سینٹ چیئرمین الیکشن میں کامیابی بی اے پی کو ملک گیرپارٹی بنانے پر غور

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے دوران چھوٹے صوبوں بلوچستان اور کے پی کے کو اہمیت ملی ہے۔


رضا الرحمٰن March 17, 2021
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے دوران چھوٹے صوبوں بلوچستان اور کے پی کے کو اہمیت ملی ہے۔فوٹو : فائل

بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے نومنتخب چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ہرا کر دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوگئے ہیں، جبکہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے مرزا خان آفریدی جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفورحیدری کو شکست دے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے ہیں۔

سیاسی حلقوں میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر کافی بحث و مباحثہ رہا اور شرطیں بھی لگیں۔ عددی اعتبار سے پی ڈی ایم کو سینیٹ میں برتری حاصل تھی جبکہ قومی اسمبلی میںعددی لحاظ سے حکومت اوراس کی اتحادیوں کو برتری تھی لیکن نتائج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے عددی برتری کے برعکس آئے جس سے ملک میں سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ سیاسی حلقے اس حوالے سے اب مستقبل پر مختلف رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے دوران چھوٹے صوبوں بلوچستان اور کے پی کے کو اہمیت ملی ہے، خصوصاً بلوچستان عوامی پارٹی جو کہ بہت قلیل عرصے میں ملک کے سیاسی منظرنامے میں بڑی تندہی کے ساتھ ابھرکر آئی ہے اور اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو ملک گیر سطح پر وسعت دینے کیلئے کافی عرصے سے سوچ وبچار کی جا رہی ہے اور اس جماعت کا نام بھی تبدیل کر کے قومی سطح کا نام تجویز کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جوکہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت تھی اتحاد ختم کرکے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر آگئی ہے جس کے بعد تحریک انصاف نے زیادہ اہمیت بلوچستان عوامی پارٹی کو دینا شروع کر دی ہے جس کی ایک واضح اور عملی مثال سینیٹ کی چیئرمین شپ بھی ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سینیٹ میں اکثریت کے باوجود چیئرمین شپ کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی کو دوبارہ مشترکہ امیدوار نامزد کرکے ''ترپ'' کا پتہ اس لئے بھی کھیلا کہ انہیں اس بات کی امید تھی گوکہ سینیٹ میں عددی اعتبار سے ان کے نمبر کم ہیں تاہم بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں جوکہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ان کی حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں کوئی ایک آدھ ٹوٹ کر حکومتی کیمپ میں آسکتی ہے ؟ لیکن ایسا نہیں ہوا حالانکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال عالیانی اور صادق سنجرانی نے اپنے طور پر بلوچستان کی ان قوم پرست جماعتوں سے رابطے بھی کئے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پی ڈی ایم کی اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہ بات کافی زیر بحث رہی کہ اے این پی بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت شمار ہوتی ہے اور سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے دوران اے این پی کے بلوچستان سے منتخب ہونے والے واحد سینیٹر کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بلوچستان عوامی پارٹی کا تعاون اور مدد رہی ہے لہٰذا زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اے این پی کا بلوچستان سے سینیٹ کا یہ ووٹ چیئرمین کے عہدے کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار صادق سنجرانی کو جا سکتا ہے ؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اے این پی نے اپنی کمٹمنٹ کے ساتھ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوںکیلئے علی اعلان پی ڈی ایم کے امیدواروں کو ووٹ دیئے۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات اور پھر چیئرمین وڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے بعد کابینہ سمیت بعض سیاسی حوالے سے تبدیلیوںکی جو باز گشت سنائی دے رہی تھی اسے وزیراعلیٰ جام کمال کے ایک بیان جس میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلیوں سے حکومت مزید مستحکم ہوگی کو تقویت مل رہی ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق جہاں صوبائی کابینہ میں ردوبدل کی خبریں آرہی ہیں وہاں بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر اکھاڑ بچھاڑکے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب صوبائی حکومت ان بیورو کریٹس کے خلاف بھی کارروائی کرنے پر سوچ بچار کر رہی ہے جن کے خلاف نیب میں کیسز ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت نے نیب بلوچستان سے تفصیلات بھی مانگ لی ہیں، آئندہ چند روز میں اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر کارروائی اور فیصلے متوقع ہیں۔

اس کے علاوہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ ووزیراعظم پاکستان عمران خان نے وفاقی کابینہ میں اپنی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو وعدے کے مطابق نمائندگی دینے کا بھی عندیہ دے دیا ہے جس کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کے دو سینیٹرز انوارالحق کاکڑ اور میر سرفراز بگٹی کے نام گردش کر رہے ہیں جن کے حوالے سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے دوران یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ پارٹی قیادت سے ناراض ہیں۔

تاہم ایک اہم شخصیت سے ملاقات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے ان دونوں سینیٹرزنے میڈیا کے سامنے آکر اپنے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں کی سختی سے تردید کی اور یہ تاثر دیا کہ وہ اپنی جماعت کے فیصلے پر لبیک کہتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے عہدے کیلئے مشترکہ امیدوار صادق سنجرانی کو کامیاب بنانے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کارلائیں گے۔ میڈیا سے ان کی اس گفتگوکے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اختلافات کی تمام افواہیں اور باتیں دم توڑ گئیں۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ قرعہ ان دونوں میں سے کس کے نام کا نکلتا ہے؟جبکہ وفاقی وزارت کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی میں قومی اسمبلی کے رکن اسرار ترین بھی ایک مضبوط امیدوار رہے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔