امداد باہمی کا نظام مستقبل کا درخشاں ستارہ

ویسے سرمایہ دارانہ نظام میں یوٹرن لینا ضروری ہے اور اس پر اس نظام کا انحصار ہے۔


Zuber Rehman March 21, 2021
[email protected]

طبقہ اگر بدلتا ہے تو فکر بھی بدل جاتی ہے۔ ہمارے بعض کالم نویس مزدور طبقے، کسان اور محکوم عوام کی بات کرتے تھے مگر اب شاید طبقہ بدلنے سے تحریک انصاف کو متوسط طبقے کی جماعت کہنے لگے ہیں اور کامریڈوں کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف میں سیاسی سرگرمی کریں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف میں کون سا ایسا وزیر، مشیر ہے جو متوسط طبقے کا ہے۔ کچھ امیر ترین اور فیکٹریوں کے مالک ہیں، بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔

جہاں تک کالم نگار کی بات ہے تو وہ خود اسٹڈی سرکل کی پیداوار ہیں اور اب اسٹڈی سرکل اور بائیں بازو کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھکتے نہیں۔ دوسری طرف پرویز مشرف، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا دفاع کرنا اپنا طبقاتی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کمروں میں اسٹڈی سرکل کے ذریعے عوام کے شعور کو بیدار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسٹڈی سرکل کے ساتھ ساتھ جو محنت کش عوام کے حقوق کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں وہ انھیں نظر نہیں آتے اس لیے بھی کہ تقریباً 20 برس سے عوام میں جانا چھوڑ دیا ہے۔

اسٹڈی سرکل ہوم بیس ورکرز وومن فیڈریشن بھی کرواتی ہے اور خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہزاروں کا مارچ اور محنت کش خواتین کے مطالبات پر آواز اٹھاتی ہے۔ زرعی کسان خواتین، کھیت مزدور، گارمنٹ اور ٹیکسٹائل کے مزدور کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہزاروں مزدوروں کی ریلیاں نکالتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں، وہ انھیں نظر نہیں آتے۔ اس لیے کہ وہ کمرے سے باہر نہیں نکلتے۔ گزشتہ برس پاکستان کے 40 شہروں میں طلبا یونین کی بحالی کے لیے ہزاروں کا جلوس نکلا۔ یہ سب طلبا اسٹڈی سرکل بھی چلاتے ہیں۔

وزیرستان میں رجعت پرستی اور عسکریت پسندی کے خلاف جدوجہد کرنیوالے شہری بھی اسٹڈی سرکل چلاتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی نوجوان اسٹڈی سرکل میں حصہ لیتے ہیں اور کتابیں پڑھنے کا شوق بھی ہے۔ ''طبقاتی جدوجہد'' والے اسٹڈی سرکل چلاتے ہیں اور ہر جدوجہد میں شریک ہوتے ہیں۔ بایاں بازو خواہ کسی پارٹی کی شکل میں نہ نظر آئے لیکن، مزدوروں، دانشوروں، کسانوں، ڈاکٹروں، وکلا اور ہر محکوم طبقہ اور گروہ میں جدوجہد کر رہا ہے اور انقلابی تحریروں کا مطالعہ بھی کرتا ہے۔

کالم نویس کہتے ہیں کہ عام عوام سرمایہ دارانہ نظام کو اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عام آدمی کالم نگار سے زیادہ باشعور اور ہوشیار ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے، بے روزگاری کیوں ہو رہی ہے اور لوگ بھوک سے کیوں مر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور اس کی حکومت سرمایہ داروں کی ہے۔ جب کہ کالم نویس کہتے ہیں کہ یہی تو ایک جماعت اور حکومت ہے جس میں کامریڈوں کو کام کرنا چاہیے۔

عوام میں آپ اگر جائیں اور پوچھیں کہ یہ حکومت کیسی ہے اور مہنگائی کس کی وجہ سے ہو رہی ہے تو ہر شخص بلا سوچے فوراً یہ جواب دے گا کہ مہنگائی تحریک انصاف کی حکومت کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ساری زندگی علم حاصل کر کے یہ سوال کرتے ہیں کہ لیلیٰ مرد ہے یا عورت۔ کالم نویس کہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو کامریڈ کہہ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے۔ اس لیے کہ کامریڈ صرف کمیونسٹ، کمیونسٹ کو یا انارکسٹ انارکسٹ کو کامریڈ کہہ کر خوش ہونے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہم خیال ایک دوسرے کو کامریڈ کہہ سکتا ہے۔

چور چور کو بھی کامریڈ کہہ سکتا ہے۔ خواہ وہ گندم چور ہو یا چینی چور۔ چونکہ بعض وزرا اور اراکین پارلیمنٹ نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں تو کیوں نہ وہ ایک دوسرے کو کامریڈ کہیں۔ موصوف انقلابی تربیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہنا چاہتے ہیں کہ کامریڈوں نے انقلابی تربیت حاصل نہیں کی۔ درحقیقت اگر وہ خود انقلابی تربیت حاصل کرتے تو عوام سے سیکھتے کہ وہ تحریک انصاف کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ وہ ایک جگہ یہ لکھتے ہیں کہ کامریڈ 4 سے 3 تو ہو سکتے ہیں لیکن 4 سے 5 نہیں ہو سکتے ہیں۔ جب چمگادڑ دن بھر آنکھیں بند کر کے الٹا لٹکتا رہتا ہے تو اسے سورج کا کیا پتا اور روشنی کسے کہتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں اسلام آباد اور لاہور میں سرکاری ملازمین اپنے مطالبات کے حصول کے لیے کس جرأت مندی اور بہادری سے لڑائی لڑی۔ گارمنٹ اور ٹیکسٹائل کے مزدوروں نے فیصل آباد اور کراچی میں کس ہمت اور جرأت سے احتجاج کیا۔ 8 مارچ کو محنت کش خواتین نے ملک بھر میں سینہ تان کے منظم انداز میں اپنے حقوق کے لیے خواتین کا عالمی دن منایا۔ یہ 4 سے 3 نہیں 4 سے 4/4 ہزار کے متعدد شہروں میں مظاہرے تھے۔

اس بزرگ کالم نویس کو ان جدوجہد کرنیوالے محنت کشوں کی حمایت میں بجائے کچھ لکھنے کے ہمیشہ وہ عمران خان، پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کو متوسط طبقہ کہہ کر تعریف کے پل باندھتے رہتے ہیں۔ انھیں روزانہ درجنوں بچے، بچیاں، عورتوں کا قتل، اغوا اور ریپ نظر نہیں آتا۔ وہ اس پر کبھی بھی حکمرانوں کی ذمے داری قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کرنے کی بجائے کامریڈوں کو پی ٹی آئی میں داخل ہونے اور حکومت کی کاسہ لیسی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ ان کے طبقاتی شعور کا المیہ ہے یا مفادات کی ہیرا پھیری۔ یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ ہم تو صرف تجزیہ کر سکتے ہیں۔

ہمارے انقلابی فلسفی کہتے ہیں کہ صرف متوسط طبقہ تبدیلی نہیں لائے گا۔ بلکہ یہ تو ہیرا پھیری کرنے میں ذرا سا ہچکچاتا نہیں۔ انقلاب پیداواری قوتیں، محنت کش عوام اور شہری سب مل کر لائیں گے اور شرط یہ ہے کہ طبقات، ملکیت اور جائیداد کا خاتمہ کر کے سارے وسائل اجتماعی ملکیت میں تبدیل کر دیں گے۔ متوسط طبقے کو چھوڑ دیں پی ٹی آئی ماضی کی ساری بورژوا پارٹیوں کی طرح پارٹی ہے۔ بلکہ مہنگائی اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں تو بازی لے گئی۔

عوام کے لیے سینیٹ یا اسمبلی کے ارکان کا منتخب ہوجانا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسے تو آٹا، چاول، دال، تیل، دودھ، گوشت، انڈے اور ساری اشیا خور و نوش سستی چاہئیں۔جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، اپنے پیاروں کا علاج نہ کروا پاتے ہوں، بچوں کو تعلیم دلانے سے قاصر ہوں وہاں وہ تحریک انصاف میں داخل ہو کر کیا کریں گے۔ عمران خان کی حکومت میں گندم کے اسمگلروں اور چینی کے جعلی بیوپاریوں کو جب نہ روک پائے اور روٹی کے ٹکڑوں سے ترس گئے جب اس کا ازالہ نہیں کر پائے تو آگے کیا کریں گے۔

کالم نویس کے ذہن میں شاید یہ ہو کہ ہم دانشور ہیں اور ہمارا کالم لوگوں کو علم و دانش سے آگہی دیتا ہے۔ وہ شاید یہ بھول گئے کہ دنیا کا عظیم دانشور اور فلسفی سقراط بولتے کم اور سوال زیادہ کرتے تھے۔ حکمران جب خود یہ کہتے ہیں کہ سیاست میں یوٹرن لینا ضروری ہے۔ اگر ہٹلر یوٹرن لیتا تو اسے کبھی بھی شکست کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ یعنی حکمران جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم 50 لاکھ گھر بنا کر دیں گے اور ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دیں گے اور پھر جب اس سے پھر جاتے ہیں تو اسے وہ جائز قرار دیتے ہیں۔

ویسے سرمایہ دارانہ نظام میں یوٹرن لینا ضروری ہے اور اس پر اس نظام کا انحصار ہے۔ جب کہ آزاد سوشلزم اور سماجی انقلاب طبقات کو ختم کر کے دنیا بھر کی ریاستی سرحدوں کا خاتمہ کر دے گا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں خودکار اور خود انحصار فیڈرل کمیون تشکیل دی جائے گی اور ان کے نمایندوں پر مشتمل عالمی کمیٹی بنے گی۔ یعنی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، نہ کوئی طبقہ اور نہ کوئی ریاست۔ مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں