بن پئے سرور
نشے کے بے شمار عادی افراد ہوں گے جنھیں قطعی ذوق شعری نہ ہوگا لیکن وہ دیکھادیکھی داد دینے والوں میں شامل ہوجاتے ہوں گے۔
ضرورتِ شعری کے تحت اردُو اور فارسی کے متعددشُعراء نے اپنے کلام میں جام و سبو اور شراب کا بہ امر مجبوری ذکر کر کے بہت سے شعرو سُخن کے دلدادہ اصحاب کو اس مغالطے میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کے پسندیدہ شاعر نے نشے میں دھت ذکر مے کیا ہے۔
نشے کے بے شمار عادی افراد ہوں گے جنھیں قطعی ذوق شعری نہ ہو گا لیکن وہ دیکھا دیکھی داد دینے والوں میں شامل ہو جاتے ہوں گے۔ یہ نقطہ خاص طور پر نوٹ کرنے کا ہے کہ ہمارے بیشتر معروف شعراء نے جن کا ذکر زیر ِ تحریر ہے ، ذکر ِ مے بطور علامت کیا ہے۔
شراب کے رسیا بعض شعراء کے برعکس معروف شاعر امیر مینائی کے چند شعر پڑھئے جنھوں نے شراب کی ایک بوند تک نہیں چکھی تھی، وہی نہیں امیر مینائی جیسے چند اور شعراء کا کلام بھی دل و نظر کی ضیافت کے لیے پیش خدمت ہے۔
بڑے مزے سے گزرتی ہے بے خودی میں امیرؔ
وہ دن خدا نہ دکھائے کہ ہوشیار ہوں میں
(امیرؔ مینائی)
پوچھئے میکشوں سے لطفِ شراب
یہ مزہ پاکباز کیا جانیں
(داغ دہلوی)
دُور سے آئے تھے ساقی، سن کے میخانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس ! پیمانے کو ہم
(نظیر اکبر آبادی)
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
(داغ دہلوی)
جہاں سرور میسر تھا جام و مے کے بغیر
وہ میکدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسمؔ)
مے چکاں لب، نظر آوارہ نگاہیں گستاخ
یوں مرے پہلو سے اٹھاہَے غزل خواں کوئی
(چراغ حسن حسرتؔ)
اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
اے مطرب بیباک کوئی اور بھی نغمہ
اے ساقیِ فیاض شراب اور زیادہ
(اسرار الحق مجاز)
وہ سامنے دھری ہَے صراحی بھری ہوئی
دونوں جہاں ہَیں آج مرے اختیار میں
(حفیظ جالندھری)
اِدھر شباب کا مس ہَے اُدھر شراب کا رس
قدم قدم پر قفس ہَے ندیم دیکھتے جائو
(احمد ندیم قاسمی)
یہ تو بجا کہ اب وہ کیف جام شراب میں نہیں
ساقئی مے کے غمزۂ ہوش رُبا کو کیا ہوا
(عبدالمجید سالک)
ہیں دَور جام اوّل شب میں خودی سے دور
ہوتی ہَے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں
حالیؔ نشاط ِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح، رہے رات بھر کہاں
(الطاف حسین حالی)
دل کی شگفتگی کے ساتھ راحت ِ میکدہ گئی
فرصتِ میکشی تو ہے، حسرت میکشی نہیں
(احسان دانش)
وا ہوا پھر در میخانئہ گل
پھر صبا لائی ہَے پیمانئہ گل
پھر کسی گل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سرِ میخانۂ گل
(ناصر کاظمی)
جل رہی ہَے دل میں شمع آرزو
خم کدے میں روشنی ہَے آج کل
(قتیل شفائی)
اے مطربِ بیباک کوئی اور بھی نغمہ
اے ساقیٔ فیاض شراب اور ذیادہ
اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن ِ عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
(اسرار الحق مجاز)