2025 تک 44 ریاستی اداروں کی نجکاری کی جائے گی

زیادہ خسارے میں نہ چلنے والے ادارے جون 2023 ء اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری 2025ء تک کردی جائے گی۔


Shahbaz Rana March 05, 2021
2018-19  میں اداروں کی آمدنی 4 ٹریلین روپے اور اثاثوں کی مالیت ( بُک ویلیو) 19 ٹریلین روپے تھی، جائزہ رپورٹ میں انکشاف۔ (فوٹو، فائل)

SRINAGAR: آئی ایم ایف کے تحت نقصان میں چلنے والے ملکی اداروں کی جائزہ رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ 2025ء تک 44 ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔

آئی ایم ایف کے وضع کردہ ساختیاتی ڈھانچے جسے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی حمایت بھی حاصل ہے، کے جزو کے طور پر84ریاستی ملکیتی اداروں کی جائزہ رپورٹ مکمل کرلی گئی ہے جسے گذشتہ روز وزارت خزانہ نے جاری کیا ہے۔

مذکورہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت 39 ادارے برقرار رکھے گی جبکہ 44 اداروں کی نجکاری کردی جائے گی جن میں پاور سیکٹر بھی شامل ہے، جبکہ حکومت اپنے پہلے سال میں پاور سیکٹر کے نقصانات میں 50 فیصد کمی کا دعویٰ بھی کرچکی ہے۔

پہلی بار حکومت نے برقرار رکھے جانے والے اور فروخت کیے جانے والے اداروں کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے ٹائم لائن کا بھی تعین کیا ہے۔ اس کے مطابق بہت زیادہ خسارے میں نہ چلنے والے ادارے جون 2023 ء تک فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ یہ ملک میں نئے انتخابات کی تیاریوں کا وقت بھی ہوسکتا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری 4سال کے عرصے میں مکمل ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے ریاستی ملکیتی کاروباری ادارہ جات وزارت خزانہ میں قائم کیے جارہے ایک سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کی وساطت سے ٹائم لائن کے لحاظ سے نجکاری عمل کی پیشرفت کا جائزہ لیتی رہے گی۔ وفاقی حکومت کے ماتحت 212 ریاستی ملکیتی ادارے اور ان کے ذیلی ادارے ہیں، تاہم جائزہ رپورٹ میں صرف 85 تجارتی اداروں کو شامل کیا گیا جو 7شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

2018-19 میں تمام ریاستی ملکیتی اداروں کی آمدنی 4 ٹریلین روپے تھی جبکہ ان کے اثاثوں کی مالیت ( بُک ویلیو) 19 ٹریلین روپے تھے۔ علاوہ ازیں یہ ادارے ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد کو روزگار بھی فراہم کرہے ہیں جو مجموعی افرادی قوت کا 0.8 فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2018-19 میں ان تجارتی اداروں کو مجموعی طور پر 143 بلین روپے کا خسارہ ہوا۔ تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری سال کے مقابلے میں خسارے میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں