سنکیانگ کے مسلمانوں کی کہانی کتنا سچ کتنا جھوٹ

چینی ایغوروں کے غم میں ہلکان ہونیوالے مغربی ممالک مقبوضہ کشمیراورفلسطین میں مسلمانوں پرظلم کرنیوالوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔


چینی ایغوروں کے غم میں ہلکان ہونے والے مغربی ممالک مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فوٹو: فائل

RIO DE JANEIRO: یہ زیادہ پرانی بات نہیں،ڈیرھ دو سو سال قبل تک کتاب واحد ذریعہ معلومات تھی۔پھر رسالہ آیا اور بعد کو اخبار۔یوں بنی نوع انسان کو معلومات فراہم کرنے کے مستقل ذریعے نے جنم لیا جو ذرائع ابلاغ یا میڈیا کہلائے۔بیسویں صدی میں ریڈیو اور ٹی وی اس صف میں شامل ہوئے۔

اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ نے میڈیا کو مذید قوت بخش دی۔آج دنیا بھر میں پرنٹ والیکٹرونک میڈیا اتنا طاقتور ہو چکا کہ وہ انسان کا ذہن کسی بھی رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ رخ مثبت ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ دور جدید کا میڈیا فوائد دامن میں بسائے ہے۔مثلاً اب نیٹ علوم وفنون اور معلومات کا سمندر بن چکا جو ہر طالب علم کی علمی پیاس بجھاتا ہے۔

کوئی بھی مسئلہ چٹکی بجاتے حل کر سکتا ہے۔اس نے رابطہ سہل وتیزرفتار بنا دیا۔مگر اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ان میں ایک نمایاں منفی امر یہ کہ انٹرنیٹ جھوٹی یا فیک خبریں اور معلومات پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکا اور جھوٹی خبریں انسان سے لے کر ملک تک تباہ کرسکتی ہیں۔

اس دعوی کی نمایاں مثال پچھلے دنوں سامنے آئی جب ایک یورپی تحقیقی ادارے نے انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت 2005ء سے خود ساختہ این جی اوز، ویب سائٹس اور تنخواہ دار ایجنٹوں کی مدد سے پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر رہی ہے۔مقصد پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنا تھا۔یہ عالم اسلام کی ایک بڑی اور ایٹمی قوت کے خلاف بھارت کی بہت سنگین سازش تھی۔مغربی میڈیا نے مگر اس کا خاص نوٹس نہیں لیا۔بی بی سی اور چند دیگر نیوز سائٹس نے اس موضوع پر مضامین شائع کیے اور بس!حالانکہ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ اسے مغربی میڈیا کی شہ سرخی بننا چاہیے تھا۔

چین کیوں نشانے پر؟: مغربی میڈٰیا البتہ چینی حکومت کے خلاف کسی بھی خبر کو اکثر شہ سرخی بناتا ہے اور چین پہ شدید تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔مثلاً پچھلے چند ماہ سے مغربی میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ چینی حکومت سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

ان کی نسل کشی جاری ہے۔مساجد شہید کی جا چکیں۔انھیں نظربندی کیمپوں میں بند کیا جا رہا ہے جہاں خواتین بے حرمتی کا نشانہ بھی بن چکیں۔عام ایغور کڑے پہرے میں زندگی گذار رہے ہیں وغیرہ۔یہ درست ہے کہ سنکیانگ میں بعض ایغور رہنمائوں نے تحریک آزادی چلا رکھی ہے اور حالات پُرسکون نہیں۔مگر مغربی میڈیا نہ صرف سنکیانگ کی خبروں کو بڑھا چڑھا اور نمک مرچ لگا کر پیش کرتا بلکہ اپنے پاس سے جھوٹی خبریں گھڑ لیتا ہے۔دراصل مغربی ممالک خصوصاً امریکا،برطانیہ،آسٹریلیا اور کینیڈا چین کی محیرالعقول معاشی،سائنسی وتکنیکی ترقی سے پریشان ہیں۔

وہ دیکھتے ہیں کہ چین عالمی سپر پاور بن رہا ہے۔اس کا عروج ان کے زوال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے مغربی اقوام کی بدترین منافقت یوں بے نقاب ہوتی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری ملک ایغور مسلمانوں کے لیے تو مرے جارہے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و جبر پر انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اسی لیے مغربی حکومتوں کی ایما پر ان کا میڈیا چین پہ الزام لگانے اور وار کرنے کا موقع جانے نہیں دیتا۔ان قوتوں نے حال ہی میں جاپان اور بھارت کی شراکت سے کواڈ(Quad)نامی تنظیم بنائی ہے تاکہ چین کا مقابلہ ہو سکے۔مذید براں سنکیانگ کی صورت حال کو رائی کا پہاڑ بنا دینے کی خاص وجہ ہے۔

2014ء سے حکومت چین نے کھربوں ڈالر مالیت سے ایک دیوہیکل منصوبہ ''بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو'' شروع کر رکھا ہے۔اس منصوبے کے ذریعے ایشائی، یورپی، افریقی اور جنوبی امریکن ممالک کی صنعت وتجارت کو باہم مربوط کرنا مقصود ہے۔

منصوبے کی تکمیل چین کو سپرپاور بنانے میں مدد دے گی۔یہ کئی اسلامی ملکوںمثلاً پاکستان، انڈونیشیا، نائیجریا، بنگلہ دیش، ترکی، قازقستان، ترکمانستان، آذربائیجان وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔مغربی میڈیا مسلمانان ِسنکیانگ پر چینی حکومت کے ظلم وستم کا چرچا کر کے درج بالا اسلامی ممالک میں چین کے خلاف نفرت پھیلانا چاہتا ہے۔

مقصد یہی کہ چینی منصوبہ کامیاب نہ ہو سکے یا کم از کم اس کی تکمیل لٹک جائے۔وہ چین کو ظالم اور ڈکٹیٹر کے روپ میں ابھارتا ہے۔یہ چال بازی مغربی حکمران طبقے اور میڈیا کی مکاری وعیاری عیاں کرتی ہے۔ستر برس سے زائد عرصہ ہو چکا،اسرائیل اور بھارت اپنے اپنے شیطانی انداز میں فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں پہ ظلم ڈھا رہے ہیں۔ مغربی حکومتیں گاہے بگاہے اسرائیلی وبھارتی حکمرانوں کے خلاف بیان تو داغ دیتی ہیں مگر انھیں راہ راست پر لانے کی خاطر کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتیں۔ان مغربی ممالک کو پھر انسانی حقوق اور سچائی کا علمبردار کہنا کیسے حق بجانب ہے؟

چینی اور ایغوروں کے مشترکہ جد: یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ایغوروں اور چینیوں کے مابین تاریخی،مذہبی اور نسلی اختلافات موجود ہیں۔انھیں سمجھنے کے لیے تاریخ کی پنہائیوں میں جھانکنا ضروری ہے۔نیم خودمختار چینی علاقے،سنکیانگ میں آباد ایغور ترک نسل سے ہیں۔یہ بہ لحاظ آبادی (ترک،آذربائیجانی،ازبکستانی اور قازقستانی ترکوں کے بعد)چوتھی بڑی ترک قوم ہیں۔اہم بات یہ کہ ترکوں اور چینیوں کے ڈی این اے کے موازنے سے حال ہی میں یہ حیرت انگیز اور دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ ترک نسل کے اجداد بھی چینی تھے۔

ماہرین جینیات نے ڈی این اے کی مدد سے سراغ لگایا ہے کہ ترکوں کے جد پانچ ہزار سال قبل شمال مشرقی چین میں رہتے بستے تھے۔یہ علاقہ آج ''مانچوریا'' یا ''اندرونی منگولیا'' کہلاتا اور تین چینی صوبوں پر مشتمل ہے۔یہ چینی زراعت پیشہ تھے۔ دوہزارقبل مسیح میں مانچوریا میں قحط پڑ گیا۔تبھی بہت سے چینی منگولیا ہجرت کر گئے۔ وہاں انھوں نے خانہ بدوشی اختیار کر لی اور مویشی پالنے لگے۔ منچورین چینیوں اور منگولین قوم کے اختلاط سے ایک نئی نسل نے جنم لیا جسے بعد ازاں ترک کہا گیا۔
رفتہ رفتہ ترکوں کے کئی خاندان وجود میں آ گئے۔ان میں بعض منگولیا سے نکل کر وسطی ایشیا ہجرت کر گئے۔جو ترک خاندان جنوبی سنکیانگ آباد ہوئے،انھیں ایغور کہا گیا۔اسی طرح وسطی ایشیا سے لے کر اناطولیہ(ترکی)تک بسنے والے ترک خاندان اپنے اپنے علاقوں کی مناسبت سے مختلف ناموں سے موسوم ہوئے۔جب دین اسلام وسطی ایشیا پہنچا تو آہستہ آہستہ ترک اس نئے دین کے شیدائی بن کر مسلمان ہو گئے۔ایغوروں کی اکثریت نے بھی اسلام قبول کر لیا۔یہ ترک بہت پُرجوش اور متحرک مسلمان تھے۔

جب چنگیز خان کی زیرقیادت منگول عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو ایک ترک شہزادے، جلال الدین خوارزم شاہ نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا اور مختلف معرکوں میں شکست دی۔جلال الدین تمام مسلم حکمرانوں کو منگولوں کے خلاف متحد کرنا چاہتے تھے مگر ذاتی و گروہی مفادات میں گھرے مسلم حکمران فروعی اختلافات سے بلند نہ ہو سکے۔یہی شہزادہ جلال الدین بھی ایغور ترک تھے۔بعد ازاں اوغوز ترک قبیلے کے ایک سردار،ارطغرل نے بھی مسلم حکمرانوں کو متحد کرنا چاہا تو انھیں جزوی کامیابی ملی۔انھوں نے بہرحال سلطنت عثمانیہ کی نیو ضرور ڈال دی۔

اتحاد کا فقدان : سنکیانگ کا علاقہ چاروں طرف سے بلندوبالا پہاڑی سلسلوں میں گھرا ہوا ہے جن کے درمیان میں درے ہیں۔وسط میں صحراو جنگل ہیں۔اس قدرتی ماحول نے ایغوروں کو جفا کش اور سخت جان بنا دیا۔حتی کہ چینیوں کو جرات نہ ہوئی کہ وہ علاقے پر حملے کر سکیں۔ایغوروں کے سردار ہی طویل عرصہ علاقے پر حکمرانی کرتے رہے۔بدقسمتی سے سولہویں صدی کے بعد سرداروں میں اتحاد ویک جہتی نہ رہی۔اس باعث علاقے میں کئی چھوٹی ریاستیں وجود میں آ گئیں۔

اس نااتفاقی سے شمالی سنکیانگ میں آباد منگولیائی نسل کی زنگار نامی قوم نے فائدہ اٹھایا اور 1680ء میں جنوبی سنکیانگ پر قبضہ کر لیا۔ یہ زنگار ایک بڑی منگولیائی سلطنت کا حصہ تھے جس سے چین کی قنگ حکومت برسرپیکار تھی۔یہی وجہ ہے، منگول دشمن سے مقابلہ کرتے کرتے قنگ فوج جنوبی سنکیانگ بھی آن پہنچی۔آغاز میں ایغور مسلم سردار قنگ فوج کے حمایتی بن گئے۔وجہ یہ کہ زنگار حاکم ظالم تھے اور انھوں نے مسلمانوں پر بھاری ٹیکس لگا دئیے۔ اس باعث ایغور ناخوش تھے۔ مسلم سرداروں کی عسکری مدد سے قنگ فوج نے1755ء تا 1760 ء کے دوران سنکیانگ کے دونوں حصے (شمالی وجنوبی) فتح کر لیے۔انھوں نے پھر جنوبی حصے میں مقامی مسلم سرداروں، خواجہ برہان الدین اور خواجہ جہاں کو اپنا نائب مقرر کیا۔

نفرت کا آغاز: دلچسپ بات یہ کہ قنگ حکمران بھی مانچوریا سے تعلق رکھتے تھے۔اسی لیے انھیں مانچورین بھی کہا گیا۔گویا قنگ حکمرانوں اور ایغوروں کے جد مشترک تھے۔مگر مانچورین بادشاہ غیرمسلم تھے اور حکمرانی کے نشے وغرور میں وہ مسلمانوں پہ ظلم وستم کرنے لگے۔انھوں نے بھی مسلم آبادی پہ بھاری ٹیکس لگا دئیے۔

یہی نہیں ،مانچورین جرنیل ان کی عزت سے کھیلنے لگے۔انھوں نے مسلم خواتین اغوا کر کے بے حرمت کر دیں۔ان واقعات سے ایغوروں میں قنگ حکمرانوں کے خلاف غم وغصّہ پھیل گیا۔جلد خواجہ برادارن کی زیرقیادت انھوں نے بغاوت کر دی۔مانچورین فوج طاقتور تھی،اس نے ایغور جنگ آزادی ناکام بنا دی۔ مگر صورت حال نے ایغور مسلمانوں کے دلوں میں چینی قوم کے خلاف نفرت و دشمنی کی آگ بھڑکا دی جو آج تک سرد نہ ہو سکی۔خاص بات یہ کہ ان پہ ظلم وستم کرنے والے مانچورین تھے جن سے چین کے مرکزی حصے(مین لینڈ)میں بستے ہان چینی بھی نفرت کرتے تھے۔

اسی باعث انیسویں صدی میں ہان چینیوں نے ڈاکٹر سن یات سن کی زیرقیادت قنگ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور 1912ء میں اس کا خاتمہ کر ڈالا۔آج مانچورین قوم چین میں اقلیت کا درجہ رکھتی ہے۔نیز بہت سے ہان چینی انھیں ناپسند کرتے ہیں کیونکہ ماضی میں مانچورین ان پر بھی ظلم وستم ڈھاتے رہے۔ بہرحال مانچورین حکومت کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے ایغور مسلم سبھی چینی باشندوں سے متنفر ہو گئے۔پھر وہ وقتاً فوقتاً قنگ حکومت سے برسرپیکار رہے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ پہلے کی طرح جنوبی سنکیانگ میں اپنی حکومت قائم کر لیں۔ان کے حملوں سے تنگ آ کر قنگ حکمرانوں نے 1886ء میں جنوبی اور شمالی حصوں کو ایک انتظامی اکائی میں بدل ڈالا۔یہی اکائی '' سنکیانگ '' کے نام سے مشہور ہوئی۔قنگ حکومت نے اسے چین کا ایک صوبہ بنا دیا۔

ایغور اور ہوئی کے اختلافات: ظہور اسلام سے قبل بھی عرب تاجر چین آتے جاتے تھے۔جب عرب مسلمان ہو گئے تو انھوں نے چین میں بھی اسلام کا نور پھیلانے کی کوششیں کیں۔ان کی تبلیغ سے کئی ہان چینی اور دیگر اقوام کے چینی باشندے مسلمان ہو گئے۔آج یہ ''ہوئی''کہلاتے ہیں۔ ماضی میں ہوئی مسلم چینی حکومتوں کے اہم عہدے دار رہے ہیں۔مثلاً ایک ہوئی مسلمان،زینگ ہی (1371ء۔1433ء) منگ سلطنت کا ممتاز جرنیل اور مہم جو گذرا ہے۔

فی الوقت سرکاری طور پہ چین میں ہوئی مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ پانچ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ایغور مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ بقیہ مسلم گروہوں میں قازق ترک(پندرہ لاکھ)،ڈونگ زیانگ (ساڑھے چھ لاکھ)،کرغز ترک(دو لاکھ)اور سالار(ڈیرھ لاکھ)نمایاں ہیں۔غیر سرکاری ذرائع کا دعوی ہے کہ چین میں چھ تا آٹھ کروڑ کے مابین مسلمان بستے ہیں۔ایغور اور ہوئی مسلمانوں کے مابین تاریخی طور پر سب سے بڑا اختلاف یہ رہا ہے کہ بہت سے ایغور جنوبی سنکیانگ میں آزاد وخودمختار حکومت قائم کرنے کے خواہش مند رہے ہیں۔

مگر ہوئی مسلمان مرکزی چینی حکومت کے ماتحت زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے،مانچورین فوج میں بہت سے ہوئی بھی شامل تھے۔انھوں نے ایغوروں کے خلاف جنگوں میں حصہ بھی لیا۔اس باعث ایغور انھیں ناپسند کرنے لگے۔مذید براں مانچورین حکمرانوں نے ہوئی اور ایغوروں کو لڑوانے کی خاطر چالیں بھی چلیں اور سازشیں کیں جس سے معاملہ اور بگڑ گیا۔مقصد مسلمانوں کی طاقت کم کرنا تھا۔مثلاً قنگ حکومت کا حربہ رہا کہ وہ جنوبی سنکیانگ میں ہوئی مسلم فوجی افسر تعینات کر دیتی۔انھیں پھر حکم دیا جاتا کہ وہ ایغوروں پہ سختی کریں۔اس سرکاری پالیسی سے دونوں مسلم گرہوں میں نفرت وتنائو بڑھانا مقصود تھا۔

ظالم جن شورین کو دور: مانچورین حکومت نے ایک اور پالیسی یہ اپنائی کہ شمالی سنکیانگ میں کثیر تعداد میں ہان چینی آباد کرنے لگی تاکہ زنگار قوم کا زور کم ہو سکے۔ہوئی مسلمان بھی وہاں بسائے گئے۔تاہم شروع میں جنوبی سنکیانگ اس تبدیلی سے مبّرا رہا،گو ہان چینی وہاں کاروبار اور تجارت کر سکتے تھے۔بیسویں صدی سے ہان چینیوں کو جنوبی حصّے میں بھی بسنے کی اجازت مل گئی۔رفتہ رفتہ ہان چینی سنکیانگ میں قنگ حکومت کے نمائندے بن گئے۔

انھوں نے ایغور باشندوں پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی۔زمینیں چھین کر ہان افراد میں تقسیم کر دیں۔1928ء تا 1933ء جن شورین نامی چینی سنکیانگ کا گورنر رہا۔اس نے ایغوروں پہ ظلم کی انتہا کر دی۔حج کرنے پر پابندی لگ گئی۔جو ایغور آزادی کی بات کرتا،شہید کر دیا جاتا۔جن شورین نے انتظامیہ میں ہان اور ہوئی بھرتی کیے تاکہ ان کی مدد سے آزادی پسند ایغور قابو کیے جا سکیں۔

1930میں جن شورین نے ایک نیم خودمختار ایغور علاقے،کمل پر قبضہ کر لیا۔علاقے کے مسلمانوں نے اعلان جنگ کر دیا۔اس وقت چین میں قوم پرست رہنما،جنرل کائی شیک حکومت سنبھال چکا تھا۔وہ جن شورین سے ناخوش تھا مگر اسے ہٹا نہ پایا۔اس نے صوبہ گنزو کے ایک مسلم سردار،ما شائو سے درخواست کی کہ وہ سنکیانگ جا کر جن شورین کا مقابلہ کرے۔جیت کی صورت میں اسے وہاں کا گورنر بنا دیا جائے گا۔چناں چہ ما شائو نے فوج لے کر جن پر حملہ کر دیا۔یوں سنکیانگ میں نئی جنگ چھڑ گئی۔

ناکام تحریک آزادی: اس جنگ کے دوران مختلف ایغور لیڈر مثلاً محمود محیطی،ثابت داملا،محمد امین بغرا،عیسی یوسف الپتگین،مسعود صابری،عثمان باتور وغیرہ جنوبی سنکیانگ میں آزاد اسلامی مملکت کے قیام کی جدوجہد کرنے لگے۔انھوں نے اس مملکت کو ''مشرقی ترکستان''کا نام دیا۔افسوس کہ ایغور رہنمائوں کے درمیان یک جہتی اور اتحاد کا فقدان تھا۔اسی بنیادی سبب سے انھیں کامیابی نہ مل سکی۔اس دوران سویت یونین بھی سنکیانگ پر غلبے کی انوکھی جنگ میں کود پڑا۔سویت حکومت سنکیانگ کو سویت یونین کا ''پچھلا دروازہ'قرار دیتی تھی۔

سویت حکمرانوں کی عسکری و مالی مدد ہی سے ،شینگ شکائی نامی ایک ہان چینی سنکیانگ کا نیا حاکم بننے میں کامیاب رہا۔چین میں1927ء سے قوم پرستوں اور کیمونسٹوں کے درمیان زبردست جنگ جاری تھی۔1949ء کے اوائل میں آٓخر کیمونسٹ فوج کا پلہ بھاری ہو گیا۔کیمونسٹ فوج اسی اثنا میں سنکیانگ بھی پہنچ گئی۔تب وہاں ہان چینی رہنمائوں اور ایغور لیڈروں نے اتحاد کر لیا تھا اور وہ مشترکہ طور پہ حکومت کر رہے تھے۔کیمونسٹ لیڈر،مائوزے تنگ کے ایلچی ان سے بذریعہ مذاکرات دوستی کا ہاتھ ملانے میں کامیاب رہے۔یوں سنکیانگ کسی قسم کی لڑائی کے بغیر عوامی جمہوریہ چین کا حصہ بن گیا۔

اختلافات بڑھ گئے: تاہم آزادی پسند ایغور رہنما اس نئے انتظام سے خوش نہیں تھے۔وہ کم ازکم جنوبی سنکیانگ کے اپنے آبائی علاقے میں آزاد مملکت قائم کرنا چاہتے تھے۔اسی لیے علیحدگی کی تحریک چلانے لگے۔کیمونسٹ حکومت ان سے سختی کے ساتھ پیش آئی۔جن ایغوروں پر علیحدگی پسند ہونے کا خدشہ ہوتا،ان کی نگرانی بھی کی جاتی۔مگر عام ایغوروںکی مذہبی ومعاشرتی زندگی سے تعرض نہیں کیا گیا۔

وہ دینی رسوم بجا لاتے رہے۔حکومت چین کا دعوی ہے کہ دو ہزار سال پہلے سنکیانگ چینی سلطنت کا حصہ تھا۔جب چینی سلطنت کمزور ہوئی تو وہاں مقامی سرداروں نے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔گویا جب مانچورین فوج نے سنکیانگ پہ قبضہ جمایا تو اسے دوبارہ علاقہ فتح کرنے سے تعبیر کیا گیا۔مگر آزادی پسند ایغور چینی حکومت کا یہ دعوی تسلیم نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے کہ اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سنکیانگ خودمختار علاقہ رہا ہے۔لہذا اب بھی وہاں ایک آزاد مملکت کا قیام عمل میں آنا چاہیے۔یہ منزل پانے کی خاطر مختلف ایغور تنظیمیں مسلح یا غیر مسلح جدوجہد کر رہی ہیں۔حکومت چین کے نزدیک یہ سبھی تنظیمیں دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں۔مسلح جدوجہد کے حامی ایغور وقتاً فوقتاً چینی سیکورٹی فورسسز اور سرکاری ونجی تنصیبات پر حملے کرتے ہیں۔ان کے نزدیک تحریک آزادی جہاد کے مترادف ہے۔

رائے شماری کی تجویز: چینی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے پچھلے ستر برس میں سنکیانگ میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے ہیں۔ اس باعث علاقے میں ترقی وخوشحالی نے جنم لیا۔ ماضی کی نسبت اب باشندوں کا معیار زندگی بلند ہو چکا۔ اس صورتحال کا ایک حل یہ ہے کہ جنوبی سنکیانگ میں رائے شماری کرالی جائے، غالب امکان یہی ہے کہ چین کے ساتھ رہنے کے حق میںفیصلہ دے گی۔

ایغوروں کی شکایات: یہ بھی سچ ہے کہ سبھی ایغور مسلم چین کے ساتھ رہنے کی خواہش نہیں رکھتے۔وجہ یہ کہ ان کا دین، تہذیب، ثقافت، معاشرت، زبان، روایات غرض سب کچھ ہان قوم سے مختلف ہے۔اور یہ بھی آشکارا ہے کہ کیمونسٹ چینی حکومت مذہبی سرگرمیوں کو زیادہ پسند نہیں کرتی(گو وہ رکاوٹیں بھی نہیں ڈالتی۔)جبکہ ایغور مسلمان آزادی سے اپنی دینی سرگرمیاں انجام دینا چاہتے ہیں۔چینی حکومت کو گمان ہے کہ دینی سرگرمیاں ایغور نوجوانوں میں علیحدگی پسندانہ جذبات پیدا کرتی ہیں۔اسی لیے وہ ان پر قدغنیں اور پابندیاں لگا تی ہے۔

جن ایغوروں پر قدامت پسند ہونے کا شک ہو،ان کی نگرانی بھی کی جاسکتی ہے۔بعض ایغور رہنمائوں کا یہ بھی دعوی ہے کہ سنکیانگ کے جن علاقوں میں ہان چینی آباد ہیں،حکومت وہیں بیشتر ترقیاتی منصوبے انجام دیتی ہے۔مسلم علاقوں میں کم ہی ترقیاتی منصوبے عملی جامہ پہنتے ہیں۔اسی لیے ترقی کی دوڑ میں ایغور پیچھے رہ گئے۔لیکن چینی حکومت کا دعوی ہے کہ پورے علاقے میں ترقیاتی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔نیز یہ کہ ایغور جدید تعلیم حاصل نہیں کرتے،اس باعث وہ ترقی نہیں کر سکے۔وہ چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ایغور رہنمائوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ علاقے کی انتظامیہ میں ہان چینیوں کی اکثریت ہے۔چناں چہ بیوروکریسی اپنے بھائی بندوں کی فلاح وبہبود کے لیے ہی سرگرم عمل رہتی ہے۔

حالات اتنے سنگین نہیں: اب تک کے حالات سے واضح ہے کہ سنکیانگ میں چینی حکومت اور ایغوروں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔مگر وہ اتنے سنگین نہیں جتنا مغربی میڈیا ظاہر کرتا ہے۔اس کا خاص طریق واردات یہ بن چکا کہ مغربی ممالک میں سرگرم مختلف غیر سرکاری تھنک ٹینکس اور این جی اوز کی جھوٹ وسچ پر مبنی رپورٹوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جیسے وہ مصدقہ اور سچی ہوں۔حالانکہ ان رپورٹوں میں بہت سے حقائق خودساختہ اور سنی سنائی باتوں پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کچھ عرصہ قبل کاروباری دورے پر سنکیانگ گئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ وہاں معمولات زندگی عام انداز میں جاری ہیں۔

مسلمان مساجد میں آزادی سے نماز پڑھتے ہیں۔البتہ وہاں مختلف جہگوں پہ پولیس تعینات دیکھی۔مگر وہ شدت پسندوں کا مقابلہ کرتی ہے۔یہی معاملہ تو کئی اسلامی ممالک میں بھی دکھائی دیتا ہے کہ مساجد کے باہر سپاہی استادہ ہیں اور نمازیوں کی جامہ تلاشی ہو رہی ہے۔اہل پاکستان بھی ایسے مناظر سے آشنا ہیں۔مغربی میڈیا کی رپورٹیں پڑھ کر مگر لگتا ہے کہ ایغور مسلم کڑے پہرے تلے بڑی کٹھن زندگی گذار رہے ہیں۔

سب سے زیادہ مساجد: چند ماہ قبل ایک آسٹریلوی تھنک ٹینکِ ،دی آسٹریلین اسٹرٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ میں دعوی کیا کہ2017ء سے چینی حکومت سنکیانگ میں ''سولہ ہزار''مساجد شہید کر چکی۔حکومت چین نے یہ دعوی مضحکہ خیز قرار دیا۔چینی ترجمان نے صحافیوں کو یہ حیران کن خبر دی کہ سنکیانگ میں ''24ہزار''مساجد واقع ہیں۔گویا ہر530مسلمانوں کے لیے ایک مسجد ہے۔یہ دنیا بھر میں فی کس کے لحاظ سے مساجد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

اسی طرح پچھلے دوبرس سے یہ خبر گرم ہے کہ چینی حکومت نے سنکیانگ میں تین سو سے زائد نظربندی کیمپ کھول رکھے ہیں جہاں دس لاکھ ایغور اور قازق قیدی رہ چکے۔وہاں انھیں تشدد کا بھی نشانہ بننا پڑا۔چینی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ووکیشنل سینٹر ہیں جہاں ایغوروں کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ بہتر ملازمت پا کر اپنا معیار زندگی بلند کر سکیں۔نیز انھیں اعتدال پسندی اپنانے اور شدت پسندی سے دور رہنے کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں تاکہ وہ مفید شہری بن سکیں۔

کیا نسل کشی جاری ہے؟: حکومت چین پہ مغربی میڈیا کا ایک بڑا الزام یہ ہے کہ وہ ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔اس ضمن میں چینی حکومت حال ہی میں حقائق سامنے لائی ہے۔اس رپورٹ کی رو سے سنکیانگ میں پہلی مردم شماری 1953ء میں ہوئی تھی۔تب علاقے میں کل 48لاکھ 73ہزار افراد آباد تھے۔2010ء کی چھٹی مردم شماری میں آبادی بڑھ کر 2کروڑ18لاکھ 15ہزار 8 سوپہنچ گئی۔2010ء سے 2018ء تک بھی سنکیانگ میں آبادی بڑھی۔2018ء میں آبادی 2کروڑ 48لاکھ 67ہزار شمار ہوئی۔ 2010ء کی مردم شماری کے مطابق اقلیتوں کی تعداد 1کروڑ29لاکھ85ہزار تھی جو 2018ء میں1کروڑ58لاکھ60سو پہنچ گئی۔

ایغور مسلمانوں کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔2010ء میں ان کی تعداد 1کروڑ1لاکھ71ہزار تھی جو2018ء میں بڑھ کر1کروڑ27لاکھ18ہزار 4سو ہو گئی۔یوں آٹھ سال میں آبادی میں 5.04فیصد اضافہ ہوا۔2010ء میں سنکیانگ میں 88لاکھ 29ہزار ہان چینی بستے تھے۔2018ء میں ان کی تعداد90لاکھ شمار ہوئی۔گویا ان کی آبادی صرف2فیصد بڑھ سکی۔یہ حقائق دیکھتے ہوئے کیا اس دعوی پہ یقین کیا جائے کہ ایغور مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہیَ؟مردم شماری سے تو عیاں ہے کہ علاقے میں مسلمانوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے کیونکہ وہ بچے زیادہ پیدا کرتے ہیں۔

مغربی میڈیا کا ایک اور الزام ہے کہ چینی حکومت ایغوروں کو زبردستی دیگر صوبوں میں برائے ملازمت بھیج رہی ہے۔چینی حکومت اس الزام کی بھی تردید کرتی ہے۔کہتی ہے کہ2018ء جنوبی سنکیانگ کے غربت زدہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 1لاکھ51ہزار مردوزن کو اپنے گھروں سے دور ملازمتیں مل چکیں۔بیشتر علاقے ہی میں کام کرتے ہیں۔جبکہ 14ہزار 7سو دیگر صوبوں میں مصروف کار ہیں۔وہ اپنے گھروں سے اس لیے دور ہوئے تاکہ غربت سے نجات پا سکیں۔شہریوں کی فلاح وبہبود کے سرکاری اقدامات سے جنوبی سنکیانگ میں خوشحالی آ رہی ہے۔نصف صدی قبل علاقے میں متوقع شرح عمر صرف ''تیس سال''تھی۔آج وہ ''بہتر سال''تک پہنچ چکی۔

مغربی طاقتوں کے آلہ کار: فروری2020ء میں ایک جلا وطن ایغور خاتون،ترسنے ضیاالدین نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے دعوی کیا کہ وہ ایک نظربندی کیمپ میں قید رہی۔وہاں اس کا گینگ ریپ ہوا۔کانوں سے چلائی بالیاں کھینچ کر اتاری گئیں جس سے خون بہنے لگا۔مگر اسی خاتون نے30اکتوبر 2019ء کو امریکی ریڈیو فری ایشیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے ساتھ ریپ نہیں ہوا۔نیز 15فروری 2020ء کو ترسنے نے امریکی نیوز سائٹ،بزفیڈ نیوز کو بتایا تھا کہ اس کیمپ میں اسے کبھی مارا پیٹا نہیں گیا۔حکومت چین کا دعوی ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں ایغور علیحدگی پسند تنظیمیں سرکاری سرپرستی میں کام کر رہی ہیں۔دونوں حکومتیں انھیں فنڈز دیتی ہیں تاکہ وہ چین کے خلاف پروپیگنڈا کر سکیں۔انہی تنظیموں نے ترسنے ضیاالدین کو اپنا آلہ کار بنا لیا۔تاریخ سے ثابت ہے کہ مغربی استعمار بیرون ممالک میں اپنے ایجنٹوں کی وساطت سے اپنے مفادات پورے کرتا اور اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہناتا ہے۔

چینی ترکستان ایک نظر میں
سنکیانگ یا چینی ترکستان جسے آلتی شہر بھی کہا گیا،پہاڑوں،صحرائوں اور مرغزاروں کی سرزمین ہے۔اس کا رقبہ 1,664,897مربع کلومیٹر ہے۔اگر یہ مملکت بن جائے تو بہ لحاظ رقبہ دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہو۔آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔ان میں 45.84فیصد ایغورہیں۔40.48فیصد ہان،6.50فیصد قازق، 4.51فیصد ہوئی اور 2.67 فیصد بقیہ نسلی گرہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔سرکاری زبان ایغور اور منڈرین (چینی) ہے۔ایغور زبان میں علاقہ ''شنجاک ئوُیغور ئاپتو نوم راایونی'' یعنی سنکیانگ ایغور خود مختار علاقہ کہلاتا ہے۔مسلمان اکثریت میں ہیں جن کی تعداد58فیصد ہے۔

ماضی میں علاقے کے باسی زراعت پیشہ اور مویشی پال تھے۔یہ آج بھی کپاس اور ٹماٹر کی پیداوار کا بڑا مرکز ہے۔بیسویں صدی میں معدنیات مثلاً نمک،سوڈا،بورک ایسڈ، سونا دریافت ہوئیں تو ان کی فروخت سے بھی آمدن ہونے لگی۔چند عشرے قبل تیل وگیس کے ذخائر دریافت ہوئے۔فی الوقت چین میں ان رکازی ایندھنوں کے سب سے بڑے ذخائر سنکیانگ ہی میں ہیں۔اسی لیے یہ علاقہ معاشی و تزویراتی لحاظ سے چین کے لیے بہت اہم ہو چکا۔مذید براں2014ء سے مین لینڈ چین کو یورپ سے ملانے والی ریل پٹڑی بھی سنکیانگ سے گذرتی ہے۔

اس ریلوے لائن کی وجہ سے بھی علاقے کی اسٹرٹیجک ویلیو میں بہت اضافہ ہو گیا۔وجہ یہ کہ چین اب یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا۔لہذا وہ ہر سال ہزارہا ٹن سامان اس ریلوے لائن کے ذریعے یورپ بھجواتا اور وہاں سے منگواتا ہے۔یاد رہے،بحری جہاز کی نسبت ریل سے سامان جلد منزل تک پہنچ جاتا ہے۔نیز چینی حکومت کا دعوی ہے کہ ریل سے لاگت بھی کم آ رہی ہے۔

قراقرم،پامیر،قن لن اور تیان شان سلسلہ ہائے کوہ کے بلند وبالا پہاڑ سنکیانگ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔یہ علاقے میں جابجا پھیلے ہیں۔درمیاں میں صحرائے تکلامکان اپنی شان دکھلاتا ہے۔ان قدرتی مظاہر کے باعث سنکیانگ میں صرف10فیصد زمین قابل رہائش ہے۔اسی علاقے میں انسان کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ارمچی صدرمقام اور سب سے بڑا شہر ہے۔دیگر بڑے شہروں میںکاشغر، تورپان،ینگ،کرامے نمایاں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں