حماقتیں روایتیں کہاوتیں
الطاف حسین نے اٹھارہ مارچ کو یوم تاسیس پر یہ تاثر دیا کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہوگئی ہے
تینتالیس سال سے مہاجروں کو ماموں بنانے والے الطاف حسین نے اٹھارہ مارچ کو اپنی جماعت کے یوم تاسیس پر عوام وکارکنوں سے عزیز آباد میں جمع ہونے کی اپیل کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہوگئی...گو کہ انسداد دہشت گردی کے محکمہ اور رینجرز حکام نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں اس سیٹنگ کی پول پٹی توکھول دی مگر بہت سارے لوگ اس ڈرامہ کا پس منظر جاننے کے لیے بیتاب ہیں۔ یہ تحریر اس پورے کھیل سے پردہ اٹھانے جارہی ہے مگر اس سے پہلے کہ آپ اس نئے ڈرامہ کا پس منظر جانیں، ہم آپ کو اس کی گزشتہ قسط دکھاتے ہیں۔
مہاجر، متحدہ، اٹھانوے فیصد کی حکمرانی، رئیل ازم و پریکٹیکل ازم ، کراچی صوبہ ، فوج کو سلیوٹ اور پاکستان زندہ باد/ مردہ باد جیسے درجنوں ڈرامے کرنے اور ان میں ناکام ہونے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال پہلے الطاف حسین نے سندھو دیش کا نیا چورن بیچنا شروع کردیا تھا۔ جس کے کچھ عرصہ بعد کچھ غیرمعروف نام نہاد سندھی قوم پرست اٹھائی گیروں نے الطاف حسین سے لندن میں ملاقات کرکے انھیں سندھو دیش کا سربراہ بنانے کا تماشہ بھی کرڈالا۔ تاج پہننے کے بے پناہ شوقین الطاف حسین نے اس مذاق کو سچ سمجھ کر مہاجر قومیت سے نہ صرف منحرف ہونے کا اعلان کردیا بلکہ مہاجروں کو تلیر مکڑ اور مٹروے جیسے غلیظ القابات سے تشبیہ بھی دے ڈالی۔
ڈیڑھ سال تک الطاف حسین کے چند بچے کچھے حواری تو سندھو دیش کی لال بتی کے پیچھے دوڑتے رہے جب کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سندھی قوم پرستوں نے شہری سندھ میں اپنے پنجے گاڑھ دیے۔ چند روز قبل الطاف حسین کو ان ہی جیسے ایک اور بیوڑے نے فون کرکے بتایا کہ اس کے ایک جاننے والے ہیں جو الطاف حسین کو فوج سے معافی دلوا سکتے ہیں۔ دوسروں کو ایجنسیوں کا ایجنٹ ہونے اور غداری کے سرٹیفیکیٹس بانٹنے والے الطاف حسین نے فوری حامی بھرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کو اپنی زبان سے بھی بوٹ پولش کرنے پڑے تو وہ تیار ہیں۔
کارگو کی عرفیت سے جانے جانے والا یہ بیوڑا بنیادی طور پر لیاقت آباد کا کارکن ہے اور اس کا نام وسیم ہے اور زندگی بھر تعلیم سے ہی دور رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اہل خانہ نے اس کی شادی ایک برطانوی نژاد پاکستانی لڑکی سے کروا دی جس کی وجہ سے برطانیہ میں آباد ہے۔ بیوی بیچاری کاروبار سے گھر چلاتی ہے اور یہ نشہ میں دھت ہوکر آدھی رات کو تلوار پکڑ کر الطاف حسین کے دشمنوں کو قتل کرنے کی دھمکیوں اورگالیوں سے بھرے وڈیو لاگز ریکارڈ کرتا ہے۔ حالیہ واقعات سے قبل الطاف حسین اس کو رات گئے فون بھی کرتے تھے اور دوران گفتگو دونوں مستقبل کے حالات پر فکر انگیز گفتگو بھی فرماتے تھے۔
جب وسیم عرف کارگو نے الطاف حسین کو اپنی کہانی سنائی تو الطاف حسین نے فوراً فوج کے نمایندہ سے گفتگو کی خواہش ظاہر کی جس پر وسیم عرف کارگو نے مولانا راشد نقشبندی نامی کسی نوسرباز سے بابائے قوم کی فون پر بات کروائی۔ مولانا راشد نقشبندی نے دعویٰ کیا کہ ان کا براہ راست وزیر داخلہ شیخ رشید اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے رابطہ ہے۔
انھوں نے الطاف حسین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیانات میں نرمی لائیں جو فوراً قبول کرلیا گیا حتیٰ کہ کارکنوں کو پروفیسر ظفر عارف کی شہادت کی تیسری برسی منانے سے بھی منع کردیا گیا' یہی نہیں راشد نقشبندی کو لندن بھی بلا لیا گیا اور یہ مشہور کردیا گیا کہ پاکستان سے ایک اہم شخصیت لندن ''بھائی'' سے ملاقات اور''پاکستانی اسٹیبلشمنٹ'' سے معاملات طے کرنے آئی ہوئی ہے جس کی بھائی، بے بھاؤکی مہمان نوازی کررہے ہیں۔
طارق جاوید عرف سنکی باؤلے نے اوورسیز یونٹس کے بچے کچھے کارکنوں کو خود فون کرکے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہماری معافی تلافی ہوگئی ہے، اس لیے سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ نہ ڈالی جائے خصوصاً پروفیسر ظفر عارف کے قتل کا اب کہیں تذکرہ بھی نہ کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو اس کے خلاف پوسٹیں ڈالنی شروع کردو۔ الطاف حسین نے مستقبل کے پارٹی رہنماؤں اور وزراء کی فہرستیں بنانے کی بھی ہدایت کردی، وسیم عرف کارگوکو اپنا بیٹا قرار دے دیا جب کہ لندن دفتر میں خیالی پلاؤ کی دیگیں تیز آنچ پر چڑھادی گئیں۔
مولانا نقشبندی نے فوج کے آگے سجدہ ریز ہونے کی الطاف حسین کی خواہش کی شدت دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر ان کو پچاس ہزار پاؤنڈز دے دیے جائیں تو وہ بھاگ دوڑکرکے الطاف حسین کو مہینوں کے بجائے دنوں میں دوبارہ شہری سندھ کا بادشاہ بنوا دیں گے۔ کارکنوں کے سامنے ہر وقت پیسوں کا رونا رونے اور ان سے روزانہ ایک ایک پاؤنڈکا تقاضہ کرنے والے الطاف حسین نے مولانا کو فوری طور پر پچاس ہزار پاؤنڈز بھی بھجوا دیے۔
پاؤنڈزکی برسات ہوتے ہی مولانا راشد نقشبندی غائب ہوگئے اور پتہ چلا کہ جس طرح الطاف حسین، مہاجروں کو چونا لگاتے رہے ہیں اسی طرح مولانا راشد نقشبندی نامی فراڈیے نے انھیں ''ماموں'' بنا دیا ہے۔ غریب وسیم عرف کارگوکو بابائے قوم نے فون کرکے مغلضات سنائیں اور نہ صرف اپنی ولایت سے محروم کردیا بلکہ اپنی جماعت سے بھی فارغ کردیا۔