فتح خان وزیر۔۔۔ جس کا نام پختونوں کے لیے ضرب المثل بن گیا

ایک بہادر، سخی اور جنگی حکمت عملی کے ماہر کے دردناک انجام کی کہانی۔


Rokhan Yousufzai March 21, 2021
ایک بہادر، سخی اور جنگی حکمت عملی کے ماہر کے دردناک انجام کی کہانی۔

جارج برنارڈر شاہ نے کہا ہے،''تاریخ سے ہم صرف یہ سبق سیکھتے ہیں کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔'' حقیقت آج بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ یا تو سرے سے ہی تاریخ کا مطالعہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں کوئی واضح شعور اور علم رکھتے ہیں۔

کم ازکم تاریخ کے طالب علم اور تاریخ سے دل چسپی رکھنے والے کے لیے اتنا علم اور تاریخی شعور کا ہونا ضروری ہے کہ وہ گزری ہوئی صدیوں اور ہزاروں سال پرانے واقعات اور حالات کو اس وقت کے سیاسی اور معاشرتی تناظر میں پرکھ سکے جسے عرف عام میں اس زمانے کے معروضی حالات کانام دیا جاتا ہے۔

اب جہاں تک پختونوں کی تاریخ میں فتح خان کی زندگی، جدوجہد کارناموں اور بالخصوص اس کی حاضردماغی اور بہادری کا تعلق ہے کہنے اور سننے کی حد تک تو اکثروبیشتر پختون اپنے موقع محل پر پشتو کی اس ضرب المثل کو استعمال کرتے ہیں کہ

''سیزسہ سیزنہ دے اورنوم ئے فتح خان دے''

(یعنی چیز کچھ بھی نہیں لیکن نام اس نے فتح خان رکھا) ہے۔ یعنی فتح خان نام صرف اس شخص کو زیب دیتا ہے جو پختون معاشرے میں کوئی خاص کارنامہ سرانجام دینے والا ہو اور اپنی چند منفردخصوصیات کی بناء پردیگر عام لوگوں سے ایک جداگانہ مقام اور شخصیت کا حامل ہو، کیوںکہ پختونوں کی تاریخ میں فتح خان بہادری، دلیری، سخاوت، جواںمردی اور جنگی حکمت عملی جیسے اوصاف رکھنے والے کو کہا جاتا ہے اور اس لحاظ فتح خان پشتو زبان میں ایک باقاعدہ انہی اوصاف کی علامت بن چکا ہے۔

فتح خان وزیر جس نے ساری عمر ایک شیر کی طرح بہادری سے گزاری تھی اور بادشاہ محمود کو بادشاہی دلانے اور پھر امورسلطنت کے تمام گُر بھی فتح خان نے سکھائے تھے فتح خان نے اپنی زندگی میں جتنی بھی جنگیں لڑیں۔ وہ اکثر جنگوں میں اسم باسمیٰ ثابت ہوئے اور اپنے مخالفین کو باربار عبرت ناک شکست دینے میں کام یاب رہے۔

فتح خان پختونوں کے مشہور حکم راں خاندان (افغانستان پر عموماً اسی خاندان کے افراد نے حکومت کی ہے) قبیلہ سدوزئی کی شاخ بارک زئی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد پائندہ خان اپنے قبیلے کے ایک نام ور سردار تھے، جنہیں بہادری اور قبیلوں کی طاقت کی بنا پر احمدشاہ ابدالی کے بیٹے تیمورشاہ نے ''سرفراز'' کے خطاب سے نوازا تھا۔

جس وقت ایک معمولی سی غلط فہمی کی وجہ سے ان کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے اور بادشاہ کو کسی نے غلط بیانی کرکے پائندہ خان کو گرفتار کرنے کے لیے اکسایا تو انہوں نے اپنے ایک انتظامی افسر کو بمعہ ایک پوری ٹیم کے پائندہ خان کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر بھیجا۔ افسر جیسے ہی ان کے حجرے میں داخل ہوا پائندہ خان نے اس افسر کے چہرے کے تاثرات اور اس کے دل میں چھپے ہوئے چور کو دیکھ لیا اور جان گئے کہ یہ لوگ میرے والد کو گرفتار کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔

لہٰذا حاضردماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فتح خان نے کہا کہ اس وقت تو میرے والد گھر پر موجود نہیں، آپ لوگ انتظار کریں میں کچھ کھانے پینے کا بندوبست بھی کرتا ہوں اور ہوسکتا ہے کہ اتنی دیر میں میرے والد بھی آجائے افسر کو حجرے میں بٹھا کر سیدھا والد کے پاس آئے اور اسے پوری صورت حال سے آگاہ کردیا کہ اس سے پہلے کہ یہ لوگ آپ کو گرفتار کرکے لے جائیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آنے والے اس افسر کو قتل کرکے دیگر سپاہیوں کو گرفتار کردینا چاہیے۔ اس کے بعد خود یہاں سے فرار ہوکر سیدھا قندھار چلے جانا چاہیے۔

فتح خان کی یہ تجویز سن کر والد نے اسے بہت زیادہ ڈانٹا کہ پختون کی دہلیز پر آیا ہوا۔ مہمان اگر ان کے عزیز کا قاتل بھی ہو، اس کی عزت اور مہمان داری کرتے ہیں۔ اپنے گھر اور حجرے میں کسی پر ہاتھ اٹھانا ''پختون ولی'' کے خلاف ہے اور یہ ایک گری ہوئی حرکت ہے۔ چناںچہ پائندہ خان نے فتح خان کی ایک نہ سنی اور اس افسر کے ہم راہی میں بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ اگلے روز وہی ہوا جس کا اندیشہ فتح خان نے پہلے ہی سے ظاہر کیا تھا۔ ان کے والد کواپنے دیگر چند ساتھیوں سمت بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ فتح خان نے فرار ہوکر گرشک کے مقام پر اپنے خاندانی قلعہ میں سکونت اختیار کرلی اور اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے سرگرم عمل ہوگئے۔ اپنے قبیلے اور خاندان کے لوگوں کو جذبہ انتقام سے سرشار کرکے حکومت کا تختہ الٹنے کا ایک جرأت مندانہ فیصلہ کرلیا۔

چوںکہ اُس وقت کے سیاسی حالات بھی کچھ اس طرح کے تھے کہ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت تھی، لہٰذا وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے فتح خان نے شاہ محمود کو پیغام بھیجا کہ وہ دوسروں پر بے جا اعتماد کرنا چھوڑدے اور اگر تخت کابل پر قبضہ کرنے کی خواہش ہے تو آگے بڑھے میں اور میرے قبیلے کے تمام افراد ان کا ساتھ دیں گے۔

اس وقت شاہ محمود ہرات میں تھا اور پانچ سال سے اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ افغانستان پر حکم رانی حاصل کرنے کے لیے فارس کے حکم راں قاچار خاندان کی مدد حاصل کرے، لیکن جب فتح خان کا یہ پیغام اسے پہنچا تو اس نے قندھار پر چڑھائی کے لیے تیاری شروع کردی۔

وہ ہرات سے روانہ ہوا، قبیلہ بارک بازئی کے تمام افراد محمود کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے اور قندھار کا محاصرہ کرلیا۔ جب اس محاصرے کا فوری طور پر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو فتح خان نے اپنی جان پر کھیل کر شہر کے بڑے قلعے کا دروازہ کھولنے کی تدبیر نکالی۔ رات کی تاریکی اور سناٹے میں وہ تن تنہا شہر میں داخل ہوئے اور ''ننواتے'' کی رسم پوری کرتے ہوئے اپنے آپ کو قلعے کے کماندار عبداللہ خان کے حوالے کردیا اور اس سے منت سماجت کرکے کہا کہ خدارا! یہ میری اور میرے پورے قبیلے کی عزت کا معاملہ ہے۔ اس سخت وقت اور نازک حالات میں ہمارا ساتھ دو۔ عبداللہ خان پر فتح خان کی باتوں نے اتنا اثر کیا کہ اس نے اسی وقت شاہ محمود کی حمایت کا اعلان کرکے شہر اس کے حوالے کردیا۔

بہرکیف فتح خان کی کوششوں اور جنگی حکمت عملی رنگ لائی اور انہوں نے محمود کے ساتھ کیا ہوا وعدہ سچ ثابت کر دکھایا۔ محمود پہلی مرتبہ صرف تین سال تک افغانستان کا حکم راں رہا، تاہم اس کی حکومت اتنے عرصے محض فتح خان کی جواںمردی مشاورت اور حمایت کے بل بوتے پر قائم رہی۔

فتح خان نے اکثر لڑائیوں میں فتح وکامرانی حاصل کی۔ گھمسان کی تین لڑائیوں میں خلجی قبیلے کی خطرناک بغاوت اس طرح کچل ڈالی کہ دوبارہ انہوں نے سراٹھانے کی جرأت نہیں کی اور جس وقت شجاع نے اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کی کرسی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پشاور کی طرف پیش قدمی کی اس کے راستے میں بھی فتح خان ایک لوہے کی دیوار ثابت ہوا۔ شاہ شجاع کے لشکر میں بیشتر یوسف زئی اور آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد تھے جن کی تعداد دس ہزار سے زائد تھی۔

1801؁ء میں یہی لشکر پشاور سے روانہ ہوا جلال آباد سے مغرب کی جانب چند میل کے فاصلے پر سرخ رود کے مقام پر فتح خان سے اس کا مقابلہ ہوا۔ لڑائی کے آغاز میں شجاع کی فوج نے فتح حاصل کی، کیوںکہ دونوں قبیلوں کے افراد بڑی بہادری کے ساتھ لڑے۔ تاہم لڑائی کے اپنے جو دیگر کچھ قواعد وضوابط ہوتے ہیں وہ بچارے ان اصولوں سے ناواقف تھے لہٰذا جوں ہی انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ فتح خان کی فوج مغلوب ہوگئی ہے، وہ سب شاہی خزانہ لوٹنے کی غرض سے جنگی صفیں چھوڑ کے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے دوڑ پڑے۔

اس افراتفری اور انتشار سے فائدہ اٹھائے ہوئے فتح خان نے ازسرنو حملہ کردیا اور ہاری ہوئی بازی جیت میں بدل دی۔ شاہ شجاع نے آفریدی علاقے میں فرار ہوکر چورہ کے مقام پر پناہ لی۔ ایک سال بعد 1802ء میں شجاع بارہ ہزار آفریدیوں کا لشکر لے کر دوبارہ میدان میں اترا اور پشاور شہر پر ہلا بول دیا، جس پر سرخ رود کی لڑائی کے بعد شاہ محمود کا قبضہ ہوگیا تھا۔ پشاور پر یہ حملہ موسم گرما کے دوران کیا گیا تھا۔ آفریدیوں کو شکست ہوئی اور ان کے بہت سے آدمی جنگ میں مارے گئے اور بہت سے اپنے علاقے تک پہنچنے سے پہلے پیاس اور گرمی کی شدت سے مرگئے۔ شاہ شجاع خوش نصیب تھا کہ وہ واپس چورہ پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔

آفریدیوں کی اس شکست کے بعد فتح خان خود پشاور آئے۔ انہوں نے شہریوں اور آس پاس کے قبائل پر بھاری جرمانے عائد کیے اور جس راستے سے بابر1505ء میں اپنی پہلی مہم پر روانہ ہوا تھا، اس راستے سے کوہاٹ، ہنگو، ٹل اور بنوں ہوتے ہوئے دامان پہنچے۔ وہ راستے میں جہاں سے بھی گزرے وہاں کی آبادی پر محصول لگایا۔ انہوں نے نظم ونسق کے میدان میں کوئی مستقل اثر نہیں چھوڑا، تاہم فتح خان کو آج بھی پشاور شہر کے لوگ اپنے اس باغ کی وجہ سے یاد کرتے ہیں جو انہوں نے 1802-3ء میں شہر کے جنوب میں لگوایا اور جو آج بھی انہی کے نام یعنی فتح خان وزیر کے سابقے سے وزیرباغ کے نام سے مشہور ہے۔

''دی پٹھان'' کے مصنف کیرو لکھتے ہیں کہ ''وزیرباغ سرو کی گھنی قطاروں اور جنگ اور میلے کے موقع پر پختون قبائل کے اجتماع کے لیے بڑا مشہور تھا۔ فتح خان کا چھوٹا سوتیلا بھائی سلطان محمد خان جب تک پشاور کا حاکم رہا اسی باغ میں اپنی بیوی بچوں سمیت مقیم رہا۔ فتح خان کی غیرموجودگی پر کوئی دوسرا ایسا قابل اور ذہین شخص نہیں تھا کہ وہ شاہ محمود کو صحیح مشورہ دیتا۔ شاہ محمود کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ وہ اپنے سنی عقیدے سے برگشتہ ہوگیا ہے۔

اس الزام تراشی میں ایک درانی سردارمختارالدولہ کا بڑا ہاتھ تھا، جس نے ایک سازش تیار کی اور شاہ شجاع کو تخت پر قبضہ کرنے کی دعوت دی۔ شجاع 1802ء میں چورہ کے مقام سے رخصت ہوگیا تھا، اسے ڈر تھا کہ پشاور میں فتح خان جیسے طاقت ور اور جنگجو آدمی کی موجودگی میں ان پہاڑوں میں بھی محفوظ نہیں رہا جاسکتا، لہٰذا وہ ژوب کے راستے شل کوئٹہ پہنچا۔ مختار الدولہ سے اس کی ملاقات وزیرستان میں ہوئی۔ وہاں سے پھر کابل گیا، جہاں محمود کے خلاف افراتفری پھیلی ہوئی تھی اور خود محمود قلعہ بالاحصار میں محصور تھا۔ شاہ شجاع اور مختارالدولہ نے شہر سے باہر پڑاؤ ڈالا اور فتح خان کے مقابلے کے لیے دس ہزار سپاہیوں کی فوج تیار کرکے آگے بڑھے۔

1809ء میں محمود دوبارہ کابل کے تحت پر بیٹھا تھا لیکن حکومت کی باگ ڈور فتح خان کے ہاتھ میں تھی اورجس سال 1818ء میں رنجیت سنگھ نے ملتان فتح کیا تھا، اس وقت فتح خان خود ہرات پر ایرانیوں کا ایک بہت بڑا حملہ پسپا کرنے گیا تھا اور جب حملے کو پسپا کرنے کے بعد ہرات کے گورنر شاہ محمود کے بیٹے کامران خان نے مقامی خزانہ فتح خان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تو فتح خان طیش میں آگئے اور اپنے بھائی دوست محمد خان کو ہدایت کی کہ وہ محل میں جاکر خزانہ کامران سے واپس چھین لے۔ دوست محمد خان اپنے ایک سکھ دوست کے ساتھ محل میں داخل ہوا اور اس مہم میں شاہی خاندان کی ایک خاتون کی بے عزتی بھی کرڈالی۔ کم ازکم کامران کا تو یہی دعویٰ تھا۔

لہٰذا کامران نے اپنی بہن کی بے حرمتی کا بہانہ بناکر اپنے والد بادشاہ محمود کو فتح خان کی گرفتاری کے لیے طیش دلایا۔ لہٰذا فتح خان کو کسی بہانے شاہ محمود اپنے دربار تک لانے میں کام یاب ہوگیا اور اسے گرفتار کرکے پہلے اس کی کھال اتار دی گئی، بعد میں شاہ محمود اور کامران کے سامنے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔ اس بادشاہ محمود نے جس کو فتح خان نے افغانستان کی بادشاہیت دلائی تھی اسے امورسلطنت کے تمام رموز سے آشنا کیا تھا، اپنے محسن کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بادشاہوں کو انسانوں، اپنے عزیزواقارب اور دوستوں سے زیادہ بادشاہی منصب اور تاج عزیز ہوتا ہے۔

امیرعبدالرحمان لکھتے ہیں،''1818ء میں محمود نے اپنے دغاباز بیٹے کامران اور دوسرے لوگوں کی باتوں میں آکر فتح خان کو، جس نے محمود کو دو مرتبہ تخت پر بٹھایا تھا اور جاں نثاری کے ساتھ خدمات بجا لایا تھا، طرح طرح کی اذیتیں دیں اور اس کی آنکھیں نکلوادیں۔ آخر میں جب فتح خان نے اپنے بھائیوں کے ساتھ غداری کرنے سے انکارکردیا تو بادشاہ کے حکم سے اور اس کی موجودگی میں جو فتح خان کے بل بوتے پر بادشاہ بنا، اس کا ایک ایک عضو کاٹ دیا گیا۔

اس طرح ایک شان دار آدمی جو افغانستان کا رستم تھا اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ جس کا ساتھ دیتا تھا اپنی ذہانت اور بہادری کی وجہ سے اسے عروج پر پہنچا دیتا تھا۔ اس کی شہرت اس کے چھوٹے بھائی دوست محمد خان کوکابل کا تخت دلانے میں بڑی اہم ثابت ہوئی۔ پشاور میں وزیرباغ اس نے بنوایا تھا اور اس باغ میں سرو کے درخت اس کی یادگار ہیں۔ وزیرباغ ایک اداس جگہ ہے جہاں دوسرے باغوں کی طرح سکون میسر نہیں ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آج بھی فتح خان کی بے چین روح پھرتی ہے اور ہر آنے جانے والے شخص کو رحمان بابا کا یہ ایک شعر سناتا ہے کہ

زورورچہ رسوہ وچاتہ فیض

لہ دے فیضہ سرہ وگنڑہ ضرر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں