بنگلادیشی کیمپوں میں ساڑھے تین لاکھ افراد کرب ناک زندگی گزار رہے ہیں انوار خان
غیربنگالیوں کی نئی نسل بنگلادیشی معاشرے کا حصہ بننا چاہتی ہے، حکومتِ پاکستان اورمسلم ممالک کو کردار ادا کرنا ہوگا
سماجی تنظیم ’’اوبیٹ ہیلپرز‘‘ کے صدر، انوار خان کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : ایکسپریس
نہیں، یہ انوار خان کی کہانی نہیں۔ یہ تو صوبۂ پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک مظلوم عورت کی بپتا ہے، جو ایک بنگالی فوجی افسر سے بیاہی گئی۔
زندگی اپنی ڈگر پر جارہی تھی کہ سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ پیش آگیا۔ مشرقی پاکستان بنگلادیش کے قالب میں ڈھل گیا، تو اُس کے شوہر نے ''اپنے دیس'' کا رخ کیا کہ اب وہ یہاں اجنبی تھا۔ گھر والوں نے لاکھ سمجھایا، مگر محبت کی ڈور سے بندھی وہ عورت شوہر کے ساتھ چلی گئی۔ وہاں اجنبیت کا آسیب منتظر تھا۔ سسرالیوں نے رد کر دیا۔ واپسی کا اب کوئی امکان نہیں تھا۔ کئی برس اذیت میں گزرے۔ بالآخر وہ گھربار چھوڑ کر غموں کی اُس بستی چلی گئی، جہاں سہولیات سے محروم وہ لاکھوں بدنصیب جیون کاٹ رہے تھے، جو نئی ریاست سے خود کو کٹا ہوا محسوس کرتے، جن کی امیدوں کا محور پاکستان تھا، جو بہاری کہلاتے تھے، جو درحقیقت بھلائے جاچکے تھے!
یاس کی اُس تصویر سے، اُس بدنصیب عورت سے انوار خان کی ملاقات Stranded Pakistanis یا غیربنگالیوں کے ایک کیمپ میں ہوئی۔ وہاں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ مقیم تھی۔ اور باقی ماندہ زندگی وہیں گزارنے والی تھی۔ اُس کے اپنے، اُسے بھول گئے تھے۔
ایسی اور بھی سیکڑوں کہانیاں ہیں۔ غم آگیں کہانیاں، جو انوارخان کو اداس تو کرتی ہیں، مگر حوصلہ پست کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کہانیاں محرک کا کام کرتی ہیں۔ اُنھیں جذبے، ولولے سے بھر دیتی ہیں۔ امریکی ریاست انڈیانا میں مقیم انوار خان خود کو بنگلادیشی کیمپوں میں مقیم غیربنگالیوں کی زندگی میں سُدھار کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ اِن بدحال انسانوں کے لیے کوشاں فلاحی تنظیم ''اوبیٹ ہیلپرز'' کے بانی صدر ہیں۔ انڈیانا میں رجسٹرڈ یہ تنظیم اُن کے اہل خانہ اور دوستوں پر مشتمل ہے۔
''اوبیٹ ہیلپرز'' کا قصّہ حیران کن ہے۔
اِس کے تحت اسکولز، ٹیوٹنگ سینٹرز، کمپیوٹر سینٹرز اور خواتین کے تربیتی مراکز سمیت بنگلادیش کے مختلف شہروں میں 60 ادارے کام کر رہے ہیں۔ چھے پرائمری اور ایک مڈل اسکول ہے۔ ''پری اسکول'' کی تعداد پچیس ہے، جہاں کیمپوں کے بچوں کو پہلی جماعت کے امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں،''راہ نمائی کے فقدان کے باعث وہ بچے امتحان میں ناکام رہتے۔ اسکول میں انھیں داخلہ نہیں ملتا۔ بنگلادیشی معاشرے سے کٹ کر کیمپ تک محدود ہوجاتے ہیں۔ اِس مسئلے کے پیش نظر پری اسکول شروع کیے گئے، تاکہ وہ معاشرے کے قریب آسکیں۔'' دو طبی مراکز بھی ہیں۔ ایک رنگ پور میں، دوسرا سیدپور میں۔ کیمپوں میں موتیا کے آپریشن کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ گذشتہ برس ایک برطانوی تنظیم کے تعاون سے ایک ہزار آپریشنز کیے۔
اِس بار کشیدہ حالات کے باعث فقط پانچ سو آپریشنز ہوسکے۔ مستقبل میں اس منصوبے کی توسیع کا ارادہ ہے۔ کیمپوں میں پَل کر جوان ہونے والی نسل کے لیے ''تھنک ٹینک'' کی بھی بنیاد رکھی۔ دیکھ ریکھ اُن کی صاحب زادی کرتی ہیں۔ اِس تنظیم کو معروف امریکی اسکالر، جان کلارک کی معاونت حاصل ہے۔ مائیکرو فنانس اسکیم بھی شروع کر رکھی ہے۔ بنگلادیش میں اُنھیں ایک مقامی تنظیم Integrated Services for Development of Children & Mothers (ISDCM) کا اشتراک حاصل ہے۔ اشتراک سے قبل شرط رکھی تھی کہ ISDCM کی جانب سے ''اوبیٹ ہیلپرز'' کے منصوبوں کے لیے جو ٹیمیں تشکیل دی جائیں، اُن کے لیے افرادی قوت وہ خود ہی فراہم کریں گے۔ شرط قبول کی گئی ہے۔ اُنھوں نے کیمپ ہی کے سو سے زاید نوجوانوں کو ملازمت دلائی۔ 2004 میں قائم ہونے والی اِس تنظیم کا سالانہ بجٹ آج ساڑھے تین لاکھ ڈالر ہے، جس کا 90 فی صد حصہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے عطیات سے پورا ہوتا ہے۔
کیمپوں میں بسنے والوں کی تعداد زیر بحث آئی، تو بتانے لگے،''حکومت بنگلادیش نے 92ء میں سروے کیا تھا، جس کے مطابق 65 کیمپوں میں دو لاکھ 56 ہزار افراد مقیم تھے۔ میرے اندازوں کے مطابق کیمپوں کی تعداد سو کے قریب، اور وہاں پھنسے ہوئے افراد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہیں، جو انتہائی کرب ناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔'' یہاں کچھ دیر ٹھہر کر اُن کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ بھی کم دل چسپ نہیں۔
پورا نام انوار اﷲ خان۔ اگست 1955 میں عبید اﷲ خان کے گھر پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے فارغ التحصیل اُن کے والد پکے مسلم لیگی تھے۔ تقسیم کے بعد حکومت پاکستان کی پیش کش پر مشرقی پاکستان کا رخ کیا۔ رنگ پور کو مسکن بنایا۔ مختلف سرکاری محکموں میں ملازمت کی۔ تین بہنوں، دو بھائیوں میں وہ چوتھے ہیں۔ گنتی پُراعتماد بچوں میں ہوا کرتی۔ قابل طالب علم تھے۔ قائد ملت میموریل اسکول، رنگ پور سے 70ء میں میٹرک کیا۔ سقوط کے دو برس بعد خاندان نے کراچی کا رخ کیا۔ ماڈل کالونی میں ایک رشتے دار کے ہاں ٹھہرے۔ معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ٹیوشن پڑھانے لگے۔
انٹر کرنے کے بعد این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ ملیر اور لانڈھی کے نوجوانوں کی راہ نمائی کے ارادے سے ماڈل کالونی میں ''کیریر کوچنگ سینٹر'' نامی ٹریننگ اسکول کی بنیاد ڈالی۔ یہ ادارہ آج بھی موجود ہے۔ اُن کے بھانجے دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔81ء میں مکینیکل انجینئرنگ میں ڈگری لی۔ ابتداً ملازمتیں کیں۔ پھر کاروبار کا تجربہ کیا۔ 84ء میں شادی ہوئی۔ امریکا میں مقیم بڑی بہن کے مشورے پر گرین کارڈ کے لیے اپلائی کیا۔ 91ء میں گرین کارڈ مل گیا۔ دو برس بعد امریکا کا رخ کیا۔ کون سا شہر رہایش کے لیے بہتر ہے، یہ جانچنے کے لیے بارہ ریاستوں کا دورہ کیا۔ انڈیانا بھا گیا۔ 95ء میں وہاں سیٹل ہوگئے۔ کچھ عرصے بے روزگاری کا کرب سہا۔ پیٹرول پمپ پر کام کرنے کی نوبت آگئی تھی۔ پھر ایک جاپانی کمپنی کا حصہ بن گئے۔ ملازمت کے حصول کے لیے درخواست میں تذکرہ نہیں کیا کہ وہ انجینئر ہیں، ورنہ Overqualified قرار دے کر رد کر دیا جاتا۔ تیزی سے ترقی کا زینہ عبورکیا۔ اِسی عرصے میں ایم بی اے کا مرحلہ طے ہوا۔ پھر جنرل موٹرز جیسے بڑے ادارے سے جُڑ گئے، جہاں اس وقت ''لیڈ آڈیٹر'' ہیں۔ خدا نے تین بیٹیوں سے نوازا۔ دو کی شادی ہوچکی ہے۔
ادب ہمیشہ ہی سے توجہ کا محور رہا۔ مطالعے کی عادت پرانی ہے۔ کرشن چندر اور منٹو کے مداح ہیں۔ کالج کے زمانے میں خود بھی افسانے لکھے۔ شاعری میں اقبال کو سراہتے ہیں۔ 2005 میں اُنھوں نے ''انڈیانا بزم ادب'' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی، جس کے تحت مشاعروں اور ادبی سرگرمیاں کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ جمیل عثمان کی تخلیق ''اَن کہی کہانیاں'' کو بنگلادیش سے متعلق تحریر کردہ اہم کتاب خیال کرتے ہیں۔
''اوبیٹ ہیلپرز'' کا آغاز کیسے ہوا؟ یہ سوال اُنھیں دس برس پیچھے لے جاتا ہے۔ بتاتے ہیں؛ وقت معمول کی رفتار سے گزر رہا تھا کہ ایک روز نظر سے ایک پریشان کن مضمون گزرا۔ ''حیدآباد دکن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد اسماعیل 'ناسا' سے وابستہ تھے۔ ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں بنگلادیش گئے۔ وہاں کیمپوں کی کرب ناک زندگی کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ واپسی کے بعد ایک آرٹیکل لکھا، جو چھپنے کے لیے اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA) کے دفتر آیا۔ وہاں میری بیگم ملازم تھیں۔
یوں وہ تحریر مجھ تک پہنچی۔''اُس مضمون نے جھنجھوڑ ڈالا۔ اندازہ ہی نہیں تھا کہ جس زمین پر شعور کی آنکھ کھولی تھی، وہاں آج لاکھوں افراد پریشان کن زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ خیال بھی آیا کہ اگر قسمت مہربان نہیں ہوتی، تو شاید وہ بھی کسی کیمپ میں سسک رہے ہوتے کہ 71ء میں وہیں تھے۔ کشیدگی سے اٹے ماحول کے گواہ بنے۔ رات فائرنگ کی کریہہ آوازیں سنائی دیتیں۔ خاندان محلے میں مقیم اردو بولنے والا اکلوتا گھرانا تھا۔ اردگرد بسنے والوں سے اچھے روابط تھے۔ سقوط کے سمے گھر تو محفوظ رہا۔ البتہ مصائب میں گِھرے میرپور میں مقیم بہنیں اور اُن کا سسرال شدیدکرب سے گزرا۔ والدہ اُن دنوں وہیں تھیں۔ فسادات کے دوران گولی لگنے سے وہ شدید زخمی ہوگئیں۔ خدا نے زندگی لکھی تھی۔ خوش قسمتی سے بروقت طبی مدد مل گئی۔
تو ڈاکٹر اسماعیل کا آرٹیکل پڑھ کر ماضی کی تلخ یادیں تازہ ہوگئیں، جنھوں نے محرک کا کام کیا۔ فوراً اہل خانہ، دوستوں کو اکٹھا کیا۔ کیمپوں میں مقیم کسی ایک خاندان کی کفالت کا ذمہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ موقعے ہی پر سترہ سو ڈالر اکٹھے ہوگئے۔ بنگلادیش جا کر مستحق خاندان کا چناؤ کرنے کی ذمے داری انوار خان کے حصے میں آئی۔ بنگلادیش پہنچ کر کیمپوں کا دورہ شروع کیا۔ آغاز محمد پور کے جینوا کیمپ سے ہوا۔ پھر میرپور گئے۔ انتہائی کرب ناک تجربہ تھا وہ۔ کیمپوں کی زندگی قریب سے دیکھ کر احساس ہوا، یہاں تو ہر خاندان مستحق ہے۔
یہ رنگ پور کے اصفہانی کیمپ کا واقعہ تھا، جس نے اُس ڈگر پر ڈال دیا، جو ''اوبیٹ ہیلپرز'' تک لے گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک گلی سے گزرتے ہوئے چند بچوں سے سامنا ہوا۔ وہ راستہ روکے کھڑے تھے۔ پتا چلا کہ وہاں غسل خانے نہیں۔ خواتین کو کھلے آسمان تلے نہانا پڑتا ہے۔ ایسے موقعوں پر گلی کے دونوں طرف بچوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال اُن کے لیے شدید تکلیف دہ تھی۔ جو رقم لے کر آئے تھے، وہ غسل خانے کی تعمیر کے لیے وقف کر دی۔ اس فیصلے نے کیمپ کے بدحال باسیوں کو احساس تشکر سے بھر دیا۔ بڑے ہی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ بوڑھی عورتیں پُرنم آنکھوں کے ساتھ اُنھیں دعائیں دے رہی تھیں۔ بتاتے ہیں،''ایک ضعیف خاتون مجھے کیمپ کے ایسے حصے میں لے گئیں، جہاں تعفن کے باعث سانس لینا دشوار تھا۔ پتا چلا، میرپور کی سیوریج لائن کیمپ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ اُس کا سلیب ٹوٹ گیا تھا، جس کی وجہ سے بڑا سا، خطرناک گڑھا بن گیا۔ اُنھوں نے مجھے بتایا؛ بارشوں میں لائن بھر جاتی ہے، سیوریج لائن کا پانی کیمپ میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کے امراض جنم لیتے ہیں۔ کئی بچے اِس میں گر چکے ہیں۔ اگر ممکن ہو، تو اِس کی مرمت کروا دی جائے۔''
صورت حال واقعی ابتر تھی۔ اِس کام کے لیے پانچ ہزار ڈالر درکار تھے۔ لوٹنے کے بعد اہل خانہ کو حالات سے آگاہ کیا۔ دو ہزار ڈالر فوراً ہی اکٹھے ہوگئے۔ امریکا میں این ای ڈی سے فارغ التحصیل کئی انجینئرز مقیم تھے۔ اُن سے رابطہ کیا گیا۔ ردعمل حیران کن رہا۔ ضرورت تین ہزار ڈالر کی تھی، مگر کچھ ہی روز میں اٹھارہ ہزار ڈالر جمع ہوگئے۔ اب ایک تنظیم بنانے کا خیال آیا۔ ''اوبیٹ ہیلپرز'' کی بنیاد رکھی گئی۔ OBAT والدین اور ساس سسر کے ناموں کا مخفف ہے۔
سانحۂ نوگیارہ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث احتیاط کو بھی پیش نظر رکھا۔ امریکی سینیٹر، رچرڈ لوگر سے رابطہ کیا گیا۔ یہ وہ ہی صاحب ہیں، جن کے ''لوگر بل'' کا پاکستان میں چرچا رہا۔ رچرڈ لوگر سے ملاقات تو نہیں ہوئی، مگر ڈھاکا میں امریکی سفارت خانے سے میٹنگ کا اہتمام کر دیا گیا۔ امریکی سفارت خانے نے براہ راست کام کرنے کے بجائے کسی مقامی تنظیم سے اشتراک کا مشورہ دیا۔ یوں ISDCM سے رابطہ ہوا، جو یونیسیف کے سابق ملازمین پر مشتمل تھی۔
بیس ہزار ڈالر کی رقم پاس تھی۔ پہلے رنگ پور کے کیمپ میں سیوریج لائن کی مرمت کروائی۔ مختلف کیمپوں میں بیت الخلا تعمیر کیے گئے۔ کمبل اور گرم کپڑے تقسیم ہوئے۔ آنے والے برسوں میں تعلیم کی جانب توجہ مرکوز کی۔ اسکول شروع کیے۔ کوچنگ سینٹر قائم کیے۔ قرضوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مستقبل میں انوار خان کیمپوں کے بدنصیب باسیوں کے لیے رہایشی منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کیمپوں میں مقیم غیربنگالیوں سے متعلق وہاں کے مقامی افراد کا کیا رویہ ہے؟ اِس بابت کہتے ہیں،''وہاں کے لوگ بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر یہ قصوروار بھی ہیں، تو اُنھیں خاصی سزا مل چکی۔ ہمیں وہاں کام کرتے ہوئے کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئی۔ مقامی افراد کا تعاون بھی حاصل رہا، مگر یہ مسئلہ بے حد حساس ہے۔ مثلاً اگر آپ خود کو پاکستانی کہتے ہیں، تو جو ہم دردی مقامی افراد سے آپ کو مل رہی ہے، آپ اُس سے محروم ہوجائیں گے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے تھوڑی کشیدگی ضرور ہے، مگر ہمیں کسی پُرتشدد واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔''
کیا چار عشرے گزر جانے کے بعد بھی آج کیمپوں میں رہنے والے خود کو پاکستانی کہتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں،''پرانے لوگ خود کو اب بھی پاکستانی سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان سے محبت رکھتے ہیں، اور اِس وجہ سے انھیں مشکلات بھی پیش آتی رہیں، البتہ نئی نسل خود کو پاکستانی نہیں کہتی۔ وہ بنگلادیشی معاشرے کا حصہ بننا چاہتی ہے۔'' وہ غیربنگالیوں میں پائے جانے والے تذبذب کا ذکر کرتے ہوئے اِس کی ذمے داری پاکستانی حکومت پر عاید کرتے ہیں۔ کہنا ہے،''وہ امید کے سہارے جی رہے ہیں۔ اگر حکومتِ پاکستان واضح موقف اختیار کر ے، اُنھیں بتا دیا جائے کہ اب اُنھیں اپنی زندگی بنگلادیش میں گزارنی ہے، تو وہ لوگ مستقبل سے متعلق بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔''
انوار خان کے مطابق وقت کے ساتھ بنگلا حکومت کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔ ''دراصل وہاں کی سیاسی پارٹیاں خواہش رکھتی تھیں کہ بہاریوں یا غیربنگالیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے، کیوں کہ اپنی تعداد کے باعث وہ انتخابات پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ 2008 میں بنگلادیش کے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 71ء کے بعد کیمپوں میں پیدا ہونے والے افراد اگر درخواست دیں، تو اُنھیں شہریت دی جائے۔ سیاسی جماعتوں نے اس ضمن میں کام کیا۔ کیمپوں میں جا کر ووٹرز رجسٹریشن کروائی۔ اِس سے کیمپ والوں کو فائدہ ہوا۔ البتہ جس شخص کا ایڈریس کیمپ کا ہے، اُس کا پاسپورٹ نہیں بنے گا۔ یعنی آپ اِسے مکمل شہریت نہیں کہہ سکتے۔''
یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے انوار خان کے بہ قول حکومت پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ ''یہ غیربنگالی، بنگلادیش کے لیے بھی بوجھ ہیں۔ بیرونی دنیا میں اُن سے کیمپوں سے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ تو میرے نزدیک مسلم ممالک کو بنگلادیشی حکومت کی معاونت کرتے ہوئے اِس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔''