غزل اپنے ظاہر میں نہیں باطن میں تبدیلی قبول کرتی ہے عباس تابش

جاگیردارنے والد سے کہا ، بیٹے کو تعلیم دلانا بند کردو٭لاہورآکرچاربرس پروف ریڈنگ کی


Mehmood Ul Hassan January 08, 2014
معروف شاعرعباس تابش کا سفرِزیست ۔ فوٹو : ایکسپریس

وہ عصرحاضر کے ان شاعروں میں سے ہیں جو عمدہ شعری معیارکو بھی پہنچتے ہیں،اور ساتھ میں ان کی مقبولیت بھی مسلم ہے، خاص طور پرمشاعروں میں وہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں ،مگر اس حقیقت سے ضرور باخبرہیںکہ ادب میں مقام کے تعین میں مشاعرے کی وا ہ واہ کام آتی ہے اور نہ ہی فیس بک سے ملنے والی شہرت،اور فیصلہ صرف چھپے حرف کی بنیاد پرہوتا ہے۔

کمبخت فیس بک پر تو یوں بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے ،اور اس سلسلے میںپرویزمشرف سے عبرت پکڑنی چاہیے جو فیس بک پراپنی مقبولیت کے جھانسے میں آکر پاکستان آگئے ، اور یہ آنا اب ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ عباس تابش کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو شاعری کے باذوق قاری اور اردوکی مہتم بالشان شعری روایت سے خوب شناسا ہیں ۔وہ اپنا فکری وفنی ربط روایت سے جوڑتے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ''تمہید'' 1986ء میں چھپا۔ چھ برس بعد ''آسمان'' شائع ہوئی۔ دیگر مجموعوں میں ''مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا''''پروں میں شام ڈھلتی ہے''اور'' رقص درویش'' شامل ہیں۔ ''عشق آباد'' کے عنوان سے کلیات بھی منصہ شہود پرآچکا ہے۔شاعری سے ہٹ کرعملی زندگی کا ذکر کیا جائے توادھربھی انھیں خاصی ریاضت کرنی پڑی۔

آپ انھیں سیلف میڈ لوگوں کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ایف اے کے بعد لاہور آئے توکئی برس گزربسرکے لیے ایک روزنامے میں پروف ریڈرکی حیثیت سے کام کیا۔ساتھ میں تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔پنجاب میں میلسی کے علاقے میں آنکھ کھولی، جہاں جاگیردارانہ نظام اپنی حشرسامانیوں کے ساتھ موجود تھا۔ایک جاگیردار نے ان کے ترکھان باپ سے بیٹے کا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے کے لیے کہا تویہ فرمان انھوں نے رد کردیا،کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا نورنظر خوب پڑھے لکھے۔بچپن میں جاگیرداری نظام کی چیرہ دستیوںکو قریب سے دیکھنے کا عباس تابش پریہ اثر ہوا کہ وہ اپنے علاقے سے ایک طرح سے بدظن ہو گئے، اس واسطے ان کا اس ماحول سے جہاں ان کا بچپن گزرا، ناسٹلجیا کا رشتہ قائم نہ ہوسکا۔اس جگہ سے اگران کا ناتابرقرار ہے توصرف ماں باپ کی قبروںاور بہن بھائیوں کی موجودگی کے باعث۔

عباس تابش نے شاعری کا آغاز 1975ء میں اس وقت کیا، جب وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔گھرکے باہر سے کوئی آوازکان میں پڑتی تو وہ مسجد کے مولوی کی ہوتی، لیکن ایک رات گھر میں بیٹھے ہوم ورک کررہے تھے،کہ تھوڑے فاصلے پر موجود بلدیہ کے باغ سے کچھ نامانوس سی آوازیں سنائی دیں تو اپنا تجسس رفع کرنے کے لیے ادھر پہنچے تو دیکھا کہ ایک صاحب کچھ پڑھ رہے ہیں اور باقی واہ واہ کر رہے ہیں۔ جو کچھ پڑھا جارہا نہ تو وہ ٹھیک سے ان کے پلے پڑانہ وہ یہ ہی جان پائے کہ واہ واہ سے کیا مراد ہے۔ لوگوں سے پوچھ تاچھ کی توجانا کہ اس کارروائی کو مشاعرہ کہتے ہیں۔ اس وقت کس کو معلوم ہوگا کہ چودہ برس کے اس بچے نے آنے والے زندگی میں دنیا بھر میں مشاعرے ''لوٹنے'' اور واہ واہ کی صورت بھرپور داد بھی سمیٹنی ہے۔ خیر، مشاعرے کی کارروائی دیکھ کر ان کے گمان میں آئی کہ یہ کام تووہ بھی کر سکتے ہیں،بس پھر کیا،مشق سخن کا آغاز ہو گیا۔ میٹرک میں تھے، جب والدفیض بخش نے انتقال کیا، اب جو رنج وغم نے طبیعت کو آگھیرا تو شوق شاعری کو اور بھی مہمیز ملی۔ میلسی میں نذیراظفرکو اپنی شاعری دکھانا شروع کی مگر یہ سلسلہ اس لیے طول نہ کھینچ سکا کہ انھیں ایف اے کے لیے ساہیوال جانا پڑ گیا۔ 1977ء میں روزنامہ ''آفتاب'' ملتان کے ادبی صفحہ کے انچارج کیف انصاری کو غزل بجھوائی۔

ایک روز اخبار دیکھا تواس میں غزل کو موجود پاکرخوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ساری رات اس اخبارمیں چھپی غزل کو دیکھتے رہے۔ ان کے بقول ''ملکوں ملکوں شعرپڑھے، داد حاصل کی لیکن سچی بات ہے، جیسی خوشی اس پہلی غزل کی اشاعت سے ہوئی، دوبارہ ایسا کیف اور سرخوشی نصیب نہ ہوئی۔'' انٹرمیڈیٹ کے بعد میلسی پلٹے اور پھر لاہور آگئے۔ یہ سن اکیاسی کی بات ہے۔ یہاں ایک اخبارسے پروف ریڈرکی حیثیت سے متعلق ہو گئے۔ اگست 86ء تک یہ کام کیا۔دوران ملازمت پرائیویٹ بی اے کیا، جس نے گورنمنٹ کالج جانے کی خواہش کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کر دی۔ اس درسگاہ سے ایم اے اردوکرنے کے دوران کالج کے مجلے ''راوی'' کے مدیربھی رہے۔ گورنمنٹ کالج میں بیتے وقت کی یادیں زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں۔ 1989ء میں ''مساوات'' اخبارکا احیاء ہوا تو سب ایڈیٹر بھرتی ہوگئے۔ اس حیثیت میں بس تھوڑے عرصے کام کیا، کہ دسمبر1989ء میں لیکچراربن کر لالہ موسیٰ چلے گئے۔ تین برس بعد لاہور واپسی ہوئی۔ دس برس ایف سی کالج میں پڑھایا۔ تین برس گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ سے متعلق رہے۔ گزشتہ چار برس سے گورنمنٹ کالج گلبرگ میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ شاعری اپنی جگہ مگر استاد کی حیثیت سے مرتبے کوزیادہ عزیز جانتے ہیں۔

عباس تابش کو یہ احساس کہ شاعری ان کے لیے ذریعہ عزت ہوسکتی ہے لاہور آکر ہوا۔ ابتدا میں جن لوگوں نے ان کا ہاتھ تھاما اور حوصلہ بڑھایا، ان میں سب سے زیادہ خالد احمد کے ممنون احسان ہیں۔ انھی سے باقاعدہ شاعری کے رموز سیکھے۔ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شاعرچونکہ پیدائشی ہوتا ہے، اس لیے شاعری سیکھنے کا کام نہیں۔ ان کے خیال میں شاعری کا جوہر پیدائشی ہوسکتا ہے لیکن اسے صیقل کرنے کے لیے تو یہ ہنرسیکھنا پڑتا ہے۔ شاعری پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو ظفر اقبال کی ''آب رواں'' اور مجید امجد کی ''شب رفتہ کے بعد'' نے بہت متاثر کیا۔ ظفراقبال سے ذہنی قربت کا جوسلسلہ قائم ہوا وہ زیادہ لمبا عرصہ نہ چلا۔

اس کی وجہ ان کے بقول یہ رہی '' ظفراقبال کے ہاں شعری وفور ہے مگروہ کلاسیکی مزاج نہیں ہے، جس کے ذریعے سے اچھا شاعر، بڑا شاعربن جاتا ہے، اس لیے ان سے ذہنی قربت زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی، کہ میں کلاسیکی روایت کے شعراکے قریب رہا اور آج بھی مجھے میر اور غالب کو پڑھ کر مزاآتا ہے۔''غزل کے بارے میں وہ کہتے ہیں '' غزل ایسی صنف ہے، جس کے باطن میں تبدیلی ہوتی ہے ، اپنے ظاہر میں وہ تبدیلی کو قبول نہیں کرتی،احمد مشاق اور ناصرکاظمی کی غزل ہمیں کیوں اچھی لگتی ہے؟کیا انھوں نے شعری یا لسانی تجربات کئے؟ اصل میں وہ غزل کے باطن میں تبدیلی لے کر کے آئے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو غزل کی کلاسیکی روایت کو سمجھتا ہو اور اسے اس نے بسرکیا ہو۔ غزل ایسی صنف ہے، جس کے امکانات ختم نہیں ہوسکتے۔ وہ شاعرجو اسٹائل کے سلسلے میں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، وہ شعری لغت کو امپوز کرتے ہیں۔ ان کی ایک آدھ چیزتومزہ دے گی لیکن دس بیس چیزیں پڑھنے پرشاعری میں یکسانیت محسوس ہوگی۔ غزل اسلوب کی نہیں اسالیب کا تقاضا کرتی ہے۔خدائے سخن میر کے ہاں مفرس سلسلہ بھی ہے، جو فارسی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ شاعری میں ہندی مزاج بھی دخیل ہے۔ اور سہل ممتنع کی صورت بھی ہے۔ شاعری میں مختلف مزاج ہونے چاہئیں، اور شاعر ایک مزاج سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے مزاج میں سفر کر سکے، اور پڑھنے والے کو اس کے ہاں پھیلاؤ کا احساس ہو۔ ''

اردو کی کلاسیکی روایت سے شغف کی بناپرمیر، غالب اور اقبال کو تو اہتمام سے پڑھا ہی لیکن کچھ ایسے شاعرجو ان کے مقابلے میں کم معروف مگرفن میں کامل ہیں، انھیں بھی دھیان سے پڑھا۔ایسوں میں سب سے پہلے انعام اللہ یقین کا نام لیتے ہیں۔سراج اورنگ آبادی کا دم بھی بھرتے ہیں۔قائم چاند پوری کی شاعری کا بھی خوب مطالعہ کیا۔مصرع سازی کے لیے آتش کو استاد جانتے ہیں۔''مصرع کیسے لکھا جاتا ہے، یہ جاننا ہو تو آتش کو پڑھیں۔'' میرحسن سوز کی مثنوی ''سحرالبیان ''کے بہت قائل ہیں۔بتاتے ہیں کہ یہ وہ کتاب ہے، جو میر حسن کے پوتے اور ممتاز شاعر میرانیس کے سرھانے دھری رہتی۔جمالیات کے اعتبار سے مصحفی پسند ہیں، اور اس خاص پہلو میں کئی مقامات پر یہ شاعر انھیں میر سے بھی بڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ میرانیس اور میرزا دبیرکے مراثی کو بھی ادب میں الگ ہی دنیا قرار دیتے ہیں۔بیسویں صدی کے غزل گوشعرا میں فراق کے عاشق ہیں۔ان کے خیال میں،جہان میر، جہان غالب اور جہان اقبال کی طرح فراق کا بھی اپنا ایک جہان ہے۔

فراق سے تعلق کا اندازہ اس مایہ ناز شاعر کاکلیات مرتب کرنے کی خواہش سے بھی ہوتا ہے، جس کے لیے وہ کام کررہے ہیں۔فراق کی صرف شاعری ہی تو انھیں پسند نہیں بلکہ وہ ان کی تنقیدی آرا کو بھی بہت اہم گردانتے ہیں۔ تاثراتی تنقید پرمبنی فراق کی کتاب ''اندازے'' کے بہت قائل ہیں۔ان کے بقول ''ہمارے زیادہ تر ناقدین کا شعری ذوق اچھا نہیں ہے۔اپنی بات کی اصابت کے لیے وہ کمزور شعرانتخاب کرتے ہیں، مگرفراق شاعرتو اچھے تھے ہی لیکن ان کا شعروں کا انتخاب بھی بہت عمدہ ہوتا۔'' فراق کے شاگرد اور ممتاز نقاد محمد حسن عسکری کی تنقیدی بصیرت کوبھی مانتے ہیں، اور پھران کے شاگرد سلیم احمد کو پسند کرتے ہیں۔ محمدحسن عسکری جیسی تنقید ان کی دانست میں کوئی دوسرا نہیں لکھ پایا، ان کے بعد جس نقاد نے شفاف اور غیرمبہم ذہن سے ادب کی تفہیم کی وہ ان کے خیال میں سہیل احمد خاں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے نقاد بجائے شاعر کی Domainمیں جا کر اسے Appreciate کریں، اسے کھینچ کراپنی Domain میں لے آتے ہیں۔ ایسے نقادوں سے میرا جی کی تنقید انھیں الگ دکھائی دیتی ہے، جس کے نمونے ان کی کتابوں''اس نظم میں''اور ''مشرق ومغرب کے نغمے'' میں ملتے ہیں۔وہ بنیادی طور سے غزل کے شاعر ہیں لیکن پابند نظم ہو یا نثری نظم دونوں سے انھیں کد نہیں۔نظمیں تو خود بھی لکھتے رہے ہیں۔

ان کے بقول '' جس صنف میں آپ کی پذیرائی کی صورت زیادہ بن جائے شاعرلاشعوری طور پرادھرنکل جاتا ہے، اس لیے غزل کے مقابلے میں بہت کم نظم کہی۔'' نثری نظم کہنے والوں میں ذی شان ساحل، افضال احمد سید،تنویرانجم اور سارہ شگفتہ کے فن کی داد دیتے ہیں۔ اردو نثر میں غالب کے خطوط کئی بار پڑھ چکے ہیں۔کچھ خط شعروں کی طرح یاد ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ان خطوط کو پڑھ کر 1857سے پہلے اوربعد کے حالات بہت اچھی طرح سمجھ آتے ہیں۔انتظار حسین کا یہ قول بھی دہراتے ہیں، کہ غالب کے خطوط میں ناول کا پورا مواد بکھرا نظرآتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطوں میں کرداروں میںڈویلپمنٹ بھی نظرآتی ہے، کہیں کبھی کوئی قید میں ہے تو کبھی باہر بھی آجاتا ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ انتظار حسین تو ''آب حیات'' کو بھی ناول قراردیتے ہیںاور ان کے خیال میں یہ محققوں کے پڑھنے کی کتاب نہیں۔''آب حیات ''کو ناول قرار دینے کی بات سے انھیں اس لیے اتفاق نہیں کہ اس میں پلاٹ نہیں ہے۔ کہتے ہیں،آزاد نے نثرمیں البتہ کمال کردیا ہے ۔ فکشن نگاروں میں قرۃالعین حیدر، انتظارحسین اور نیرمسعود کے فن کو سراہتے ہیں ۔حالیہ برسوں میں جس ناول نے انھیں متاثر کیا وہ مرزا اطہر بیگ کا'' غلام باغ'' ہے۔ ''آج''کے گارشیا مارکیز نمبر نے ان میں تراجم پڑھنے کی جوت جگائی اور پھر انھوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کرتراجم کو پڑھا۔ ان دنوں وہ جوزف کانریڈ کے ناول "Heart of Darkness"کا محمد سلیم الرحمٰن کے قلم سے ''قلب ظلمات'' کے عنوان سے ہونے والا ترجمہ پڑھ رہے ہیں۔

یوں تو عباس تابش کی کئی غزلیں اور شعرمشہور ہوئے مگر اس شعرکو تو بہت ہی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی:

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بارکہا تھا مجھے ڈرلگتا ہے

اس شعر کے بارے انھوں نے ہمیں بتایا''اس شعر کا پس منظریہ ہے کہ میری اپنی والدہ سے بڑی وابستگی تھی۔پانچ برس قبل ان کا انتقال ہوا ہے۔ دوسرے، ایک زمانے میںعظیم صوفی شاعر شاہ حسین کو بہت جی لگا کر پڑھا۔ ان کی کافی' مائے نی میں کیہنوں آکھاں درد وچھوڑے داحال نی۔ بہت پسند تھی، توان کا ماں سے تخاطب یا ماں کے حوالے سے بات کرنا اچھا لگتا تویہ سب بھی میرے اس شعرکے پیچھے موجود ہے۔ 1987ء میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ رہا تھا، اس زمانے میں یہ شعر لکھا۔دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جاتا ہوں، اس شعرپربڑی داد ملتی ہے۔1988ء میںجی سی میں ہونے والے مشاعرے میں غزل پڑھی تو بڑی داد ملی، اور جب یہ شعرجو غزل کا مقطع ہے، سنایا تومجھے یاد ہے، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ سمیت سارا مجمع کھڑا ہوگیا، اس دن صحیح معنوں میں شعر کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ بعدازاں اس شعرکی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ایک دفعہ کراچی گیا تو مشاعرے میں وہ غزل سنائی جس کایہ شعر ہے۔ میرے عزیز دوست حیدرعباس رضوی جو ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ہیں، اور بڑا اچھا شعری ذوق رکھتے ہیں، مشاعرے کی نظامت کررہے تھے، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ 'عباس بھائی، یہ شعر آپ کا ہے؟میں نے کہا کہ بالکل میرا ہی شعر ہے اور میرے مجموعے''آسمان'' میں شامل ہے۔کہنے لگے ' میں نے دوتین باراس شعرکی داد تابش دہلوی کودی، میں نے کہا کہ پھرانھوں نے داد وصول کی؟ اس پرحیدر عباس رضوی نے مجھے بتایا کہ ' انھوں نے تائید کی نہ ہی تردید،جب بھی میں تعریف کرتا، وہ سرہلادیتے، اب معلوم نہیں کہ وہ تردید میں ہلاتے یا تائید میںمگرزبان سے انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ یہ شعران کا نہیں۔''

فیس بک کی طرف وہ پہلے پہل مائل نہ ہوئے اور اسے تضیع اوقات جانا مگررفتہ رفتہ وہ اس کے قائل ہوگئے۔دوبرس سے وہ اسے استعمال کررہے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ کسی بھی دوسرے معاملے کی طرح اس کی زیادتی بھی نقصان دہ ہے۔ انھوں نے فیس بک کے ذریعے چند نئے شاعروں کو بھی جانا، اس ضمن میں تہران میں مقیم کوئٹہ کے شاعراحمد شہریار کا نام خصوصیت سے لیتے ہیں۔ دوسرے انھیں یہ فائدہ ہوا کہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے فین کلب سے رابطے میں آگئے ۔وہ مشاعروں کے نہایت کامیاب شاعر ہیں۔فیس بک پران کے چاہنے والوں کا اپنا حلقہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی ادبی قسمت کا فیصلہ کتاب سے ہوگا۔ان کے بقول، مشاعرے سے ملنے والی داد کو وہ ادھر ہی چھوڑ آتے ہیں، اور سر پر سوار نہیں کرتے۔ ایک قومی روزنامے میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ادب کے سوا روحانیت سے دلچسپی ہے اور اس موضوع سے متعلق تحریروں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ 15 جون 1961ء کو میلسی میں پیدا ہونے والے عباس تابش دو بھائی ، دو بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ بیس برس قبل شادی ہوئی۔خدا نے ایک بیٹی سے نوازا ہے۔زندگی سے مطمئن ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں