انصار الاسلام شیخ الہندؒ کے مشن کی امین
انصار الاسلام کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں جس پر پابندی عائد کہ جاسکتی ہے۔
تبدیلی کا نعرہ محض ایک خواب تھا، جس کی بھیانک تعبیر مہنگائی کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔
گزشتہ اڑھائی برسوں کے دوران عوام کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا ایسا ماضی کے ستر برس میں بھی نہیں ہوا، ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے تبدیلی کے اس خاکے میں رنگ بھرنے کی منصوبہ بندی تو بڑی منظم تھی۔ ابھی تواس کے خدوخال بھی واضح نہیں ہوئے اور عوام بلبلا اٹھے، اگر پورے خاکے میں رنگ بھر جاتے تو کیا بنتا۔ اس تبدیلی کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے یا کوئی اپوزیشن ہے تو وہ صرف مولانا فضل الرحمان ہیں۔
2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ان کی بھی وہی رائے تھی جو نواز شریف، آصف زرداری، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی یا دوسرے سیاسی قائدین کی تھی، لیکن اس الیکشن اور اس کے نتیجے میں بننے والی سرکار کے بارے میں جو موقف مولانا فضل الرحمان نے اپنایا وہ آج بھی اسی پر قائم ہیں، باقی سیاسی قائدین اپوزیشن میں تو رہے لیکن ان کے پاؤں سے سرکتی ریت نے انھیں استقامت کے ساتھ کھڑے نہ ہونے دیا، یہی وجہ ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے بیزار قوم مولانا کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں اور ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔
مولانا نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے 26مارچ کو لانگ مارچ کی کال دی اور پی ڈی ایم کی 9جماعتوں نے مارچ سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حق میں فیصلہ دیا لیکن پیپلز پارٹی نے استعفے دینے سے انکار کرکے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا پیپلز پارٹی قابل اعتماد نہیں،آج بھی اس بات پر قائم ہیں۔ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ہماری بات کو سچ ثابت کردکھایا، مسلم لیگ (ن) میں بھی خرابیاں ضرور ہیں لیکن وہ ساری کالی نہیں ہے۔
26مارچ کا لانگ مارچ آصف زرداری کے سر چڑھ چکا ہے، اس کے التوا سے حکومت کی جان میں جان آتی نظر آرہی ہے، اس کے ترجمانوں کی زبانیں ایک بار پھر اودھم مچا رہی ہیں اور ان کی توپوں کا رخ صرف جمعیت علماء اسلام اور مولانا فضل الرحمان کی جانب ہے۔
پیر کو پریس بریفنگ کے دوران ایک وزیر نے مولانا کو مخاطب کرکے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 11،12کا ترجمہ پڑھ کر سنایا،''اور جب اْنہیں کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار بے شک وہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھتے''۔ کاش سورۃ بقرہ کی اس سے پہلی آیات کا ترجمہ بھی پڑھ لیا جاتا کہ کہیں آج ہمارے حکمران تو ان کا مخاطب نہیں؟
یہ بات اٹل اور روز روشن کہ طرح عیاں ہے کہ اس وقت اپوزیشن صرف مولانا اور ان کی جماعت ہے اس لیے ٹارگٹ بھی مولانا اور ان کی جماعت ہی ہیں، جب بھی مولانا کی اپوزیشن میں تیزی آتی ہے حکمران جماعت کی صفوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے، 26مارچ کو لانگ مارچ تو نہیں ہوا لیکن مریم نواز کی نیب پیشی کے دوران لانگ مارچ جیسا منظر متوقع ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان نے بھی پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو مریم نواز کے ساتھ نیب آفس جانے کی کال دے دی ہے۔
اسی لیے حکمران بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، ترجمان مولانا کے بارے بیان بازی کر رہے ہیں، پنجاب کی بزدار سرکار بھی حرکت میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے جمعیت علماء اسلام کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی عائد کرنے کا سوچ رہی ہے اور محکمہ داخلہ پنجاب نے سمری کابینہ کمیٹی کو ارسال بھی کردی ہے۔ 18 جنوری کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے پی ڈی ایم کے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کے موقع پر کہا تھا کہ احتجاج میں انصارالاسلام کے طلبہ اور مدرسوں کے بچے لائے گئے تو قانون حرکت میں آئے گا۔
پاکستان میں تنظیموں یا جماعتوں پر پابندی دہشت گردانہ یا مشکوک سرگرمیوں کی بنیاد پر عائد کی جاتی ہے لیکن انصار الاسلام ایسی کسی سرگرمی میں ملوث ہے نہ اس پر ایسی سرگرمیوں کا کوئی الزام ہے۔ بغیر ثبوت سفید لباس پر داغ لگانا عقل مندی نہیں ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے رضاکاروں کی روح رواں تنظیم انصار الاسلام رفاہی بنیادوں پر اپنے نظم کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی صفوں کو منظم کر نے والی ایک تنظیم ہے، جس کا نظم ونسق جمعیت علماء اسلام کے جلسے، جلوس، اجتماعات اور مظاہروں کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، یہ تنظیم اپنی قیادت کے تحفظ کے لیے موجودہ حالات کے تناظر میں ایسی ترتیب اور منصوبہ بندی کرتی ہے کہ قائدینِ جمعیت بحفاظت اپنی جدوجہد کو بہترطور پر جاری رکھ سکیں۔
جمعیت علماء اسلام نے ویسے تواپنے تمام اداروں کو شعبہ جات سے تعبیر کیا ہے تاہم انصار الاسلام کو تنظیم سے تعبیر کیا ہے۔ اور مرکزی سالارانجینئر عبدالرزاق عابد لاکھو جو مولانا فضل الرحمان کے انتہائی بااعتماد ساتھی ہیں کو بطور ناظم کے سربراہ یہ اختیار مرکزی مجلس شوریٰ کی منظوری سے دیا ہے کہ رضاکاروں کو منظم کرنے کے لیے تربیت کا نظام ترتیب دے سکتا ہے۔ رضاکاروں کے مذکورہ نظم کے لیے مرکزی سالار، صوبائی سالار، ضلعی سالار، تحصیل سالار اور مقامی سالار کاعہدہ متعلقہ مجلس عاملہ میں باقاعدہ مقرر کیا گیا ہے۔یہ عہدیدار اور ان کے کارکنان عام لوگ نہیں ہوتے بلکہ شیوخ الحدیث، بڑے بڑے جید علماء فضلاء،آئمہ و خطباء ہوتے ہیں، جو علوم نبوت کی روشنی میں تربیت یافتہ ہوتے ہیں اخلاص و کردار کے پیکر ہوتے ہیں۔
یہ تنظیم تقسیم ہند کے بعد جمعیت علماء اسلام پاکستان کو ورثے میں ملی دارلعلوم دیوبند میں ثمر الترتیب کا قیام دراصل طلبہ کے اجتماعی تکرار اور سیاسی ذوق کی تربیت کا یہ پہلا قدم تھا اس کا دوسرا مرحلہ جمعیت الانصار کی تنظیم تھی۔ 1910 ء میں حضرت شیخ الہندؒ نے اس کی بنیاد دہلی میں رکھی اور مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی کو امیر اور عبید اللہ سندھیؒ کو ناظم جب کہ مولانا ابو احمدؒ آف چکوال کو نائب ناظم مقرر کیا۔ یہ ایک بہت بڑا سیاسی قدم تھا جس کو مرکز دارلعلوم سے باہر لے جانا پڑا بعد میں جمعیت الانصار نے نظارۃ العارف القرآنیہ کی شکل اختیار کر لی تھی۔
بظاہر یہ ایک دینی مدرسہ لیکن اس کے قیام کا مقصد، اس کا نصاب اور نصب العین وہی تھا جو پہلے دیوبند کے احاطے میں تھا اب دہلی کی مسجد فتح پوری کے حجرے میں ایک سیاسی اور انقلابی تربیت گاہ کا مرکز بن گیا۔ جب انگریز کا تسلط برصغیر پر ہوا تو حضرت شیخ الہندؒ نے دہلی کی دہلیز پر سامراجی قوتوں کے مقابلے میں جمعیت الانصار کی بنیاد رکھی، نوجوانوں کی اس تنظیم نے انگریز سے جم کر مقابلہ کیا، حالات کی نزاکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور مولانا ابو الکلام آزادؒ نے اپنے شیخ کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے نوجوانوں کے اس نظم کو مختلف ناموں پر قائم رکھا بالآخر انگریز وطن عزیز سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔
جمعیت علماء معرض وجود میں آئی تو حضرت شیخ الہندؒ کی اس تنظیم کو اپنے نظم کا حصہ بنایا اور دستور میں رضاکاروں کے اس نظم کو جمعیت کی روح قرار دیا جب کہ نظام اسلام کو بروئے کار لانے کے لیے انصار الاسلام کی تنظیم کو لازمی تصور کیا گیا، ابتدائی دور میں ملیشیا میں ملبوس رضاکار اپنی ذمے داری نبھاتے رہے، پھر دستوری ترمیم کی وجہ سے وہی رضاکار سفید رنگ کی وردی میں کام کرتے تھے جب کہ موجودہ وردی کا رنگ خاکی ہے۔ ویسے تو اس نظم کا جو بھی مرکزی سالار بنا ہے اس نے اپنی بساط کے مطابق ذمے داری سر انجام دی ہے۔
سیاسی و دینی ہی نہیں انصار الاسلام انسانیت کی خدمت میں بھی پیش پیش رہی، 2001 سے 2010 تک وطن عزیز پاکستان سیلاب کی زد میں رہا تو مرکزی سالار نے اپنے ہزاروں رضاکاروں کے ساتھ دریائے سندھ کے بندوں کی حفاظت اور متاثرہ لوگوں کی امداد کے لیے کشتیوں میں سوار ہوکر اپنی ذمے داری بھر پور جانفشانی سے ادا کی۔ مولانا پر جب بھی دہشت گردوں نے خودکش حملے کیے تو رضاکاروں نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے محبوب قائد کی حفاظت کی اور اس میں ہرنائی بلوچستان کے سالار شاہ محمد شہید نے کوئٹہ میں جام شہادت نوش فرمائی۔
انصار الاسلام کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں جس پر پابندی عائد کہ جاسکتی ہے یہ حضرت شیخ الہند کے مشن کی امین تنظیم ہے جو محض رضائے الٰہی اور خدمت خلق کے لیے سرگرم عمل ہے، شیخ الہندؒ کے زمانے سے آج تک اس تنظیم پر معمولی لڑائی جھگڑے کا الزام بھی نہیں، کراچی سے اسلام آباد تک ہونے والا لانگ مارچ اور طویل ترین دھرنا اس بات کی روشن دلیل ہے جس کا انتظام و انصرام انصار الاسلام کے ذمہ تھا اور پورے مارچ اور دھرنا کے دوران کسی جگہ گملا گرا نہ پتا ٹوٹا۔ ایسی تنظیمیں ملکوں کا سرمایہ ہوتی ہیں، ہر جماعت کی ایسی ذیلی تنظیمیں موجود ہیں، پی ٹی آئی ہو، مسلم لیگ (ن) ہو یا کوئی بھی سیاسی جماعت، سب کے ذیلی ونگز موجود ہیں لیکن کسی سیاسی جماعت کا ذیلی ونگ انصار الاسلام جیسا نہیں۔
قارئین!
پیر کے روز جمعیت علماء اسلام خیبرپختونخوا کے سالار اعلیٰ شیخ الحدیث مولانا عزیز احمد اشرفی ٹریفک حادثے میں شہید ہوگئے، ان کی المناک شہادت نے دل دہلا کے رکھ دیا۔ مولانا عزیز احمد اشرفی جید عالم دین اور جمیعت کا اثاثہ تھے، انھوں نے تاعمر اسی پلیٹ فارم سے نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کی اور پرچم نبویﷺ تھامے رکھا ان کی المناک شہادت ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ کریم ان کی کامل بخشش فرمائے انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین