The Inca Empire Peru
سلطنت انکا کا جنوب مغربی امریکا کے بڑے حصے تقریباً 18 لاکھ اسکوائر کلومیٹر پر راج تھا۔
سلطنت انکا (پیرو) قبل ازکولمپین امریکا (1438-1533) جسے دور جدید میں پیروکہا جاتا ہے، ہر طرح کی انتظامی، سیاسی اور فوجی لحاظ سے بہت بڑی سلطنت تھی۔ اس سلطنت کے ماتحت 100 سے زیادہ مختلف سماج، ساحلی علاقوں، میدانوں، پہاڑوں اور جنگلات تھے۔
سلطنت انکا کا جنوب مغربی امریکا کے بڑے حصے تقریباً 18 لاکھ اسکوائر کلومیٹر پر راج تھا۔ یہ کولمبیا، ایکواڈور، بولیویا، چلی اور ارجنٹینا پر مشتمل علاقہ تھا ۔ اس کی کل آبادی اس وقت 16 ملین یعنی ایک کروڑ 60 لاکھ کی تھی۔
1529 کے جولائی میں اسپین کی رانی ''اسابیلا'' نے سلطنت انکا کو فتح کرنے کے فیصلے پر دستخط کردیے۔ پیزارو جوکہ نااہل اور جاہل تھا اسے گورنر مقرر کرکے پیرو کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیا۔ پیزارو نے 168 ہسپانوی کرائے کے مسلح توپچیوں، آتشیں اسلحہ بردار، فولاد کی تلواروں، فولادوں کے ہلمٹوں اور گھوڑوں کے ساتھ ''کیجامارکا'' پہنچا۔ اسے ہسپانوی بادشاہ کی التجا پر بھیجا گیا تھا جب کہ مدمقابل 80,000 مقامی فوج جوکہ لکڑی کے تیر اور پتھروں سے لڑے۔ آخر کار پیزارو کو سلطان نے خوش آمدید کہہ کر بلایا اور پھر سرکاری پہریداروں کو مار کر تباہ و برباد کیا۔
پیزارو نے سلطان ''آتا ہوآلیا'' کو اغوا کیا اور ترجمہ نگار ''فریئروین سینٹی'' کا لکھا ہوا فرمان پڑھ کر سنایا گیا کہ سلطنت اسپین کے بادشاہ چارلس اول کے حکم پر مسیحیت کو قبول کرے۔ سلطان اسپین کی بادشاہت کے بارے میں انجان تھا اور نہ مسیحیت کے متعلق کوئی علم تھا۔ اس صورتحال میں سلطان نے پیزارو کو مطمئن کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سونا اور چاندی کی پیشکش کی۔ آخر کار اس بات پر رضامندی ہوئی کہ سلطان اس شرط پر رہا کردیا جائے گا کہ وہ دو کمرے 22x17 فٹ کو سونے اور چاندی سے بھردے۔
بہرحال انکا نے اس تاوان کو ادا کردیا۔ مگر پیزارو نے اس کے باوجود سلطان کو رہا نہیں کیا۔ بعد میں ''سلطان آتاہوآلیا'' کو 26 جولائی 1533 کو گیروٹ کے ذریعے قتل کردیا۔ 1537 تک فرانسسکو پیزارو نے کس طرح انکا سلطنت پر قبضہ کیا؟ 1541 تک منقسم سلطنت پر حکمرانی کرتا رہا جب تک کہ وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل نہ ہوا۔ اس کی حکمرانی میں 93 فیصد سلطنت انکا کی آبادی جوکہ ایک کروڑ60 لاکھ کی تھی تباہ و بربادی، بھوک غلامی اور بیماریوں سے ماری گئی۔ پیزارو نے ساری دولت کو لوٹا خاص کرکے سونا اور چاندی کو اسپین منتقل کیا۔
یہاں تک کہ سونے اور چاندی کے بنائے ہوئے فن پاروں کو پگھلا کر اسپین بھیجا گیا۔ فتح کے دوران پیزارو نے انکا کے خطے کو خوفزدہ کیا، بیشتر شہروں کو تباہ کیا، ان کی تہذیب اور یقین کو جبراً ہسپانوی تہذیب، زبان اور کیتھولک مسیحیت میں بدلا گیا۔ بچ جانے والے لوگوں کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا۔ ان کی بیٹیوں اور عورتوں کو آزادانہ طور پر ریپ کیا گیا اور غلاموں کو خرید و فروخت کرنے والے تاجروں کے ہاتھوں بیچا گیا۔ یہاں کی مقامی آبادی کو قابو کرنے میں 40 سال لگے۔
اسی دوران ٹوپیک آمارو (1571-72) ''سلطان آتاہوآلیا'' کے چھوٹے بھائی 19 سال کی عمر میں سلطنت کی بازیابی کے لیے دوبارہ کوشش کی۔ انھوں نے 2 لاکھ انکا لڑاکو تیار کیا اور ہسپانوی حملہ آوروں کو کوزکو میں گھیر لیا مگر ناکام ہوئے۔ وہ اور ان کے کمانڈروں کو قتل کردیا گیا۔1572 کے بعد سلطنت انکا ختم ہوگئی۔(The Aztec Empire) سلطنت ایزٹیک: Aztec عوام نے امریکا میں وسیع سلطنت قائم کی تھی۔ جس کا دارالحکومت ''ٹینوچ ٹیسٹ لیس'' تھا جوکہ وادی میکسیکو سے منسلک تھا۔
وہ اپنے کو سب سے زیادہ مضبوط تہذیبی گروہ کے طور پر گردانتے تھے۔ طاقت کی بلندی کے وقت The Aztec Empire میں 15 ملین یعنی ایک کروڑ 50 لاکھ لوگ جن کا مختلف تہذیبوں سے تعلق تھا اور تقریباً 50 شہروں اور ٹاؤنوں میں بستے تھے۔ یہ میکسیکو کے راستے سے گوئٹے مالا، ایسلواڈور اور ہونڈوراس تک پھیلے ہوئے تھے۔ 8 نومبر 1519 میں ہرین کوئس ایک ہسپانوی مداخلت کار سلطنت ایزٹیک کے دارلحکومت ٹیسنوچ ٹیسٹ لیس پر دھاوا بولا۔ یہ اس وقت کا دنیا کا چوتھا بڑا شہر تھا۔ اس کے بعد پیرس، وینس اور کانس ٹان ٹینوپول تھا۔
اس وقت ٹینوچ ٹیسٹ لین کی آبادی 3 لاکھ 50 ہزار کی تھی۔ یہاں 45 عوامی عمارتیں ایک جڑی بوٹیوں کا باغ '' مابوکا'' بے شمار عبادت گاہیں اور ایک 197 فٹ بلند جڑواں احرام موجود تھا۔ ہرین کورٹز 600 بلاوردی کی فوج کے ساتھ داخل ہوا۔ وہ توپ آتشی اسلحے اور جدید ہتھیاروں سے لیس تھے۔ کورٹز نے اپنے آپ کو ہسپانوی بادشاہ کا نمایندہ ظاہر کرکے ایزٹیک حکام سے بادشاہ سے ملاقات کی التجا کی۔ سلطان موکتے زوما دوم نے کشادہ دلی سے 8 نومبر 1519 کو اس پیش کش کو خوش آمدید کہا۔ سلطان نے مہمانوں کو ایک سونے اور دوسری چاندی کے دستکاری کیے ہوئے ایزٹیک کیلنڈرز پیش کیے۔
کوٹز کو خاتون میلیچی (جنھیں ڈونا مرینا) بھی کہا جاتا ہے کے ذریعے ترجمہ کرکے بتایا گیا۔ اجلاس کے دوران ہرمین کوٹز نے اچانک بندوق کی نوک پر سلطان کو اغوا کیا، ان کے ہتھیار بند لوگوں، بیشتر وزرا، قبائلی سردار اور اعلیٰ درجے کے افسروں کو اس وقت قتل کردیا گیا۔ جب کہ سلطان کے 80,000 فوجی شہر میں موجود تھے۔ مگر ان کے پاس لکڑی کے تیر اور پتھر تھے جب کہ مدمقابل جدید اسلحوں سے لیس تھے۔ سلطان کو ایک کمرے میں تالا لگا کر بند کردیا گیا۔
کمانڈروں کو یہ حکم صادر کیا گیا کہ وہ اس کام کو انجام دیں ورنہ انھیں قتل کردیا جائے گا۔ کورٹز نے فوری طور پر شاہی خزانے کو لوٹا، ریاسی معاملات کو چلانیوالا ''بیزارے'' کو 8 ماہ تک طویل عرصے لوٹا گیا بعدازاں سلطن کو سنسنی خیز صورتحال میں قتل کیا گیا۔ بہت جلد ان کے بھائی کوئیٹ لے ہویک بھی انتقال کرگئے۔ عوام کو دکھاوے کے لیے سلطان کے بھانجے کو ااوٹیموک کو سلطان کے نمایندے کے طور پر کورٹز نے سلطان مقرر کیا۔ خزانے کی نشاندہی کے لیے کورٹز نے ذاتی طور پر ایزٹیک کے سلطان کوااوٹیموک پر تشدد کیا، پاؤں کو جلایا، بعد میں سلطان کو قتل کردیا۔
ساتھ ساتھ سلطان کے تمام رشتے داروں کا قتل کیا سوائے ان کی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کے کہ انھیں ہسپانوی مداخلت کار اپنے ذاتی استعمال میں رکھیں گے۔ بعدازاں ہرمین کوٹز نے بوئزین کو اپنے لیے رکھا۔ سلطان کی بیٹی موکتے زوما دوم کو کیتھولک مسیحیت میں بہروپیابنا کر اس کا نام ڈونا ایزابیل رکھا گیا۔ اس نسل کشی کے دورانیے میں ایزٹیک سلطنت کے 80 فیصد مقامی آبادی کو 60 سال میں نیست و نابود کیا گیا، کچھ بھوک سے مرے، کچھ ہجرت کرنے کے دوران مرے اور باقی ہسپانیہ سے لائی گئی بیماریوں میں مارے گئے۔ ہازمین کورٹز سلطنت ایزٹیک کا نیا نام نیا اسپین رکھا۔ مسیحی مشینری نے مقامی آبادی کو کیتھولک مسیح بنانے کی کوشش میں ناکام ہوئے۔
تو انھیں خدا کا دشمن کے طور پر اعلان کیا گیا۔ پھر انھیں زندہ جلادیا گیا۔ سزائیں کان کاٹنے، ناک اور پاؤں کاٹنے کی مقرر کی۔ پھر مقامی آبادی کے پاس کوئی اور متبادل راستہ رہا نہیں کہ وہ یا تو مرجائیں یا کیتھولک مسیحیت کو قبول کریں۔ میکسیکو پر حملہ آور ہو کر جب مقامی لوگوں کو مسیحی بنانے کی کوشش میں ناکامی ہوئی تو انکاریوں کی دونوں ٹانگیں کاٹ کر انھیں ساتھ باندھ کر پھر پہیے میں باندھ کر گھسیٹا گیا۔ تشدد کرنے کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ سلک کا کپڑا منہ میں ٹھوس کر منہ کے ذریعے بڑے پیمانے پر پانی ڈالا جاتا جو معدے میں جاکر بھر جاتا جس کی وجہ سے شدید درد ہوتی۔
بہرحال ایزٹیک سلطنت کے لوگ بیماریوں، ہجرتوں، ذہنی اور جسمانی تشدد اور ان کی خواتین سے زنا بالجبر سے مرنے لگیں۔ ان کی لڑکیاں، بہنیں، بیویاں جبراً اغوا کی جانے لگیں اور پھر انھیں نامعلوم افراد کے ہاتھوں نامعلوم علاقوں میں فروخت کیا جاتا رہا۔ ان کے بچے ہسپانوی کتوں کے لیے استعمال ہوئے۔
ان کی نسل کشی اس حد تک ہوئی کہ 1520 میں ان کی آبادی ایک کروڑ20 لاکھ سے گھٹ کر 2 لاکھ افریقیوں کو درآمد کیا گیا۔ دنیا کی سارے آبادی کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ مقامی اور قدیم نسل کی آبادی جو بھی رہ گئی ہے اس کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ خصوصی طور پر ہر طرح سے ان کی جانب توجہ مرکوز کریں۔ اور فوری طور پر تیزی سے دوسری فاتح آبادیوں کے برابری تک لائیں۔ اس لیے بھی کہ وہی ہمارے آبا و اجداد ہیں جیساکہ سندھ میں کولھی، بھیل اور میگھوا۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ جب کہ انھی سے بیگار لے کر کروڑ پتی ارب پتی بن رہے ہیں۔ بورژوازی بجائے ان کی ہمدردی میں بیان دینے کے اپنی زمینیں انھیں بانٹ دیں۔