عورت مارچ کے بارے میں چند معروضات
مشرف دور کے بعد خواتین کے حقوق کے نام پر ایک بار پھر دور حاضر میں سب سے زیادہ زور لگ رہا ہے۔
کوئی الٹا لٹک جائے تب بھی اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے، اس کے علاوہ آپ کوئی نظریہ، کوئی سوچ، کوئی فکر،کوئی نظام یا کوئی کلچر اپنائیں گے، تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ گزشتہ سات دہائیوں کی تاریخِ پاکستان ہمارے سامنے ہے۔
آج سے چند روز بعد پوری قوم یوم پاکستان منائے گی، سرکاری و غیر سرکاری سطح پر مختلف تقاریب ہوں گی، سیمینارز منعقد کیے جائیں گے، یہ دن آئے گا اور گزر جائے گا، کوئی اس تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرے گا کہ آج سے اسی سال قبل 23مارچ 1940 کو ہمارے اکابرین نے جو قرارداد پیش کی تھی اور اس قرار داد کی روشنی میں ہمارے آبا و اجداد نے جوطویل جدوجہد کی، جو قربانیاں پیش کیں وہ اسلام کے نام پر ایک آزاد مملکت کے لیے تھیں۔
یا ایک مادر پدر آزاد معاشرے کے لیے تھیں؟ 8مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر مٹھی بھر مغرب زدہ ٹولے نے جو اودھم مچایا، جس طوفان بیہودگی کا مظاہرہ کیا اور جو زبان اورسوچ قوم پر مسلط کرنے کوشش کی، اس نے ہمیں گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب جب اس قسم کی فضولیات ہمارے سامنے آتی ہیں تب تب ہمارے قلوب و اذہان میں یہ سوال اٹھتا ہے، کیا یہ ملک ایسے مارچز کے لیے بنایا گیا تھا؟ لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر نام نہاد روشن خیال عورت مارچ کو دیکھ کر بانیان پاکستان کی روحیں حیران ہوئی ہوں گی، وہ کہہ رہی ہوں گی ہم نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے لیے اپنی گردنیں کٹوائی تھیں، اس مملکت خداداد کواسلام کے بجائے مغربی کلچر کی جانب کون دھکیل رہا ہے؟
روز اول سے ہی پاکستان میں ایک مخصوص لابی اپنے نظریات کی بالادستی کے لیے متحرک چلی آرہی ہے، مغرب زدہ اس لابی نے ہمیشہ ''شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار'' ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ اسی چھوٹے سے اقلیتی طبقے نے گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان کو اسلامائزیشن کی جانب بڑھنے نہیں دیا۔
پاکستان میں جب کبھی اس حوالے سے پیش رفت ہوتی ہے تو اس طبقے کے لوگ کونے کھدروں سے نکل آتے ہیں اور مغربی کلچرکی وکالت شروع کر دیتے ہیں، اس طبقے کو مولوی سے خدا جانے کیا بیر ہے، جب اسلام اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو ان کی توپوں کا رخ بیچارے مولوی کی جانب ہوجاتا ہے، اسی پرجا کر ان کی تان ٹوٹتی ہے۔ یہ تان اس لیے ٹوٹتی ہے کہ ان کے ایجنڈے کی راہ میں اگر کوئی سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے تو وہ صرف مولوی ہی ہے۔
آپ دیکھ لیں کہ 8مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی آڑ میں جو مظاہرہ ہوا، اس پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مذمت کا ایک جملہ بھی نہیں کہا گیا؟ ویسے تو ان کی کوئی بھی تقریر ''ایاک نعبدو وایاک نستعین'' کے بغیر شروع نہیں ہوتی، لیکن اسلام آباد کی سڑکوں پر مٹھی بھر مغرب زدہ طبقے نے جو شوروغل مچایا،اس پر وہ خاموش رہے۔ کیا کوئی اسلامی ملک کی حکومت ایسے مارچ کی اجازت دے سکتی ہے، یہ خواتین کون سی آزادی کی بات کررہی ہیں۔ کیا اسلام عورت کی ترقی کا مخالف ہے۔
کیا اسلام نے عورت کی آزادی پر کوئی قد غن لگا رکھی ہے؟ دنیا بھر کے ارسطو بھی سرجوڑ کر بیٹھ جائیں اور تاریخ انسانیت کے اوراق کھنگال لیں، جب وہ جانبداری سے اپنی محنت کا لب لباب پیش کریں تو یہی کہنے پر مجبور ہوں گے کہ عورت کو آزادی اور حقوق اسلام سے زیادہ کسی اور مذہب یا معاشرے نے نہیں دیے۔ جو نبیﷺتمام جہانوں کے لیے رحمت اللعالمینﷺ بن کر آئے، جو اپنے جانثاروں کو انسانوں ہی نہیں جانوروں اور پیڑ پودوں کے حقوق کی تعلیم بھی دیتے رہے ان کی شریعت میں بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ عورت کے حقوق چھین لیے جاتے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس ٹولے کا ایجنڈا عورت کے حقوق کاہے ہی نہیں، ان کا ایجنڈا مغربی کلچر کو فروغ دینا ہے۔ اگر یہ بات درست نہیں تو پھرکوئی بتائے کہ ان کے پروگرام میں غیر ملکی پرچم کیوں لہرائے جارہے تھے؟ وزیر اعظم کو تو چھوڑیں کسی سیاسی جماعت کے لیڈر نے اس کا نوٹس نہیں لیا،کسی نے مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا۔ اس مسئلے پر اگر توانا آواز سنائی دی ہے تو وہ بھی مولانا فضل الرحمان کی تھی جنہوں نے واشگاف الفاظ میں ناصرف اس کی مذمت کی بلکہ وارننگ دی کہ ملک کی کسی بھی جگہ ایسے قابل اعتراض پروگرام ہوئے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے روکیں اگروہ نہ روکیں تو کارکن بزور طاقت ایسے پروگراموں کا انعقاد روکیں۔
اس گروہ نے عورت کی آزادی کے نام پر مشرف دور میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا، لیکن اسلام پسند اس طوفان بدتمیزی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کر کھڑے ہوگئے، جب مغرب زدہ خواتین و حضرات نے گوجرانوالہ میں میراتھن ریس کا اعلان کیا تو مفتی محمودؒ کا ایک سپاہی ، مرد درویش قاضی حمید اللہ خان سابق رکن قومی اسمبلی میدان میں نکلا۔انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس میراتھن ریس کو الٹا کر رکھ دیا،اس واقعے میں قاضی صاحب مرحوم کے صاحبزادے مولانا کفایت اللہ کی ایک آنکھ بھی ضایع ہوگئی۔ اس واقعہ کے بعد آج تک وہاں کسی مائی کے لعل میں ہمت نہیں ہوئی کہ مغربی تہذیب کے فروغ کے لیے کوئی پروگرام کرسکے۔
مشرف دور کے بعد خواتین کے حقوق کے نام پر ایک بار پھر دور حاضر میں سب سے زیادہ زور لگ رہا ہے، عورت مارچ کی ویڈیوزموجود ہیں جن میں مارچ میں لگنے والے نعروں کو سنا اور دیکھا جاسکتا ہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اگر ریاست اپنی ذمے داری پوری نہیں کرے گی تو پھر اگلے سال 8مارچ کو تصادم کا خطرہ ہوسکتا ہے اور اس کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوگی۔
اس سال 8مارچ کو جماعت اسلامی کی باپردہ خواتین نے حیا ڈے منایا، مختلف شہروں میں ریلیوں کا انعقاد کیا گیا، جماعت اسلامی سے وابستہ خواتین نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے وہ ناصرف اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھے بلکہ ہمارے معاشرے کی صحیح تصویر بھی پیش کررہے تھے۔ جماعت اسلامی کی خواتین نے بھی یہ پیغام دیا کہ ملک کے مٹھی بھر مغرب زدہ طبقے کے عزائم کا ہم اسلامی تعلیمات کے نور سے ،ظلمت کے ان اندھیروں کا مقابلہ کریں گے۔