23مارچ سے قبل جنرل قمر باجوہ کا اہم خطاب

جنرل قمر باجوہ کا خطاب عین اس وقت تھا جب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، تین روزہ بھارتی دورے پر اُترے تھے


Tanveer Qaisar Shahid March 22, 2021
[email protected]

کل 23مارچ کو حسبِ سابق پورے ملک میں ''یومِ پاکستان'' پورے تزک و احتشام کے ساتھ منایا جا رہا ہے ۔ مسلّح افواجِ پاکستان نے اس قابلِ فخر دن پر پاکستان ڈے پریڈ کی مکمل اور شاندار تیاری کررکھی ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں رہنے والوں نے '' پاکستان ڈے پریڈ '' کے حوالے سے افواجِ پاکستان کی ریہرسل اور تیاریوں کا نظارہ بھی کیا ہے۔

کل انشاء اللہ یہ تیاریاں عملی شکل میں قوم کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ اس ڈے پریڈ میں شرکت کے لیے ایک سرکاری دعوت نامہ راقم کو بھی موصول ہو چکا ہے ۔ پچھلے سال کووِڈ 19کی وجہ سے یومِ پاکستان کے حوالے سے اہم تقریبات کا انعقاد نہیں کیا جا سکا تھا۔ اِس بار بھی کووِڈ19 (کورونا) کی مہلک اور ہیبت ناک وبا کی لہر دوبارہ حملہ آور ہے لیکن سالِ گزشتہ کے مقابلے میں کورونا کی شدت میں کمی آ چکی ہے، اس لیے بھی اس افاقے سے مستفید ہو کر ذوق و شوق سے پاکستان ڈے پریڈ پھر منائی جا رہی ہے ۔

ممکن ہے پاکستان ڈے پریڈ کے موقعے پر کل بھی سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ خصوصی خطاب کرتے ہُوئے قوم و ملک کو نئے ولولوں اور اُمیدوں سے رُوشناس کریں ۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 23 مارچ2021سے تقریباً ایک ہفتہ قبل اسلام آباد میں منعقدہ ایک اہم تقریب سے جو اہم ترین خطاب کیا ہے ، اس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے ۔

18مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں ''نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ'' فورم سے جنرل قمر باجوہ کا خطاب ہی درحقیقت اس اہم سیکیورٹی تقریب کا جوہر تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ دُنیا کے ہر اہم دارالحکومت میں جنرل صاحب کے الفاظ پر غور کیا جارہا ہے۔ بھارت میں اس تقریر نے ہلچل مچا رکھی ہے ۔ پچھلے ڈھائی تین برسوں کے دوران بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی کی مسلم عناد پر مبنی اور پاکستان دشمن پالیسیوں نے خصوصی طور پر جنوبی ایشیا کے خطے کو منفی طور پر متاثر کررکھا ہے ۔

مودی جی نے ایک ہی وار سے متنازع اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کا جزو بنا لیا ہے ۔ بھارتی مسلمانوں کو زچ کرنے کے لیے نیا شہریتی قانون (CAA) متعارف کروایا گیا ہے۔ مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی شروعات کی جا چکی ہیں ۔

مودی نے اس مندر کی تعمیر کی اساسی تقریبات میں خود شمولیت اختیار کی۔ ایک خاص ہدف کے حصول اور پاکستان کا ناطقہ بند کرنے کی غرض سے مودی صاحب سارک ممالک کے دروازے دانستہ بند کر چکے ہیں۔ پاک ،بھارت بول چال بند ہے تو پاک، بھارت تجارتی راستے بھی بند ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات نہایت نچلی سطح پر آ چکے ہیں۔ بھارت منصوبہ بندی کے تحت دُنیا کو اپنے عمل سے بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ اُسے پاکستان سے دعا سلام رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھلا دو جوہری ہمسایہ ممالک یوں بھی زندگی بِتا سکتے ہیں؟

یہی وہ حساس اور تاریخی موقع تھا جب سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے تاریخ ساز لب کشائی کی ہے۔ اُن کا رُوئے سخن زیادہ تر بھارت کی طرف تھا۔ یہ پالیسی ساز بیان تھا۔ہم اُمید کر سکتے ہیں کہ جنرل صاحب کا بیان بوجوہ بند ہونے والے پاک بھارت دروازے کھولنے کا باعث بنے گا۔ اسلام آباد میں ''نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ'' سے مخاطب ہوتے ہُوئے انھوں نے کہا:'' ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی اُمنگوں کے مطابق حل ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔

بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی ذمے داری اب بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک کو خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ساز گار ماحول بنانا ہوگا۔''اگر ہم انگریزی میں موجود جنرل قمر باجوہ کے خطاب کا پورا متن ملاحظہ کریں تو ہمیں اُمیدوں کے کئی دروازے اور کھڑکیاں کھلتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ خطاب اپنی معنویت اور مقصدیت کے اعتبار سے تاریخی بھی ہے اور شاندار بھی۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہایت فہمیدگی سے خود شاخِ زیتون بھارت کی طرف بڑھائی ہے۔ پاکستان نے اپنی سپاہ کے سرخیل کے توسط سے بھارت کو امن اور محبت بھری ہمسائیگی کا سندیسہ دیا ہے ۔

ہمارے سپہ سالارِ پاکستان کا یہ خطاب اُن لمحات میں سامنے آیا ہے جب ابھی چند ہفتے پہلے (23فروری) بھارت نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو سری لنکا پہنچنے کے لیے اپنی ہوائی راہداری استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ عمران خان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر بھارتی وزیر اعظم نے وزیر اعظم پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے اور خان صاحب کی جلد صحتیابی کی دعا بھی کی ہے۔ یہ غیر معمولی پیغام ہے۔ تقریباًایک ماہ قبل (25فروری) پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز نے ایل او سی پر سیز فائر کے دستخط کرکے سرحد کے آر پار بسنے والوں کو امن کا تحفہ دیا ہے۔

گویا حالات ایک نئے منظر کے طلوع کی نوید سنا رہے ہیں ۔ ایسے میں جنرل قمر باجوہ کے تازہ ترین خطاب نے پاک، بھارت کشیدگی کم کرنے کی قابلِ تحسین کوشش کی ہے۔ جنرل صاحب کے بیان کی کئی گرہیں ابھی کھلنے والی ہیں اور کئی قابلِ تشریح بھی ہیں ۔مثال کے طور پر اُن کا یہ کہنا کہ ''یہ ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے '' اور یہ کہ ''بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں Conduciveماحول بنانا ہوگا۔'' سرحد کے آر پار اُمیدیں لگائی جارہی ہیں کہ کسی مناسب وقت اور کسی موزوں فورم پر ان اشاروں کی شرح بھی کر دی جائے گی ۔ ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنا ہے تو فریقین کو دلوں اور اشاروں کی گرہیں کھولنا ہوںگی۔

تازہ ترین پاک بھارت، پاک چین، بھارت چین اور بھارت امریکا تعلقات کو پیشِ نگاہ رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جنرل باجوہ کا یہ خطاب وقت کی اہم ضرورت بھی تھا اور برمحل بھی۔ جس وقت یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، ابھی تک بھارت کی طرف سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب کے حوالے سے کوئی باقاعدہ جواب نہیں آیا ہے۔ بس مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، امریندر سنگھ، کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایک سڑاند بھرا بیان ضرورآیا ہے مگر اسے پاکستان اور پاکستان کے عوام نے مسترد کر دیا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ جنرل باجوہ کے خطاب کے مندرجات پر انڈین اسٹیبلشمنٹ غورو فکر کررہی ہے ۔ ذمے دار بھارتیوں کو تفکر کرنے کی از حد ضرورت بھی ہے۔ ہم اگر 20مارچ 2021 کو ممتاز بھارتی دانشور ، نروپما سبرامینین، کا ایک بھارتی اخبار میں شایع ہونے والے مفصل آرٹیکل کا مطالعہ کریں تو صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی پالیسی ساز ادارے جنرل قمر باجوہ کے خطاب کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

جنرل صاحب کے بین السطور پیغام کو پڑھنے کی بھی کوشش ہو رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ کے اس خطاب نے عین اُس وقت سوچ و تفکر کی لہریں پیدا کی ہیں جب امریکی وزیر دفاع، لائیڈ آسٹن، تین روزہ بھارتی دَورے پر اُترے تھے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکی وزیر دفاع کے کانوں تک جنرل قمر باجوہ کے مدبرانہ الفاظ نہ پہنچے ہوں۔ لائیڈ آسٹن ابھی کل اتوار کی شام ہی فارغ ہو کر واپس واشنگٹن روانہ ہُوئے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔