کیا پرویز مشرف غداری مقدمے سے بچ نکلیں گے

مقابلے کی دوڑ کے ہاتھوں مجبور ٹیلی ویژن چینلز ہر دوسرے لمحے عوام کو بریکنگ نیوز کا اس حد تک عادی کر چکے ہیں...


فیاض ولانہ January 07, 2014
مشرف کے وکیل منصور انور نے گزشتہ روز عدالت میں ہونے والی تلخ کلامی پر معافی بھی مانگی۔ فوٹو: فائل

مقابلے کی دوڑ کے ہاتھوں مجبور ٹیلی ویژن چینلز ہر دوسرے لمحے عوام کو بریکنگ نیوز کا اس حد تک عادی کر چکے ہیں کہ اب عوام کی ایک بڑی تعداد ہمارے میڈیا کو فی الواقع انتہائی متحرک فعال اور آزاد میڈیا سمجھنے لگی ہے ۔

حالانکہ عوام کی اس سادگی کی قلعی تو گزشتہ ہفتے اس وقت کھل گئی جب غداری کے کیس میں الجھے اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزرنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے قافلے کے ہمراہ چک شہزاد فارم ہاؤس سے نیشنل لائبریری کی عمارت میں قائم خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے نکلے اور ایک مبینہ نامعلوم ٹیلیفون کال نے ان کے قافلے کی منزل بدل دی۔ اب وہ مبینہ طور پر دل کے عارضہ میں مبتلا ہو کر آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی میں داخل ہیں۔ ہمارا فعال میڈیا اس نامعلوم ٹیلی فون کال کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا اور اگر پہنچ گیا ہے تو یہ آزاد میڈیا اسے مقابلے کی دوڑ کا ایندھن بناتے ہوئے بریکنگ نیوز کی نذر کرنے سے قاصر ہے۔ فعالیت اور آزادی کا یہی بانجھ پن ہمارے سیاسی اداروں میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے کل تک وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کو اکساتے ہوئے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت کے کٹہرے کے پیچھے کھڑا دیکھنے کی شدید خواہش کا اظہار کرنے والے بڑے بڑے سیاستدان اب بالواسطہ اور بلاواسطہ پرویز مشرف کی حمایت میں بیانات داغنے لگے ہیں۔

مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا پرویز مشرف کے حق میں بیان دینا اس لیے بھی بنتا ہے کہ وہ ان کے احسانات کے بوجھ تلے باقاعدہ دبے ہوئے ہیں۔ متحدہ والے الطاف حسین وقتی مجبوریوں سے اس حد تک عاجز آ چکے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کو دباؤ میں لانے کے لیے ہی سہی پرویزمشرف کے حق میں بیان پر بیان دیے جا رہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا غفور حیدری بھی پرویز مشرف کی محبت میں نہیں بلکہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے وفاقی کابینہ میں توسیع کے وعدے پر عملدرآمد میں تاخیر سے زیادہ اپ سیٹ ہیں، اس لیے وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے بالواسطہ سابق صدر پرویز مشرف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ حکومتی زعماء سے کچھ عرصہ قبل ہونے والی ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کر چکے تھے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے وہ اس بحث میں نہ پڑیں گے کہ کارروائی اکتوبر 99ء سے کی جائے یا نومبر 2007 سے مقدمات شروع کیے جائیں۔ اب نجانے کس نامعلوم اشارے یا فون کال کے نتیجے میں وہ بھی پرویز مشرف کے خلاف جاری کارروائی پر اعتراضات کرنے لگے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین، مولانا غفور حیدری، الطاف حسین اور سید خورشید احمد شاہ کی جانب سے حکومتی اقدامات کے خلاف آوازِ احتجاج بلند کرنے سے ایک امکان یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے اکسانے والے اب اس نازک مرحلے پر وزیراعظم محمد نواز شریف کو تنہا کرکے سیاسی اعتبار سے دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش تو نہیں کر رہے، اس سارے معاملے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا کردار اور سیاسی چالیں بھی بڑی دلچسپ ہیں۔



انہوں نے ببانگِ دہل جب یہ کہا کہ میں دیکھوں گا کہ آرمی چیف میرے دفاع میں کس حد تک جاتے ہیں تو عام خیال یہ تھا کہ شاید پرویز مشرف اب مکمل طور پر تنہا ہو چکے ہیں اسی لیے درونِ پردہ کی جانے والی بات سرِ عام کہہ رہے ہیں مگر پاک فوج کی جانب سے اس بیان کے ردعمل میں ایک لفظ تک ادا نہ کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پرویز مشرف کا براہ راست دیا جانے والا پیغام انتہائی عزت و احترام سے قبول کر لیا گیا ہے۔ اس پیغام پر اگر کسی کو اعتراض ہوتا تو اظہارِ ناراضگی کر دیا جاتا۔ ایسا بھی نہ کیا گیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ سابق آرمی چیف کی جانب سے سرِعام کی جانے والی مدد کی اپیل کے حوالے سے درونِ پردہ کام شروع کر دیا گیا ہے، البتہ کس حد تک یہ کام تسلی بخش ہو گا اس کا تعین آنے والے چند روز میں ہو جائے گا کہ پرویز مشرف کیس کے حوالے سے اب بہت سی رپورٹیں، اطلاعات اور رابطے خفیہ ، سربمہر اور نامعلوم کے زمرے میں آتی ہیں ۔ البتہ ان سب کارروائیوں کا کچھ نتیجہ تو نکلے گا جسے ساری دنیا نے دیکھنا ہے۔

ادھر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعود الفیصل بن عبدالعزیز نے میڈیا کے سوالوں کے جواب میں تو کہہ دیا کہ پرویز مشرف کامعاملہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ مگر ساری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب میاں نواز شریف ایک تحریری معاہدے کے نتیجے میں سعودی عرب سدھارے تو اس وقت بھی یہ معاملہ پاکستان کااندرونی معاملہ تھا البتہ وقت اور حالات مختلف ہیں اسی لیے پرویز مشرف کو مدد کی اپیل خفیہ رابطوں کاروں کے بجائے سرِعام کرنا پڑ رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اب تک پرویز مشرف کیس کے حوالے سے انتہائی واضح اور سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں اور یہی عالم ان کی کابینہ کے اکثر اراکین کا ہے مگر بتانے والے بتاتے ہیں کہ حکومتی پارٹی میں بھی اختلاف رائے موجود ہے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف اپنی کابینہ میں ردو بدل اور توسیع بھی اپنے دورۂ سوئٹزر لینڈ سے قبل کرنا چاہتے ہیں کہ جے یو آئی (ف) جیسے تعاون کاروں نے کابینہ میں ان کی شمولیت میں ہونے والی تاخیر پر برملا پریشانی کا اظہار شروع کردیا ہے جبکہ وزیراعظم کی اپنی کابینہ کے بعض ارکان بھی رد و بدل چاہتے ہیں جیسا کہ وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات اس بات سے ناخوش ہیں کہ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمدیوسف نے سب معاملات اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں اور اہم معاملات پر ان سے مشاورت تک نہیں کی جاتی۔ وہ وزیراعظم نواز شریف تک یہ پیغام کامیابی سے پہنچا چکے ہیں کہ اس بے اختیار وزیر مملکت کے عہدے سے بہتر ہے مجھے کسی خود مختار یا نیم خود مختار قومی ادارے کی سربراہی دے دی جائے جہاں میں کام کرکے اپنی صلاحیتوں کا اظہار اور ملک و قوم کی خدمت تو کر سکوں۔

وزیراعظم نواز شریف خود بھی تمام کابینہ اراکین کی گزشتہ 6 ماہ کی کارکردگی کی روشنی میں سخت ترین فیصلے کرنے کے خواہاں ہیں اور آنے والے دنوں میں اس حوالے سے سخت فیصلے دیکھنے کو ملیں گے۔ البتہ کابینہ میں ممکنہ توسیع کے حوالے سے بہت سے حکومتی و اتحادی اراکین پارلیمنٹ اس امید سے وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم آفس کے چکر لگانے میں مصروف ہیں کہ شاید قرعہ ان کے نام نکل آئے اور وہ بھی حلف اٹھانے والے وزراء کی صف میں شامل ہو جائیں۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اب تو محسوس ہونے لگا ہے کہ مسلم لیگ (ن) والے بہت سے معاملات بالخصوص پنجاب میں گومگو کی کیفیت میں رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی پارٹی کی حد تک صف بندی مکمل رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی ٹیم کو بلدیاتی انتخابات میں چاروں شانے چت کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور تحریک انصاف والوں کو معلوم تب ہو گا جب پانی سر سے گزر چکا ہو گا۔ البتہ گزشتہ روز عمر کوٹ سندھ میں ہونے والے تحریک انصاف کے بھرپور جلسے سے عمران خان اور ان کی جماعت کے سرگرم کارکنان بے حد پرجوش نظر آ رہے ہیں اور انہیں بلدیاتی انتخابات میں حیران کن کامیابیوں کی امید بھی ہو چکی ہے، مگر یاد رہے کہ عمر کوٹ کے علاقے میں تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے مریدین تو زیادہ ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار کے ووٹر بھی ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں