تنہا پرواز
کیا (ن) لیگ اور مولانا تنہا پرواز کرسکیں گے؟ جب کہ ہر دو فریق نیب کے نشانے پر ہیں اور نئی فائلیں کھولی جا رہی ہیں۔
KARACHI:
انگریز جنرل سر چارلس نیپیئر نے جب 1843 میں سندھ کو فتح کیا، تو اس نے اس وقت کے ہندوستانی گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی کو فتح کا پیغام ان الفاظ میں بھیجا ''پیکاوی'' یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ''میں نے گناہ کیا''۔ بظاہر یہ بڑا عجیب پیغام تھا۔
فوجی افسر اور گورنر جنرل کے درمیان میں پہلے سے ایسی کوئی قرارداد نہیں ہوئی تھی جس کے مطابق وہ اس کا مطلب جان لیتا۔ اس کے باوجود گورنر جنرل اپنی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس پیغام میں چھپے معنی و مفہوم کو سمجھ گیا۔ اس نے ''پیکاوی'' کا انگریزی ترجمہ کاغذ پر لکھا جو کچھ اس طرح تھا "I have sinned."اس کو دیکھ کر وہ فوراً سمجھ گیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میں نے سندھ کو سرکرلیا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے دوراہے پر نازک اور بڑے معاملات سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمیشہ ایسے ہی ذہین اور دوررس افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ایسے لوگ جو محض اشاروں کے ذریعے تفصیل کو سمجھ لیں۔ جو نہ کہی ہوئی بات کو کہی ہوئی بات کی طرح جان لیں، جو اس بات کو بھی پڑھ لیں جو سطروں میں لکھی ہوئی موجود نہیں ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں میں سے ایک زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہر بات پیشگی بتائی نہیں جاسکتی۔
بہت سی باتوں کو بتائے بغیر جاننا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کے اندر یہ صلاحیت ہو وہی کوئی قابل ذکر کام کرتے ہیں اور جو لوگ اس صلاحیت سے محروم ہوں وہ صرف نادانیاں کریں گے اور اس کے بعد شکایتوں کا دفترکھول کر بیٹھ جائیں گے۔ دنیا میں سب سے خوش قسمت انسان وہ ہے جس کو ایسے ساتھی مل جائیں جو چپ کی زبان جانتے ہوں۔ جو بولے بغیر سنیں اور لکھے بغیر پڑھیں۔ جو سطروں سے گزر کر بین السطور میں چھپی ہوئی باتوں کو جان لیں۔
آج وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی ہر دو محاذوں پر چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو بھی جھٹکا لگا۔ وقفے وقفے سے کورونا وائرس کی نئی شکل سامنے آنے اور اس کے امکانی خطرات کے پیش نظر ضروری ہے کہ حکومتی اور عوامی ہر دو سطح پر اس ''خاموش'' وائرس کے وار سے محفوظ رہنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔
ہر سطح پر ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ پاکستان اس مہلک اور جان لیوا وائرس کے حملوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس ضمن میں حفاظتی ویکسین لگوانے سے لے کر حفاظتی اقدامات و احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد تک عوام الناس کو ذمے دار کردار ادا کرنا ہوگا۔
ادھر قومی سیاست میں پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے غبارے سے پیپلز پارٹی کے اصل سربراہ آصف علی زرداری نے اپنے بھاری پن سے ہوا نکال کر ''ایک زرداری سب پہ بھاری '' کے نعرے پر مہر تصدیق ثبت کردی اور میاں نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے حکومت مخالف اور طاقتور حلقوں کے خلاف جارحانہ عزائم کے آگے، اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کی دانش مندانہ حکمت عملی سے بند باندھ دیا ہے۔
انھوں نے (ن) لیگ کے سامنے یہ کڑی شرط رکھ دی کہ ''میاں صاحب وطن واپس آئیں، ہم استعفے آپ کے پاس جمع کروا دیں گے، لڑنا ہے تو سب کو جیل جانا پڑے گا، ملک میں آکر لڑائی لڑیں'' پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف زرداری اور مریم نواز کے درمیان میاں صاحب کی واپسی پر خاصی ''گرم گفتگو'' ہوئی۔ (ن) لیگ اور جے یو آئی سمیت پی ڈی ایم کی دیگر 9 جماعتیں استعفوں پر راضی ہیں۔ لیکن آصف زرداری کا موقف ہے کہ سیاسی لڑائی اسمبلی کے فلور پر لڑی جائے۔
پی پی پی لانگ مارچ اور دھرنے میں بھی پوری طرح سنجیدگی سے مولانا فضل الرحمن اور میاں صاحب کی پالیسی کی حامی نہیں ہے۔ اگرچہ پی پی پی نے استعفوں کے حوالے سے اپنی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی سے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے جو دے دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفوں کے حق میں نہیں ہے اور پارٹی کے سی ای سی اجلاس میں بھی مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ ہی متوقع ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور (ن) لیگ پی پی پی کے اس فیصلے سے سخت دل برداشتہ ہیں۔
مولانا کے بقول پی ڈی ایم اجلاس میں پیپلز پارٹی کا رویہ غیر جمہوری تھا۔ مولانا کی ناراضی پریس کانفرنس میں بھی عیاں تھی جب وہ صحافیوں کے سامنے لانگ مارچ ملتوی کرنے کا مختصر سا اعلان کرکے فوراً واپس چلے گئے۔ بقیہ پریس کانفرنس مریم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو بھگتانا پڑی۔ آصف زرداری گھاگ سیاستدان ہیں وہ سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھتے ہیں اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیلتے ہیں۔ وہ خاموشی کی زبان اور پیغام کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت جیسے بڑے صدمے پر انھوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ مقتدرہ قوتیں جمہوری سسٹم کو فی الحال ڈی ریل نہیں کرنا چاہتیں اور استعفے سراسر گھاٹے کا سودا ہوں گے اس سے عمران حکومت مضبوط ہوگی اور انھیں سندھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اس لیے یہ طے ہے کہ پی پی پی استعفے نہیں دے گی۔ حکومت کا لانگ مارچ پر اظہار تشکر تو بنتا ہے لیکن اب انھیں اپنی سیاسی بقا کے لیے عوام کے سب سے بڑے مسئلے مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
رہی پی ڈی ایم تو اس کی ایک مضبوط وکٹ گر چکی ہے۔ کیا (ن) لیگ اور مولانا تنہا پرواز کرسکیں گے؟ جب کہ ہر دو فریق نیب کے نشانے پر ہیں اور نئی فائلیں کھولی جا رہی ہیں۔