کینیڈا کی ایک زوم محفل
ریب اپنی چپل سر پر رکھ کر چلتا ہے تاکہ وہ گھس نہ جائے اور ہمارا امیر ایک شہر سے دوسرے شہر اپنے طیارے میں سفرکرتا ہے۔
20 مارچ کوکمیٹی آف پروگریسو پاکستانی۔ کنڈینزکی طرف سے ایک زوم محفل ہوئی جس کے نیشنل کوآرڈینیٹر عمر لطیف اور فوزیہ تنویر تھیں۔ اس میں ہماری معروف شاعر اور ادیب نسیم سید کے علاوہ دوسری سرگرم خواتین بھی شامل تھیں۔یہ محفل عورتوں کی جدوجہد اور ان کے حالات کے بارے میں تھی۔
اس روز بات کا آغازکرتے ہوئے مجھے پون صدی پہلے کی ایک تصویر یاد آگئی۔ سامراجی حکومت کا زمانہ ہے۔ لاہورکی زنانہ جیل کے باہر بہت سے عورتیں جمع ہیں، جو اپنی ان ساتھیوں کی آزادی کا مطالبہ کررہی ہیں جنھیں چند دنوں پہلے سامراجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے کے جرم میں گرفتارکیا گیا تھا۔ یہ عورتیں اس خیال سے سرشار ہیں کہ نئے ملک میں انھیں آزادی سے جینے کا حق ملے گا۔
اسی تسلسل میں کئی دوسری تصویروں کے ساتھ بیگم عطیہ فیضی کی مسکراتی ہوئی تصویر بھی ہے۔ وہ ہندوستان کے بڑے دانشوروں اور شاعروں مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کی نظروں میں قابل احترام تھیں۔ ادب اور رقص و موسیقی کی سرپرست تھیں۔ مال دار تھیں اور ایک خوشحال بوہرہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ جناح صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی تو جناح صاحب نے ان سے کہا کہ مسلمانوں کا ایک نیا ملک وجود میں آرہا ہے ، وہ آئیں اور وہاں فنون لطیفہ کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔ عطیہ اپنی جائیداد ، جاگیر اور لق و دق کوٹھی چھوڑکرکراچی آئیں۔
یہاں انھوں نے اپنی گرہ سے فنون لطیفہ کی سرگرمیاں شروع کیں، جلد ہی انھیں اندازہ ہوا کہ اس ملک میں رقص وموسیقی کی کوئی گنجائش نہیں۔ جناح صاحب گزر چکے تھے۔ بنیاد پرستوں کی حکومت اور ریاست پرگرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ عطیہ کو بھلا کون پوچھتا، علامہ اقبال سے دوستی کے حوالے سے وہ ایک ناپسندیدہ عنصر تھیں۔ ان کے زیور اور دوسرا قیمتی سامان بک گیا۔ ناداری نے گھر دیکھ لیا۔ آخرکار عطیہ اوران کے مشہورومعروف شوہر فیضی رحمین ختم ہوئے۔ بوہرہ قبرستان میں عطیہ فیضی کے ساتھ ان کے خوابوں کی خاک بھی سوتی ہے۔ فیضی رحمین کے بنائے ہوئے فریسکو اور پینٹنگز دلی کے وائسریگل لاج اور لندن کے ایک آرٹ میوزیم میں آج بھی زندہ ہیں۔
اس وقت میرے سامنے سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹرکی وہ رپورٹ ہے جو ''ترقی، نابرابری اور غربت'' کے موضوع پر پاکستان کی ایک جھلک ہمیں دکھاتی ہے۔
اس صورتحال کے حوالے سے یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم مفلسی کی کیسی بھیانک دلدل میں اتر چکے ہیں یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ غربت کسی سماج پر اسی وقت حملہ کرتی ہے ، جب اس کے معاملات کی نگرانی کرنے والے ، اس پر حکمرانی کرنے والے اپنے لوگوں کے مسائل سے لاتعلق ہوچکے ہوں۔ ایک ایسی صورت حال میں کیا مرد ، کیا عورتیں اورکیا بچے سب ہی بے آسرا اور بے وسیلہ لوگ غربت کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیں لیکن اس مفلسی کی سب سے بڑی مار عورت سہتی ہے۔ اپنے بھوکے بچوں اور خاندان کا پیٹ بھرنا اسی کی ذمے داری ہوتی ہے۔
مفلسی کا جہنم اسے اور اس کی روح کو کس طرح جھلستا ہے ، اس کی ایک جھلک مجھے ایس پی ڈی سی کی رپورٹ میں نظر آئی۔ اس غربت نے جہاں متوسط طبقے کو نچلے طبقے کی طرف دھکیلنا شروع کردیا ہے، وہیں نچلا طبقہ مفلسی کی ڈھلان پر تیزی سے نیچے کی طرف پھسل رہا ہے۔ اس مفلسی کا سب سے بڑا شکار نچلے طبقے کی عورت ہوئی ہے۔ وہ ایک ایسی بھیانک آزمائش سے دوچارکردی گئی ہے جہاں اس کے دونوں ہاتھ خالی ہیں اور اس کے شانوں پر اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کی ذمے داری ہے۔
ذیل میں ان عورتوں کے کہے ہوئے جملے ہیں جو انھوں نے ایس پی ڈی سی کی ٹیم کے ان ارکان سے کہے جو اپنے سروے کے دوران ان عورتوں تک پہنچے تھے۔
ان عورتوں کا کہنا ہے:
''بچے اپنی محرومیوں سے شدید طور پر متاثر ہیں۔ وہ مجھ سے مسلسل شکایت کرتے ہیں کہ دوسرے بچوں کے باپ ان کے لیے پھل اور دوسری چیزیں لاتے ہیں، ہمارے باپ ایسی چیزیں کیوں نہیں لاتے۔ میں کسی نہ کسی طرح ان کی توجہ بٹا دیتی ہوں، لیکن راتوں میں چھپ چھپ کر روتی ہوں۔''
'' ہم کسی شے کو خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمیں نہ پیٹ بھرکرکھانے کے لیے ملتا ہے ، نہ تن ڈھانپ سکتے ہیں۔''
''میں میتوں کو غسل دیتی ہوں، یہ کام روز نہیں ملتا، جب بھی ملتا ہے تو مجھے 50 سے 100 روپے تک کی آمدنی ہوجاتی ہے۔''
'' تعلیم بہت مہنگی ہوچکی ہے۔ بچے کم عمر ہیں اور ہر دوسرے روز پنسلیں گم کردیتے ہیں۔ چیزیں گم کرنے پر میں اکثر ان کی پٹائی کرتی ہوں۔''
'' میں کیا کرسکتی ہوں؟ بعض اوقات میں اپنے بچوں کی پٹائی کرکے رونے لگتی ہوں۔''
1944 میں علی گڑھ کے ایک جلسے میں جناح صاحب نے مسلمان عورتوں سے کہا تھا کہ کوئی قوم بلندیوں پر نہیں پہنچ سکتی اگر اس کی عورتیں گھرکی چار دیواری میں قیدیوں کی طرح بند ہوں۔ اسی زمانے میں انھوں نے عورتوں سے کہا تھا کہ وہ نئے ملک میں مردوں کی ''کامریڈ'' ہوں گی۔
اس تقریر یا ایسی تقریروں کو سن کر لڑکیوں اور عورتوں نے کیسے خوبصورت خواب دیکھے ہوں گے۔ لیکن پاکستان جب بن گیا توکمزور طبقات ، نچلے اور متوسط طبقے کی عورتوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ تشدد کا شکار ہونیو الی بشیراں بی بی نے ایک سوال کے جواب میں بلک کرکہا کہ پاکستان صرف طاقتور مردوں کے لیے بنا تھا یہ ملک مجھ ایسی کمزور اور غریب عورتوں کے لیے نہیں بنا تھا ہم یہاں پیروں کی دھول ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ سماج میں ہمیں جو آزاد اور خود مختار عورتیں نظر آتی ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
ان دنوں ایک بار پھر حجاب کا ، نقاب کا اور عبایا کا شور اٹھا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی عورت سب سے زیادہ انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے۔ روزکے اخبار ہمیں اسکول اور کالج جانے والی لڑکیوں پر عائد ہونے والی نئی پابندیوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہم دورکیوں جائیں اسی سال کراچی اور بعض دوسرے شہروں میں 8 مارچ کو لڑکیوں اور عورتوں نے جلوس نکالا۔ یہ اپنے حقوق کی طلب گاری کا جلوس تھا۔ اس برس مذہبی انتہا پسندوں نے ان کی مخالفت میں ایک بڑا جلوس نکالا۔ عورتوں کو دھمکیاں دی گئیں ، انھیں گھروں میںبیٹھنے کی ہدایت کی گئی۔ ان کے پوسٹروں کی عبارت کو فوٹو شاپ کے ذریعے مبینہ طور پر تبدیل کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ عورتیں مخرب اخلاق نعرے لگاتی ہیں اور فحش گفتاری کرتی ہیں۔
آپ جوکینیڈا میں ہیں اور ہم سے ہزاروں میل دور ہیں۔ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ ہمارے یہاں لڑکیوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ اورجوش ولولہ کس طرح قدم قدم پر غارت کیا جاتا ہے۔ تشدد کا بازار گرم ہے اور عورت اس تشدد کا ترنوالہ ہے۔ ہماری لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں تعلیم و ترقی کے خواب۔ لیکن گھر سے بازار تک ، اسکول سے یونیورسٹی تک ان کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ مذہب کے نام پر ان کا جس طرح استحصال ہوتا ہے اسے کیا بیان کیا جائے۔ ان کی آنکھوں سے خواب نوچ لیے جاتے ہیں۔ ان کے محنت کرنے والے ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں اور بہتر زندگی کی طرف ان کے بڑھتے ہوئے پیر توڑ دیے جاتے ہیں۔
آج سے ستر اسی برس پہلے ان کی نانیوں، دادیوں اور ماؤں نے بھی آزادی کے ، ترقی کے خواب دیکھے تھے لیکن وہ سارے خواب روندے گئے۔ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ نئے ملک میں وہ مرد کی کامریڈ ہوں گی لیکن وہ تو کاری قرار پائیں۔ جناح صاحب نے ایک ایسا ملک بنایا تھا جہاں ان کی اپنی بہن بد ترین دھاندلی سے ہرا دی گئیں اور ان پر شرمناک الزام لگائے گئے۔ ہماری لڑکیاں ایک ایسے ملک میں سانس لیتی ہیں جہاں انھیں اپنی مرضی سے پڑھنے کی آزادی نہیں۔ جہاں بارہ برس کی لڑکی لاکھ دو لاکھ کے عوض ساٹھ برس کے بوڑھے سے بیاہ دی جاتی ہے۔ جہاں اس کی گواہی آدھی اور اس کی جان کی قیمت مرد کے مقابلے میں نصف ہے۔ وہاں کیسا جوش اور کیسا ولولہ۔
ہمارے یہاں طبقاتی تقسیم اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ غریب اپنی چپل سر پر رکھ کر چلتا ہے تاکہ وہ گھس نہ جائے اور ہمارا امیر ایک شہر سے دوسرے شہر اپنے طیارے میں سفرکرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام کا اور اسلامی مساوات کا، ریاست مدینہ کا نعرہ ہے۔ مذہبی رہنما دس لاکھ کی گھڑیاں کلائی پر باندھتے ہیں اور جن کے وہ آقا و مولا ہیں ان کی گرہ میں دس روپے نہیں ہوتے۔ عام مرد اور عورت کہاں جائے؟کس سے فریاد کرے ؟ غالب کا ایک شعر پڑھتی ہوں تو یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ شعر انھوں نے شاید ہماری عورت کے بارے میں ہی کہا تھا کہ
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے