’’تاج محل آگرہ ‘‘
ممتاز محل نے مرنے سے پہلے شاہ جہاں سے تین وعدے لیے۔میری موت کے بعد شاندارمقبرہ بنوانا،شادی نہ کرنا،بچوں پرمہربان رہنا۔
SAHIWAL:
بھارت میں قیام کے دوران تاج محل آگرہ بھی جانے کا موقع ملا۔شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی موت کے بعد اس کی تعمیر کا فیصلہ لا زوال محبت کی نشانی کے طور پر کیا۔
ممتاز محل نے مرنے سے پہلے شاہ جہاں سے تین وعدے لیے۔میری موت کے بعد شاندارمقبرہ بنوانا، شادی نہ کرنا، بچوں پر مہربان رہنا۔ممتاز محل کو عارضی طور پر برھان پور (جہاں اس کا انتقال ہوا) دفن کیا گیا مقبرے کی تعمیر کے بعد اس کے جسد خاکی کو تاج محل میں منتقل کیا گیا۔
تاج محل کے قریب پہنچے تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس تاریخی عمارت کودھویں کی آلودگی سے بچانے کے لیے کسی بھی قسم کی گاڑی کو تاج محل تک نہیں جانے دیا جاتا۔ گاڑیوں کو محل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر روک لیا جاتا ہے۔ سیاح وہاں سے تاج محل کے صدر دروازے تک" بیٹری" سے چلنے والی آگرہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی بس کے ذریعے جاتے ہیں، ان گاڑیوں میں 96KVکی الیکٹرک بیٹری نصب ہے ۔ کرایہ دو روپے ہے۔
تاج محل کے صدر دروازے کے ساتھ ٹکٹ گھر پر بڑے نمایاں حروف میں لکھا تھا،''بھارتی شہری بیس روپے، غیر ملکی750روپے''۔
تاج محل کا مین گیٹ سرخ پتھر کی مٹی سے بنایا گیا ہے، اس عالیشان گیٹ پر کالے سنگ مر مر سے آیات کریمہ کندہ ہیں۔ مین گیٹ اور تاج محل کے درمیان پانی کی گزر گا ئیں اور فوارے نصب ہیں، اس پانی میں تاج محل کا عکس نہایت دلکش منظر پیش کرتا ہے۔صبح کا سورج طلوع ہونے سے لے کر رات دس بجے تک تاج محل کھلا رہتا ہے۔ تاج محل کے صحن میں داخل ہونے والے پہلے دروازے کی ڈیوڑھی کے درمیان اگر کھڑا ہو کر تاج محل کی طرف دیکھیں تو کوئی مینار نظر نہیں آتالیکن اگر آپ ایک قدم دائیں اٹھائیں تو بایاں مینار نظر آئیگا اور اگر ایک قدم بائیں اٹھائیں تو دایاں مینار نظر آئیگا۔
اگر آپ ڈیوڑھی سے آگے کی طرف (تاج محل کی طرف) قدم اٹھائیں تو تاج محل دور بھاگتا ہوا محسوس ہوگا لیکن اگر آپ الٹے پائوں چلنے لگیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاج محل آپ کے پیچھے آ رہا ہے۔یہ سب کچھ فن تعمیر کا کمال ہے جو ایک عجوبے سے کم نہیں ہے۔ تاریخی کتابیں بتاتی ہیں کہ شاہ جہاں نے تاج محل کی تعمیر کے وقت دریائے جمنا کا رخ اس طرح تبدیل کیا کہ وہ تاج محل کے ساتھ سے گزرے۔ تاج محل کی تعمیر ایک اتنے اونچے چبوترے پر کی گئی ہے کہ اگر جمنا میں کبھی شدید سیلاب بھی آئے جائے تب بھی تاج محل کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔تاج محل پر اب تک جو تحقیق کی گئی ہے اس میں سب محققین اس بات پر متفق ہیں کہ تاج محل کا حسن چودھویں رات کو پوری طرح کھل کر سامنے آتا ہے۔
شاہ جہاں نے تاج محل کے اوپربتیس من سونے کا ایک چاند لگوایا لیکن بعد میں بھرت پور کے جاٹ اسے لوٹ کر لے گئے، اب پیتل کے چاند پر سونے کا پانی ملمع کر کے لگایا گیا ہے۔تاج محل کی تعمیر17سال میں مکمل ہوئی۔ بیس ہزار مزدوروں نے مسلسل تعمیر کے کام میں حصہ لیا۔ تعمیر کا منتظم ایرانی نژاد ڈیزائنر اور فن تعمیر کا ماہر استاد یحییٰ تھا۔اس زمانے میں تاج محل کی تعمیر پر چار کروڑ گیارہ لاکھ اڑتالیس ہزار آٹھ سو چھبیس روپے سات آنے اور چھ پائی خرچ ہوئے۔
مقبرے کی چاروں دیواروں پر قرآن پاک کے پارے تحریر ہیں جن میں سورۃ یاسین اور سورۃ اخلاص نمایاں ہیں۔ مقبرے کے بڑے گنبد کو بنا نے میں بارہ سال لگے ، گنبد کی اونچائی تک تعمیراتی مواد پہنچانے کے لیے دو میل لمبا ڈھلوان دار راستہ بنا نا پڑا۔ اس گنبد کی تہہ میں زیر زمین ممتاز محل کو دفن کیا گیا۔ ممتاز محل ایرانی النسل تھی، اس کے والد خواجہ عبد الحسن المعروف آصف خان، جہانگیر بادشاہ کے وزیر اعظم تھے۔ آصف خان ملکہ نور جہاں (جہانگیر کی بیوی تھی جس کا مزار لاہور میں ہے)کا بھائی تھا۔ممتاز محل شاہ جہاں کی دوسری بیوی تھی لیکن اس نے اپنی دانائی، حسن اور حکمت کی بنا پر شاہ جہاں کو گھائل کر رکھا تھا۔
زائرین کے لیے مقبرے کے چبوترے پر ایک اور قبر بنائی گئی جہاں لوگوں کی آمد رفت جاری رہتی ہے۔ اس قبر پر تحریر ہے۔"المرقد منورا رجمند بانو بیگم مخاطب بہ ممتاز محل 630 " َ اسی کے ساتھ شاہ جہاں کی قبر ہے۔شاہ جہاں کی پہلی بیوی" سرہندی بیگم "بھی تاج محل کے مغربی دروازے کے گنبد کے نیچے دفن ہے۔ ساتھ ہی ممتاز محل کی کنیز خاص" ستی النساء" کو بھی مغربی دروازے کے قریب دفن کیا گیا ہے۔
مقبرے کے اندر ہلکی سے آواز بھی ایک ایسی گونج پیدا کرتی ہے جس سے یہاں موجود ہر شخص پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔اس گونج میں آواز کی تہہ در تہہ پانچ لہریں پیدا ہوتی ہیں جو منفرد ارتعاش پیدا کرتی ہیں۔تاج محل کی حدود میں ہزاروں سیاح ہمہ وقت نظر آتے ہیں جب کہ مقبرے کے اندر بھی ہم نے درجنوں افراد دیکھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ممتاز محل اور شاہ جہاں کے لیے فاتحہ خوانی نہیں کر رہا تھا بلکہ سبھی تفریح کے موڈ میں تھے۔
ممتاز محل اور شاہ جہاں کی قبر کے گرد سنگ مر مر کی جو جالی لگی ہوئی ہے، اس میں مختلف قیمتی پتھروں اور جواہر سے پھول بنائے گئے ہیں اور ایک پھول کی چونسٹھ پتیاں ہیں۔ابتداء میں شاہ جہاں نے ممتاز محل کی قبر کے گرد چالیس ہزار تولے سونے کی ایک ریلنگ بھی لگوائی لیکن بعد میں اسے اتار دیا گیا۔شاہ جہاں،تاج محل کے مقابل دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر سیاہ سنگ مر مر سے ایک اور تاج محل بھی بنوانا چاہتا تھا اور اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ ان دونوں کو ایک کازوے (دریائی راستہ) کے ذریعے ملایا جائے لیکن شاہ جہاں کے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کر کے نظر بند کر دیا۔
تاج محل کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اس کے فن تعمیر کو خراج تحسین پیش کرتے یہاں تک کہا ہے کہ "شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کر کے اپنی محبت کو پتھر میں زندہ کر دیا ہے"۔"تاج محل ایک ٹوٹے ہوئے دل کی کہانی ہے"۔ایک خاتون سیاح نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ "اگر کوئی میرے مرقد پر ایسا محل تعمیر کرنے کا وعدہ کرے تومیں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔
تاج محل کے بارے میں ایک شاعر نے کہا ۔
ایک شہنشاہ نے بنوا کر حسین تاج محل
ہم غریبوں کو محبت کی نشانی دی ہے
جب کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے:
ایک شہنشاہ نے بنوا کر حسین تاج محل
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق