پی ایس پی کا پختون جلسہ opinion usman damohi
اسے ملک میں انقلابی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔
جب پورے ملک میں سینیٹ کے الیکشن کی دھوم مچی ہوئی تھی حکومتی پارٹی اور حزب اختلاف میں سینیٹ میں برتری کے لیے کھینچا تانی عروج پر تھی۔ اسی کھینچا تانی میں سینیٹ کے ووٹ کا ریٹ تین کروڑ سے بڑھ کر سترہ کروڑ تک جا پہنچا تھا۔ یہ ریٹ خود وزیر اعظم صاحب نے بتائے تھے۔ ظاہر ہے وہ بھی حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور اپنی پارٹی کو جتوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ اس افراتفری اور نفسا نفسی کے عالم میں ووٹ کے نام پر مخالفتیں اور دشمنیاں انتہا کو پہنچ چکی تھیں پوری قوم بکھری ہوئی تھی ایسے عالم میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو قوم کو جوڑنے میں مصروف تھا۔
کراچی کے نام نہاد قائد نے کراچی میں جو نفاق کا بیج بویا تھا مہاجروں، پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں اور پختونوں کے درمیان دشمنیاں پیدا کردی تھیں اور یہ دشمنیاں دلوں میں اس طرح گھر کرگئی تھیں کہ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس شخص نے حیرت انگیز طور پر ان دشمنیوں کو محبتوں میں بدل دیا تھا۔
سہراب گوٹھ کا علاقہ مہاجروں کے لیے نو گو ایریا بنا ہوا تھا کراچی کے کئی علاقے پختونوں، سندھیوں پنجابیوں اور بلوچوں کے لیے بھی نو گو ایریا تھے۔ قصبہ اور علی گڑھ کی آبادیوں میں مہاجروں اور پختونوں میں خونی فسادات کے بعد دشمنیاں انتہا کو پہنچ چکی تھیں۔ پھر تھوڑے ہی دن بعد عام انتخابات کی گہما گہمی شروع ہوگئی تو کراچی پر اپنی حکمرانی جاری رکھنے کے لیے نام نہاد قائد کو پھر مہاجر ووٹوں کی ضرورت پڑ گئی چنانچہ پھر نفرت کا پرچار شروع کردیا گیا اب پھر علی گڑھ اور قصبہ میں تازہ فسادات کرانے کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔
اسی شخص نے ملک کے ایک سنجیدہ اور بااثر پختون صحافی سے رابطہ کیا اور اسے نام نہاد قائد کے پختونوں اور مہاجروں کے خون کی پھر ہولی کھیلنے کی سازش سے آگاہ کیا اور اسے رکوانے کے لیے اس کی مدد چاہی۔ صحافی نے اس خبر کا فوراً نوٹس لیا اس لیے کہ بقول اس کے اسے یہ خبر ایم کیو ایم کے ایسے شخص نے دی تھی جس پر اعتبار کیا جاسکتا تھا اور وہ اس کی مخلصی اور عوامی خدمت کا مداح تھا۔ اس کی کوششوں سے یہ قتل عام رک گیا۔
بعد میں اسی صحافی نے اپنے ایک کالم میں اس سازش کا ذکر کیا اور لکھا کہ مصطفیٰ کمال کی وجہ سے نام نہاد قائد کی خونریزی کی سازش کامیاب نہ ہوسکی۔ مصطفیٰ کمال کی اسی بھائی چارے کی تڑپ نے بعد میں اس شہر سے 35 سال پرانی نفرت کی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔ وہ نام نہاد قائد کی فرعونیت سے بدظن ہو کر اپنی سینیٹ کی سیٹ چھوڑ کر دبئی میں جا بسا تھا وہ تین مارچ 2016 کا مبارک دن تھا جب یہ شخص اپنے ساتھی انیس قائم خانی کے ہمراہ کراچی واپس آیا اور آتے ہی ایک پریس کانفرنس کی جس میں نام نہاد قائد کو کھلم کھلا للکارا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے اسے للکارنے کی ہمت کی تھی۔
اس سے غداری کرنا تو درکنار اس کے خلاف زبان کھولنے کی بھی سب سے چھوٹی سزا اپنی لاش بوری میں بند کروانا تھی بس اس دن سے نام نہاد قائد کا زوال شروع ہو گیا پھر اس کے پاکستان مردہ باد کے نعرے نے تو اس کی نفرت کی سیاست کو نیست و نابود ہی کردیا۔ سہراب گوٹھ یقیناً پختونوں کی اکثریت والا علاقہ ہے اسے پہلے مہاجروں کے دشمن کے طور پر جانا جاتا تھا اسی علاقے کے ایک وسیع میدان میں گزشتہ اتوار کو پاک سرزمین پارٹی نے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا۔ اس میں پختونوں کی جوق در جوق شرکت سے ایسا لگا جیسے مصطفیٰ کمال کی پختونوں کے دلوں میں پہلے سے محبت موجزن تھی۔ اس جلسے میں پختونوں اور مہاجروں کے ایک ساتھ والہانہ رقص کرنے کے مناظر کبھی نہیں بھلائے جاسکیں گے۔ ایسے بھائی چارگی اور گرم جوشی سے گلے ملنے کے مناظر پہلے کراچی میں نظر نہیں آئے تھے۔ اس جلسے کے انتظامی معاملات پختون بھائیوں نے خود سنبھالے تھے۔ علاقے کے عوام کے علاوہ پختون معززین نے اس میں بھرپور شرکت کی تھی۔
اس جلسے میں پی ایس پی کے ایک پختون رہنما نے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کا تالیوں کی گونج میں پرجوش استقبال کیا اور اپنی پرجوش تقریر میں پی ایس پی کی قیادت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس علاقے کو جلسہ گاہ کے لیے منتخب کرکے پختونوں کے دل جیت لیے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے اپنے خطاب میں کہا کہ پختون ہمارے بھائی ہیں۔ ہمارا رشتہ سیاست سے کہیں بڑھ کر کلمے کا ہے ہم سب ایک کلمہ گو اور پاکستانی ہیں۔ افسوس کہ ماضی میں ہم سب کو تقسیم کرکے ''را'' کے ایجنڈے پر عمل کیا جا رہا تھا۔ آج دہلی سے لندن تک آگ لگی ہوئی ہے، دشمنوں کے ہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے کہ یہ کیا ہوا ہم نے تو پختونوں کو مہاجروں کا دشمن بنا دیا تھا وہ کیسے یک جان ہوگئے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس شہر کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کرالیا ہے۔
بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کراچی میں نفرت پھیلانے کے لیے جو سرمایہ کاری کی تھی اسے پی ایس پی نے بحیرۂ عرب میں غرق کردیا ہے۔ ہم نے لسانیت اور عصبیت کی فالٹ لائن کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے پاکستانیت کے جذبے کو ابھارا ہے اور یہ وہ جذبہ ہے جسے کبھی کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ہم وقت کے فرعون کے خلاف نعرہ حق بلند کرنے آئے تھے جس کی پاداش میں نشان عبرت بنائے جاسکتے ہیں مگر ہم نہیں ڈرے اور فرعون کے خلاف ڈٹ گئے۔ لوگوں نے ہمارا اس لیے ساتھ دیا کہ ہم بھائی سے بھائی کو ملانے اور پاکستان کو بچانے آئے تھے اور ہمارے پاکستانی بھائی بھی یہی چاہتے تھے آج کروڑوں لوگ ہمارے ساتھ ہیں ہمارا محبت اور امن کا پیغام پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔ لوگ جوق در جوق ہمارے ساتھ آ کر جڑ رہے ہیں۔ ہم نے جبر کو جبر سے نہیں محبت سے شکست دی۔ ریاست کو ناراض بھائیوں کے ساتھ گرانڈ نیشنل میثاق کے ذریعے دائمی امن قائم کرنا چاہیے۔ اس تاریخی جلسے کو ملک بھر میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور اسے ملک میں انقلابی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔