عقیدت کے پھول
عوام الناس کتنی تکلیف میں ہیں اور تعلیم کی زبوں حالی پر بہت دکھی ہوتیں۔
یاد جب شہرِمدینہ کی فضا آتی ہے
ہر نفس صل علیٰ ہی کی صدا آتی ہے
عشقِ مصطفیؐ سے سرشار نعت کایہ شعر ممتاز شاعرہ ، ادیبہ اور ماہرِتعلیم انورجہاں برنی کی نگارشات کی کتابی شکل ''بیاضِ دل'' میں محفوظ ہے۔ آپ مولانا حسرت موہانی اور پروفیسر الیاس برنی کے خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں۔
آباؤ اجداد کا تعلق ریاستی انتظام وانصرام ، تفسیرِکلامِ الہی و تشریحِ احادیث سے بھی رہا۔ ان ہی میں سے کچھ تحریکِ آزادی کی سپہ گری میں بھی تھے جنہوں نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،کچھ شعبہ صحافت اورکچھ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ آپ کے والد پروفیسر شریف الحسن برنی اورنگ آباد دکن میں عرصہ دراز تک صدرِ مہتممِ تعلیمات رہے۔
آپ کے خاندان کے دیگر افراد نے حصولِ علم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا چناؤ اس وقت کیا جب یہ ''محمڈن اینگلواورینٹل کالج تھا جو بعد میں1920میں جامعہ علی گڑھ کا درجہ حاصل کرگیا،جس نے اپنی انفرادیت کی بناء پر عالمی شہرت پائی، یہ نہ صرف ایک تاریخ ساز ادارہ ہے بلکہ اس نے تاریخ ساز شخصیتوں کی کیا خوب کردار سازی کی جن کے کارناموں کی داستان کہکشاںِ آسمانِ علم و فن پر ہمیشہ روشن رہے گی۔
دوسری منتخب درسگاہ جامعہ عثمانیہ رہی جس کا قیام 1918میں عمل میں آیا جو دکن میں علمی،ادبی تہذیب کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور یہ برصغیرکی وہ پہلی جامعہ ہے جس میں علوم وفنون کی تعلیم اردو زبان میں دی جاتی تھی۔آپ نے جامعہ عثمانیہ سے اردو ، فارسی اور عمرانیات میں گریجویشن کیا۔1932میںجب عثمانیہ انٹرمیڈیٹ کالج اورنگ آبادکا قیام عمل میں آیا تو مولوی عبد الحق اس کے پہلے پرنسپل بنے۔ اس شہرمیں انجمن ِ ترقی اردوکا صدر دفتر ، دکن ریڈیو اسٹیشن اور اردو پریس ہونے کی وجہ سے اورنگ آباد معروف ادبا کی موجودگی کے باعث علم وادب کا ایک مثالی گہوارہ تھا۔اسی شہر میں آپ کے بہن بھائی مدرس ومنتظم بھی رہے۔
انور جہاں صاحبہ کے بچپن،طالب علمی اورتدریسی دورکو حیدرآباد دکن کا علمی اور ادبی ماحول ملا جہاں نہ صرف شاہِ دکن میر عثمان علی خان بلکہ ان کے بعض وزراء بھی ادبی ذوق رکھتے جو نہ صرف اس کی سرپرستی کرتے بلکہ خود بھی شاعر تھے۔ برصغیرکی تاریخ کاایک طائرانہ جائزہ لیں تو یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ ریاست حیدرآباد وہ واحد ریاست تھی جہاں اردو زبان کوسرکاری سرپرستی حاصل رہی ۔
ہجرت کے بعد جامعہ کراچی سے ایم اے اردو اور جامعہ پشاورسے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور پہلے پشاور اور پھر نوشہرہ میں تعلیمی اداروں سے بحیثیت مدرس منسلک ہوئیں، اس کے بعد کراچی آگئیں ، جہاں صدر معلمہ کی حیثیت سے گورنمنٹ گرلز سکینڈری اسکول کورنگی تعینات ہوئیں اور دو مرتبہ اعلیٰ کارکردگی کے ایوارڈ سے آپ کو سرفرازکیا گیا۔
دیگر شعبوں سے وابستگی کے باوجود آپ کے خاندان کے سب بزرگوں کی ایک قدر مشترک رہی کہ وہ سب نہ صرف شعروادب کے دلدادہ تھے بلکہ اپنے قلم سے اس کی ہمیشہ آبیاری کرتے رہے خواہ کسی بھی شہر میں سکونت اختیارکی ہو ہر جگہ ادبی محفلیں سجائے رکھیں یہی وجہ ہے کہ شعر وادب کی نشرواشاعت میں ان کے خاندان کا اپنا ایک منفرد مقام رہا۔
آپ کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کے منعقدہ مباحثوں ، شعرو ادب کی محفلوں ، اورنگ آباد کے ہردل عزیز ریڈیائی پروگراموں میں شرکت سے ہوا۔ میلاد کی مقدس محافل میں مولانا حالی کی مسدس، اقبال کی بانگِ درا اور مولوی محمد اسمعیل میرٹھی کی حمد اور نعتیں آپ کا انتخاب ہوتیں۔آپ کی تحریرکردہ ایک حمدیہ نظم میں آپ پروردگار ِعالم سے یوں گویا افروز ہیں:
توواحد و یگانہ ہے، تو ذاتِ بے مثال
تصویرِکائنات میں تیرا ہی ہے جمال
یاربِ ذوالجلال! یارب ذوالجلال!
لاہور سے امتیاز علی تاج کا رسالہ ''پھول'' اور شاغل فخری کا بجنور سے شایع ہونے والا میگزین''غنچہ''آپ کے پسندیدہ رسالے تھے،اس کے نئے شماروں کا آپ کو بے چینی سے انتظار رہتا۔ ''ریڈیوسیلون ''اور''لکس کے ستارے'' آپ کے پسندیدہ پروگرام تھے۔ آپ کا کلام سہ ماہی ' الاقربا 'اسلام آباد ، پاکستان جیسے معیاری مجلوں کی زینت بنتا رہا جس سے خطوط کے ذریعے قارئین کی ہمیشہ پذیرائی حاصل رہی۔
آپ ''طلوعِ سحر'' رسالے کی مدیر بھی رہیںجو ملی اقدارکا ترجمان بن کر فروغِ علم میں اپنا بھرپورکردار نبھاسکا۔یہاں آپ انجمن صدر مدرسین سے وابستہ ہوئیںجن میں آپ کے ہمراہ بیگم رضی حمید کمالی، مسز غلام مصطفی شاہ ،رابعہ خالق ، مسز جامی، قمرالنساء خان ، مسزکاظمی، مسز خمار، مسزاحمد، عصمت عباس اور دیگر سربراہانِ مدرسہ تھیں ، یہ فنکشن کمیٹی کی بھی سرگرم اور فعال اراکین رہیں اور پھر ریٹائرڈ صدرمدرسین انجمن سے بھی منسلک رہیں اور بے شمار فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں۔
برصغیر کے ان عظیم الشان اداروں اور ادبی ماحول کا ہی فیضان تھا جو آپ کوکم سنی سے میسر تھے کہ عمرکے آخری پڑاؤ تک آپ کا لہجہ انتہائی شائستہ ، بہترین الفاظ کا چناؤ ، انتہائی سحر انگیز اندازِ بیاں کہ سامع کی بھرپور خواہش ہوتی کہ سنتے ہی جائے سنتے ہی چلا جائے اور وقت تھم جائے لیکن ہائے یہ بے رحم وقت جو اس تیزی سے گذر جاتا ہے کہ نہ جانے کتنی نایاب ہستیوں کوگذرا ہوا وقت بنا گیا اور یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں ہم ان کے لیے''لیٹ'' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
اپنی رحلت سے چار پانچ دن قبل اتفاق سے رات ایک بجے(ظاہرہے ہماری رات اور امریکا میں دن)ویسے عموما وہ اتنی رات کو فون پر بات نہ کرتی تھیں مگرخدائے رب العزت کی حکمتیں انسان کی سوچ سے بہت بلند ہیں اور یوں گفتگوکا ایسا دور چلاکہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور دو بج گئے جب پتہ لگا کہ اتنا وقت ہوگیا توکہنے لگیں ''کیا تمہیں فجر میں اٹھنا نہیں، چلو تہجد پڑھ کر اب جلدی سے سو جاؤ'' وہ جب بھی مجھ سے بات کرتیں، ہمیشہ اپنے وطن کے حالات اور خصوصا شعبہ تعلیم کا احوال ضرور پوچھتیںانتہائی افسوس اور دکھ کا اظہار کرتیں کہ عوام پر مہنگائی کا کس قدر بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
عوام الناس کتنی تکلیف میں ہیں اور تعلیم کی زبوں حالی پر بہت دکھی ہوتیں۔یہ مادرِوطن سے والہانہ محبت ہی تھی کہ جب تک وہ پاکستان میں رہیں ہر طرح سے تعلیمی میدان میںکسی نہ کسی صورت میں خدمات انجام دیتی رہیں،آپ نے اپنی پوری زندگی تعلیمی معیار ، تعلیمی اداروں کی کارکردگی خوب سے خوب تر بنانے میں وقف کی اور اب وہ امریکا میں بھی کچھ کرگذرنے کی جستجو میںلگی رہتیںیہی وجہ ہے کہ رب العزت نے بغیرکسی محتاجگی کے انھیں اپنے پاس بلا لیا ، بے شک جو دنیا میں آیا ہے اس سے اپنے رب کے حضور لوٹنا ہے۔ پچھلے دنوں قمرالنساء خان(المعروف قمر آپا)سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بھی وفات پاگئیں۔ اللہ کریم ان خواتین کی خدمات کو اپنی جناب میں قبول فرمائے۔