پی ڈی ایم اختلافات حکومت مخالف احتجاجی تحریک آگے بڑھ سکے گی

کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے بغیر بھی لانگ مارچ ہو سکتا ہے اور تحریک چلائی جا سکتی ہے۔


Shahid Hameed March 24, 2021
کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے بغیر بھی لانگ مارچ ہو سکتا ہے اور تحریک چلائی جا سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان جمہوری تحریک26 مارچ کو حکومت کے خلاف میدان میں نکلنے کے لیے تیار تھی لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکارکے باعث صورت حال تبدیل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی صفوں پر چھائی مایوسی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ایک عرصہ سے دلوں میں چھپی نفرت بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہے جسے دبانے کے لیے کوششیں بھی جاری ہیں۔

گو کہ اس موقع پر یہ کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے بغیر بھی لانگ مارچ ہو سکتا ہے اور تحریک چلائی جا سکتی ہے لیکن یہ سب ہی جانتے ہیں کہ اگر اس تحریک سے پیپلزپارٹی باہر رہتی ہے تو صورت حال وہ نہیں ہوگی جوہونی چاہیے کیونکہ پیپلزپارٹی صرف یہ نہیں کہ ایک بڑی قوت ہے بلکہ اس کے پاس سندھ کی حکومت بھی ہے اور پھر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو جیسے قائدین بھی ہیں اس لیے اگر پیپلزپارٹی اس تحریک سے باہر ہو جاتی ہے تو پی ڈی ایم کی قوت میں ویسے ہی کمی ہو جانی ہے ۔

پی ڈی ایم کی تحریک کے کیا نتائج نکلنے تھے؟یہ اپنی جگہ ایک الگ سوال ہے لیکن اس سے ہٹ کر پیپلزپارٹی کے وقتی طور پر پی ڈی ایم سے کنارہ کش ہونے کے اثرات کا اندازہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز سمیت دیگر تمام قائدین کے چہروں پر پھیلی مایوسی اوراتارچڑھائو سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے 26 مارچ کو مریم نوازکی نیب پیشی کے موقع پر ان کے ہمراہ نیب آفس کے باہر پہنچنے کا اعلان کر دیا ہے۔

تاکہ مذکورہ تاریخ کا استعمال کیا جا سکے لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ بات پیپلزپارٹی تک اٹک گئی ہے اور اگر پیپلزپارٹی استعفوں اور لانگ مارچ کی راہ نہیں لیتی تو اس صورت میں پی ڈی ایم کی تحریک میں موجودہ دم خم باقی نہیں رہے گا نہ ہی وہ رنگ جمے گا جو اب تک نظر آرہا ہے اور پیپلزپارٹی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی طور سندھ حکومت کو دائو پر نہیں لگائے گی نہ ہی قومی اسمبلی سے استعفوں کی راہ اختیار کرے گی کیونکہ ایسا کرنا پیپلزپارٹی کی پالیسی کے خلاف ہوگا اور وہ ایسا کرتے ہوئے کسی بھی دوسری پارٹی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

سابق صدرآصف علی زرداری کی پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں کی جانے والی تقریر پر بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری ہے جس کے حوالے سے ان کی تعریف وتوصیف بھی کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی ان پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم ان کا یہ موقف کسی بھی طور غلط قرار نہیں دیا جا سکتا کہ تحریک چلانے کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ملک میں موجودگی ضروری ہے اور جہاں تک بات رہی ان کے جیل جانے کی تو اس میں تو کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی رہنمائوں کی زندگیوں میں جیلیں بھی آتی ہیں اور سختیاں بھی تاہم اگر وہ ان سختیوں اور جیلوں سے کنی کتراتے ہیں تو پھر ان پر تنقید بھی ہوگی اور دیگر جماعتیں یہ بھی کہیں گی کہ وہ اپنا کندھا کسی دوسرے کے لیے کیوں استعمال کریں ؟

یہ بات سابق صدر آصف علی زرداری کے پیش نظر ہوگی کہ وہ اپنی توانائیوں اور پارٹی جدوجہد کا فائدہ کسی اور کو کیوں پہنچائیں؟جس نے بھی فائدہ لینا ہے وہ خود ملک میں آکر جدوجہد کرے اور صورت حال یہ ہے کہ حالات کا رخ اپنے حق میں ہونے تک سابق وزیراعظم کی وطن واپس دکھائی نہیں دے رہی جسے دیکھتے ہوئے ہی پیپلزپارٹی بھی اپنی صف بندی کرے گی اور اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ پی ڈی کے معاملات شاید ہی پہلے سے رہیں ۔سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے سلسلے میں پیپلزپارٹی کے اجتماع اور اس موقع پرسنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس میں اس تمام تر صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی پالیسی وضع کی جائے گی اور ماہ رمضان شروع ہونے میں کم وقت رہ جانے کے باعث یہ بالکل واضح دکھائی دے رہا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف اب جو بھی کچھ کرے گی۔

وہ عید کے بعد ہی کر پائے گی کہ جب موسم گرما بھی باقاعدہ طور پر شروع ہو چکا ہوگا اور ساتھ ہی بجٹ بھی سر پر ہوگا اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس حکومت مخالفت کے لیے میدان میں نکلنے کے لیے جو مناسب وقت تھا وہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے اور اب پی ڈی ایم کو انتظار کرنا ہوگا کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دے رہا ، حکومتی صفوں کی صورت حال یہ ہے کہ وضاحتوں اور تردیدوں کے باوجود پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بڑی تبدیلیوں کی باتیں تاحال جاری ہیں حالانکہ کم ازکم خیبرپختونخوا کی حد تک ان میں صداقت دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ایسا ماحول ہے نہ ہی کوئی مسئلہ۔

یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت میگا پراجیکٹس پر فوکس کیے ہوئے ہے کیونکہ حکومت اپنے تیسرے سال میں ہے جو ماہ اگست کے وسط میں مکمل ہو جائے گا جس کے باعث حکومت کی کوشش ہے کہ چشمہ رائٹ بنک کنال، پشاور، ڈی آئی خان موٹر وے اورسوات موٹر وے فیز ٹو کے علاوہ دیر ایکسپریس وے سمیت دیگر منصوبوں کو سی پیک میں شامل کروا لیا جائے تا کہ بڑے منصوبوں پر کام شروع ہو جائے اور موجودہ حکومت کا دور ختم ہونے تک ان پر خاطر خواہ طریقے سے کام ہو چکا ہو جس کے ساتھ دوسری جانب آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی ایسے منصوبوں کو شامل کیا جائے گا جن کے ذریعے حکومت اگلے انتخابات میں فائدہ لے سکے۔

تاہم ا س موقع پر حکومت کی اپنی صورت حال یہ ہے کہ سابق سینئر وزیر عاطف خان کی واپسی کے باوجود وہ کابینہ میں شامل نہیں کیے گئے جس کے بارے میں شنید ہے کہ ان کے من پسند محکمہ کا قلمدان انھیں نہیں مل رہا اس لیے تاحال وہ ناراضگی ختم ہونے کے باوجود کابینہ میں واپس نہیں آسکے ۔ صوبائی حکومت کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر دوبارہ63 سال سے کم کرتے ہوئے60 سال کرنا ہے۔

یہ بڑا فیصلہ تھا جس کا صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے بڑا چرچا کیا گیاتھا ،معاملہ عدالتوں میں بھی گیا جہاں پشاور ہائی کورٹ نے 63 سال کے خلاف فیصلہ دیا جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس کے حق میں فیصلہ آیا لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت اپنے موقف سے پسپا ہوتے ہوئے ساٹھ سال کی طرف آگئی ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ خزانہ اور ایڈمنسٹریشن کی رائے کی روشنی میں یہ قدم اٹھایا گیا ہے جو اس حوالے سے قابل حیرت ہے کہ جب سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے بڑھاکر63 سال کی جا رہی تھی،کیا اس وقت ان دونوں محکموں سے رائے نہیں لی گئی تھی یا پھر ان کی جانب سے دی گئی رائے کو درخوء اعتنا نہیں سمجھا گیا؟ کیونکہ اتنے کم عرصے میں صوبائی حکومت کی جانب سے اپنے اتنے بڑے فیصلے سے پسپائی حیران کن ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر برقرارکیوں نہیں رہ پائی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں