے درمیان مقابلہ تھا۔ ہر دو فریق اپنے اپنے امیدوارکی کامیابی کے بڑی یقین کے ساتھ دعوے کر رہے تھے۔ قومی اسمبلی میں عددی حوالے سے حفیظ شیخ کی کامیابی کے امکانات روشن تھے لیکن غیر متوقع طور پر یوسف رضا گیلانی نے یہ مقابلہ پانچ ووٹوں کے فرق سے جیت لیا۔
حفیظ شیخ کو 164 اور گیلانی صاحب کو 169 ووٹ ملے جب کہ 7 ووٹ مسترد بھی ہوئے حیرت انگیز طور پر اسلام آباد ہی سے خواتین کی نشست پر پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد 174 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔10 ووٹ سے حفیظ شیخ کی ناکامی نے بہت سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا کہ جن دس PTI ارکان نے فوزیہ ارشد کو ووٹ دیا انھوں نے حفیظ شیخ کو ووٹ دیا یا نہیں؟
گیلانی کی فتح نے پی ڈی ایم کا حوصلہ بلند کردیا، جب کہ پی ٹی آئی کا مورال یکدم گر گیا۔ پی ڈی ایم کی آیندہ حکمت عملی کیا ہوگی؟ تحریک عدم اعتماد یا لانگ مارچ اور دھرنا ہوگا، حفیظ شیخ کی شکست اور ڈسکہ میں ری الیکشن حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔