قومی سیکیورٹی
ملک کوباہرسے نہیں، اندرونی غلیظ نظام سے خطرہ ہے
اسلام آباد میں ہونے والا حالیہ نیشنل سیکیورٹی سیمینارکئی حوالوں سے اَزحداہم ہے۔ اس بیٹھک میں وزیراعظم سے لے کرآرمی چیف اور دیگردفاعی ماہرین موجودتھے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرجاویدباجوہ نے وہاں ایک پالیسی سازبیان دیا۔جس کالُب لباب تھاکہ ہمیں ماضی کی تلخیوں کوبھول کرآگے چلناچاہیے۔
میرا خیال ہے کہ ہمسایوں کے درمیان انتہائی مشکل تعلقات نے کئی ملکوں کوغربت اوربیروگاری کی دلدل میں دھنسادیاہے۔ ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مجھے اس پالیسی ساز بیان پرخوشی محسوس ہوئی ہے ۔ حقیقت تویہی ہے کہ ایساپالیسی ساز بیان صرف اورصرف ریاستی اداروں ہی کی طرف سے ہی آنا چاہیے۔
طالبعلم اورمیرے جیسے کئی لکھاری، اس بات کودہائیوں سے کہہ اورلکھ رہے ہیں۔ایک ایساملک جس میں ہمسایہ ممالک کوگالی دیکرہی آپ محب الوطن ثابت ہوسکتے ہیں، درست طرز سیاست نہیں ہے۔موجودہ حالات میں امن اور ملک کومحفوظ بنانے کی بات کرنااَزحداہم ہے۔ دلی مسرت یہ ہے کہ یہ الفاظ پاکستان کے انتہائی سنجیدہ اور اہم ترین ادارے کی طرف سے آئے ہیں۔
بین الاقوامی طاقتیں بشمول امریکا اور عوامی جمہوریہ چین پاکستان اورہندوستان کوباور کرا رہے ہیں کہ جنگ اورمسلسل محاذآرائی کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ مشورہ حددرجہ صائب بھی ہے۔اسی بیک گراؤنڈمیں کنٹرول لائن پر پاکستان اورہندوستان میں سیزفائر ہوا اورامن کی طرف پہلاقدم اُٹھایاگیا۔ بلاشبہ بہت دفعہ ایساہوچکاہے،مگراس وقت بین الاقوامی حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اوربدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کو نئی صف بندی کی ضرورت ہے۔گزشتہ تیس برس کی پالیسیاں تبدیل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
عوامی جمہوریہ چین اپنے قومی مفاد میں ہماری مدد کررہا ہے۔مگر وہ بھی فیصلہ کن معاملات کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔اس کی وجوہات متعدد ہیں۔چین اپنے تجارتی معاملات کوہرلحاظ سے فوقیت دیتا ہے۔ چین ہندوستان سے کبھی کھلی جنگ نہیں لڑے گا۔
سرحدی جھڑپوں کورہنے دیجیے۔دونوں ممالک تقریباًسوبلین ڈالرکی باہمی تجارت کررہے ہیں اوردونوں ممالک اتنے بیوقوف نہیں کہ جذباتیت میں آکراس اقتصادی لین دین کوختم کردیں۔ ویسے جذباتیت کی مچان پرتو پاکستان کو بٹھا دیا گیا ہے۔ہم اپنے گھریعنی ملک میں شیرنہیں ببرشیر ہیں۔مگربین الاقوامی طاقتیں ہمیں ایک اہم فقیرسے زیادہ کچھ نہیں سمجھتیں، جسے زندہ رہنے کے لیے ان کی مددکی ہردم ضرورت ہے۔تلخ بات نہیں کرناچاہتا۔مگراس جذباتیت اورشدت پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ہم اپنی حرکتوں کی وجہ سے پوری دنیامیں تحسین کی نظرسے نہیں دیکھے جاتے۔باقی سب باتیں ہی باتیں ہیں، نعرے ہی نعرے ہیں۔جن میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
کچھ معاملات ایسے بھی ہیں۔جنھیں ہمارے ملک کے میڈیا میں وہ اہمیت حاصل نہیں ہوئی جو اس کاحق تھا۔ سب اینکرز، تجزیہ کار اور کالم نویس سنیٹ الیکشن میں اپنی اپنی من پسند بات کرنا ہی صحافت سمجھتے ہیں۔کوئی یہ دیکھنے کوتیارنہیں کہ ہندوستان میں قومی نموکی2021کی شرح بارہ فیصدہوچکی ہے۔یہ شرح بین الاقوامی ادارے موڈی کی طرف سے آئی ہے۔ہم لوگ اس قدربے خبرہیں کہ طاقتورملکوں کے اتحادپربھی غورنہیں کر پائے۔Quad Allianceمیں امریکا، جاپان،آسٹریلیااورہندوستان شامل ہیں۔
اس اتحادمیں باہمی تجارت کوبڑھاوا،موسمی تبدیلی، عسکری معاملات میں تعاون،ہتھیاروں کی فراہمی اورٹیکنالوجی کاتبادلہ،یعنی سب کچھ شامل ہے۔کیا یہ ایک معمولی بات ہے۔صاحبان یہ حددرجہ اہم پیش رفت ہے۔اس اتحادمیں ہرعملی پہلوشامل ہے۔چین کو گھیرنا بھی اس کامقصود ہے۔ان چارممالک میں کوئی بھی ہماری پالیسیوں سے متفق نہیں ہے۔ ویسے تو ہم خود اپنے ملک کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ اگر ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوگئے تو پھرہندوستان ہمارے خطے میں بالادستی حاصل کرنے کی حیثیت میں آجائے گا۔
نئے امریکی صدرکے منتخب ہونے کے صرف ساٹھ دن میں امریکی وزیر دفاعی جنرل لائیڈ آسٹن تین روزہ دورے پرہندوستان آیاہوا ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی سے لے کرفنی مہارت کاتبادلہ امریکی انتظامیہ کا اولین ایجنڈاہے۔امریکا اور ہندوستان اب انڈوپیسفک ریجن میں تعاون کی بات کررہے ہیں۔ سمندرکے لازوال ذخائرکو تسخیرکرنے پر تعاون ہورہا ہے۔ ہندوستان کی معیشت اورعسکری قوت کوچین سے بہترکرنے کی بھرپورکوشش ہورہی ہے۔یہ سب کچھ دنیاکے لیے تو مضمرات رکھتاہے۔مگرہمارے لیے بھی اس معاملہ کوسمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
جس بھی سیاسی رہنمانے ہندوستان کے ساتھ امن کی بات کی ہے۔اسے نشانِ عبرت بنا دیاگیا۔اکیس دسمبر1988کو بھارتی وزیراعظم آنجہانی راجیوگاندھی،پاکستان کے سرکاری دورے پرآیا۔محترمہ بینظیربھٹواس وقت ہماری وزیراعظم تھیں۔یہ دورہNon Nuclear Attack Agreement کی بنیاد بنا۔جسے1991میں دونوں ہمسایہ ملکوں کی پارلیمنٹ نے سندِتوثیق عطا کی۔ادھرہماری چند مخصوص سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں نے سیکیورٹی رسک، غدار، ملک دشمن قرار دینا شروع کردیا۔مگرہندوستان سے امن کی پالیسی اس وقت بھی درست تھی اورآج بھی صائب ہے۔
جب وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس پرسوارہوکرلاہورآئے،توامن کوایک اورموقعہ ملا۔ ان کے اعزاز میں شاہی قلعہ لاہورمیں ایک پُروقارعزت دارتقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔تو اسی دن چند سیاسی عناصرنے ہنگامہ برپاکر ڈالا، اس کے باوجود دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کی سطح پرامن معاہدہ موثرقرارپایا۔نوازشریف کو اس''غلطی''کی سزادی گئی۔ ذاتی طورپر نواز شریف کی اکثرملکی پالیسیوں سے متفق نہیں۔لیکن ہمسایہ ممالک سے امن کی کوششیں ہمارے مصائب کوکم کرسکتی تھیں۔جنرل پرویزمشرف نے تاریخ کے سفرکواُلٹاچلانے کی کوشش کی۔مگروہ بھی ہندوستان سے بات چیت کرنے آگرہ گئے اورناکام واپس آئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندرمودی پاکستان کے متعلق حددرجہ منفی سوچ رکھتا ہے۔ مگر تلخی کوکم کرنابہرحال وقت کاتقاضا ہے۔
اکثراوقات عرض کی ہے کہ ملک اپنے اقتصادی قدکاٹھ کے حساب سے خارجہ پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ہم اقتصادی طورپردنیامیں کس ابترجگہ موجود ہیں، اس سچ کاعلم سب کو ہے۔ہم بات بات پرایٹمی طاقت ہونے پرنعرہ لگاتے ہیںجو درست بات ہے۔مگرکیاکبھی کسی نے کہاہے کہ اقتصادی طورپر قلاش مملکت کوبیرونی نہیں،اندرونی خطرات ہیں۔ ملک کوباہرسے نہیں،اندرونی غلیظ نظام سے خطرہ ہے۔ہمیں شدت پسندی سے جوڑکربھیانک فریم میں منقش کردیاگیاہے۔موجودہ حالات میںپوری دنیا اقتصادی بحالی اورترقی پرعمل پیراہے۔مگرہم آج بھی پائیدارامن سے کوسوں میل دور ہیں۔ صاحبان! امن ہماری سالمیت کی بنیادہے۔