اظہار کی جرأت رندانہ
ریاستی جبر نے ہمیشہ عوام کے حقِ اظہارکو دبانے یا کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
فکری اور جمہوری آزادی کو آمرانہ طرز عمل سے بچانے اور شہری آزادیوں کا علم بلند رکھنے میں اہل صحافت دنیا بھر میں ایک مقدم فریضے کے طور پر تمام تر نا مساعد حالات میں اپنے فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ریاستوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں آمرانہ جبرکے سائے شہری و جمہوری آزادیوں پر ابتدا سے ہی منڈلاتے رہے ۔
ریاستی جبر نے ہمیشہ عوام کے حقِ اظہارکو دبانے یا کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر اسی کے ساتھ ریاستی غیرجمہوری جبر اور پابندیوں کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرنے والی صحافی برادری بنی ، جس نے سماج کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جنگ کو ہر سطح پر جاری رکھا۔
عوام کو حق جمہوریت دلوانے میں جہاں صحافیوں نے معاشی تنگ دستی کا سامنا کیا وہیں ملک کے صحافیوں نے شہری آزادی اور اظہارکی آزادی کے حصول میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں تو دوسری جانب اظہار کی آزادی کے لیے آمر ضیا کی بد ترین آمریت کے کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ برتا ، میرے لیے اسلام آباد کے ہوٹل میں کچھا کچھ بھرے ہال میں ضیا آمریت کے پنجوں سے اظہار کی آزادی کو آزاد کروانے کے لیے کوڑے سہنے والے اقبال جعفری اور ناصر زیدی کی استقامت اور مکمل توانائی کے ساتھ بلند ارادوں کی شخصیات کی موجودگی نہ صرف حوصلہ افزا تھی بلکہ نئی نسل کے لیے افتخار بھی تھی۔
مجھے تو جہاں روسٹرم سنبھالے اعلان کرنے والوں کے ہائبرڈ جمہوریت کی چاپلوسی کے رویے اور الفاظ زخم رسیدہ کررہے تھے وہیں صحافتی تحریک کی روح کو سمجھنے والے اسلام آباد کے صحافی طلعت حسین کا احتجاج ایک توانا عمل لگ رہا تھا۔
طلعت حسین کا ہائبرڈ جمہوریت کے چاپلوس وزیر کی شرکت پر یہ احتجاج دراصل اس بنیادی نکتے کی تکمیل لگی کہ جس میں منہاج برنا اور ساتھیوں نے عزم کیا تھا کہ صحافی کو حکومتی راہ و رسم سے پرہیزکیا جائے کہ حکومتیں ہی عوام کے معاشی استحصال اور اظہارکی آزادی کو پابند کرنے کا اصل سبب ہوتی ہیں اور کم از کم اس حالت میں اہل صحافت کی حکومتی اہلکار کی داد رسی صحافی یا تنظیم کا کام ہرگز نہیں۔
طلعت حسین کے رویے پر مختلف رائے ہو سکتی ہے مگر میرے نزدیک طلعت حسین کا صحافیوں کے معاشی قتل کی ذمے دار حکومتی وزیر کی موجودگی میں احتجاج ایک بر وقت اور حکومتی مدح سراؤں کے لیے ایک جرات مندانہ قدم تھا ،کم و بیش یہی عمل خاموشی سے عاصمہ شیرازی نے کیا کہ جب اسٹیج کے ذمے داران فراہم کردہ فہرست کے بر عکس اپنے مربیوں کی ہدایات کے تحت صرف من پسند افراد کو ہی بے ترتیبی اور بغیر منصب جانے اسٹیج دے رہے تھے۔
اس دوران کتابی ٹیم کے سربراہ کو ہی بلانے پر اکتفا کیا گیا۔جہاں تک کتاب کی مشترکہ ٹیم ورک کا تعلق ہے اس سے شرکا کو آگاہ کرنے کی ذمے داری بھی باقاعدہ ادا نہیں کی گئی جو کتاب کے مدیران سمیت تمام ٹیم اراکین کے لیے تکلیف دہ تھا ، بھلا ہو ہیومن رائٹس کے سیکریٹری حارث خلیق کا کہ انھوں نے کتاب کے مدیران کا نام لے کر کتاب کی تکمیل کی مبارکباد سے اپنی گفتگو شروع کی وگرنہ تو کتاب کے حوالے سے مدیران کا تعارف کروانے کے فرائض ادا کرنے والے شاید اسے بھول اور غلطی کا غلاف پہنا دیں ، اپنوں سے شکایت کرنا میرا ، نظام صدیقی ٹیم ممبران ڈاکٹر توصیف ، اشرف خان اور فہیم صدیقی کا استحقاق ہے جو ریکارڈ کی درستگی کے لیے ضروری جانا گیا ۔
وہ تو بھلا ہو صحافتی حقوق کی خاطر ناتواں پیٹھ پرکوڑے کھانے والے پی ایف یو جے کے سیکریٹری ناصر زیدی کا کہ وہ حکومتی وزرا کی موجودگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جرات اور استقامت کی گھن گرج میں ایوانوں میں بیٹھنے اور جمہوری ریاست کو ''ہائبرڈ '' کرنے والوں کو مخاطب ہوئے اور کہا کہ جبرکی ریاست کے ذمے داران نہ بھولیں کہ وہ ہمارے صحافیوں کو معاشی مشکلات میں ڈال کر ان کے گھر کے چولہے ٹھنڈے کردیں گے۔ ناصر زیدی کہہ رہے تھے کہ آج کے حکومتی وزرا یہ بھی نہ سمجھیں کہ پاکستان کے صحافی یتیم اور بے سہارا ہیں۔
انھوں نے باورکرایا کہ جب تک منہاج برنا اور تمام صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے زندہ ہے ہم ہر ہر سطح پر اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی معاشی آزادی کی جنگ کرتے رہیں گے،چیں بہ چیں ہوتے وزرا کو ناصر زیدی نے یاد دلایا کہ موجودہ حکومت ہی اصل میں صحافیوں کے معاشی قتل کی ذمے دار ہے اور بار بارکی یقین دہانیوں سے صحافیوں کے معاشی قتل کا ہنوز تدارک نہیں کرسکی ہے۔
انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ وزیر صاحب''Enough is Enough'' اب بہت کچھ سر سے گذر گیا ، ہمارے معاشی تنگ دست اور بیروزگار ہوتے صحافی حکومت کی مزید طفل تسلیوں میں نہیں آئیں گے، انھوں نے حکومت کی عدم توجہگی پر ایک بینر تلے ملک بھر میں صحافی جدوجہد کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تحریک پہلے مرحلے میں کوئٹہ سے شروع کی جائے گی جو ملک بھر سے ہوتی ہوئی پارلیمان ہاؤس تک آئے گی،اس موقع پر ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی ، پیپلز پارٹی کے رضا ربانی ، ہیومن رائٹس کے حارث خلیق اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین نے صحافتی تحریک کی حمایت کا یقین دلایا جب کہ فواد چوہدری نے کہا کہ ہم صحافیوں کی یہ تحریک ان سے مذاکرات کی صورت میں ضرور رکوانے کی کوشش کریں گے کہ ہم صحافیوں کی طاقت کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتے۔
اس ماحول میں ہماری شام اور راتوں کو پر مغزکرنے والے آصف بشیر چوہدری ، مطیع اللہ جان ، عامر غوری ،حمزہ فاروق اور قربان ستی کی محبتیں بھی شہرِ اقتدارکی خوبصورت یادیں تھیں جن کے سحر سے کمبخت آصف چوہدری کی شائستگی اور رات بھیگتے پہرکی چائے نکلنے ہی نہیں دے رہے۔