کورونا وائرس کا پیچھا کرتے سراغ رساں

دنیا تلپٹ کر دینے والے موذی کی نئی اقسام دریافت کر کے یہ ماہرین ِسائنس بنی نوع انسان کو محفوظ بنا رہے ہیں۔


دنیا تلپٹ کر دینے والے موذی کی نئی اقسام دریافت کر کے یہ ماہرین ِسائنس بنی نوع انسان کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

پچپن سالہ پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا کو جب نومبر 2020ء میں ایک پریشان کن خبر ملی تو ان کے کان کھڑے ہو گئے۔

چھٹی حس نے بتایا کہ معاملہ خاصا گھمبیر ہے۔وہ فوراًحرکت میں آ گئے۔ان کے ذہن میں جو خیال آیا تھا،اگر وہ درست نکلتا تو اس کی خبر دنیا والوں کو دینا ضروری تھی تاکہ وہ ہوشیار ہو جائیں۔ٹولیو ایک سراغ رساں تھے...مگر وہ انسانی مجرموں نہیں ننھے منے وائرسوں میں جنم لیتی تبدیلیوں کا کھوج لگاتے ہیں تاکہ روپ بدلتے ان موذیوں کے شر سے بنی نوع انسان کو محفوظ رکھ سکیں۔دنیا میں ایسے انوکھے سراغ رساں کم ہی ملتے ہیں۔

جینوم کی داستان
جاندار چھوٹا ہو یا بڑا،وہ کروڑوں اربوں خلیوں کا مجموعہ ہے۔یہ خلیے مل جل کر ہی جاندار کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے روزمرہ کام کر سکے۔ہر خلیہ ایک خصوصی سالمہ یعنی مالیکیول''ڈی این اے''(Deoxyribonucleic acid)رکھتا ہے۔اس سالمے میں وہ تمام کیمیائی ہدایات محفوظ ہوتی ہیں جن کی مدد سے جاندار پلتا بڑھتا ،نشوونما پاتا ،صحت مند رہتا اور کام کاج کرتا ہے۔جاندار میں ہر خلیہ ایک مکمل ڈی این اے رکھتا ہے۔ اس کو ''جینوم''(Genome)بھی کہتے ہیں۔بعض چھوٹے جانداروں میں ایک دوسرے سالمے'' آراین اے''(Ribonucleic acid)میں کیمیائی ہدایات محفوظ ہوتی ہیں۔ان میں کئی وائرس بھی شامل ہیں۔ڈی این اے یا آر این اے چار نیوکلوٹائیڈ( nucleotide) بنیادیں رکھتے ہیں۔ان بنیادوں کی ترتیب ہی بتاتی ہے کہ کیمیائی ہدایات پر کس طرح عمل درآمد ہو گا۔

ایک جاندار اپنی جسامت کے لحاظ سے کم یا زیادہ خلیے رکھتا ہے۔مگر ڈی این اے (یا آر این اے)میں موجود چار بنیادوں کی ترتیب کی تعداد کا سائز سے کوئی تعلق نہیں۔یہی وجہ ہے ،تحقیق سے دریافت ہو چکا کہ دنیا کا سب سے بڑا ڈی این اے یا جینوم آسٹریلوی پھیپھڑا مچھلی(Australian lungfish)کا ہے۔وہ ''43 ارب''بنیادی جوڑے (Base pairs)رکھتا ہے۔انسان کا جینوم'' 3ارب''بنیادی جوڑے رکھتا ہے۔انھیں عرف عام میں ''حروف'' (Letters) بھی کہتے ہیں۔

جب کسی جاندار کا بچہ جنم لے،توماں باپ کے ڈی این اے کا کچھ حصّہ بچے میں منتقل ہو جاتا ہے۔اسی لیے صورت شکل اور عادات میں بھی بچے والدین سے ملتے جلتے ہیں۔وائرس مگر ایسا نرالا جاندار ہے جو دوسرے جانداروں کے جسم میں داخل ہو کر ان کے خلیوں کے جینیاتی موادکی مدد سے اپنے بچے پیدا کرتا ہے۔چناں چہ اس کے بچے وائرس اور خلیے،دونوں کے ڈی این اے یا آر این اے کے حصّے رکھتے ہیں۔اگر موزوں ماحول مل جائے تو یہ بچے بھی اپنی اولاد پیدا کرنے لگتے ہیں۔ وائرس موذی ہے تو وہ اسی عمل سے لاکھوں کروڑوں بچے پیدا کر کے جاندار کے جسم پر قبضہ کر کے اسے بیمار کر ڈالتا ہے۔ بیماری کا علاج نہ ہو تو آخرکار وائرس کی اولاد جاندار کو موت کے منہ میں پہنچا دیتی ہے۔

تغیر، ترتیب کاری اور منحرف
جب ماں باپ کا جینیاتی مادہ یعنی ڈی این اے یا آراین اے بچوں میں منتقل ہو تو اس عمل کے دوران قدرتی طور پر بچے میں پیدا شدہ جینیاتی مادے میں کچھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔یہ عموماً بنیادی جوڑوں میں پائے جانے والے جین (Gene) یا پروٹینی مادوں میں جنم لیتی ہیں۔ سائنسی اصطلاح میں یہ تبدیلیاں ''تغیر'' (Mutation) کہلاتی ہیں۔اکثر اوقات یہ تغیر جینیاتی مادے میں خاص تبدیلی نہیں لاتے۔مگر کبھی کبھی یہ خصوصاً وائرس یا جرثومے کو زیادہ خطرناک بنا ڈالتے ہیں۔اسی لیے ماہرین ان کا مطالعہ اور تحقیق کرتے ہیں۔

ایک وائرس یا جرثومے کے جینوم میں جنم لیتے تغیرات کو ایک سائنسی عمل ''ترتیب کاری''(Sequencing)سے دریافت کیا جاتا ہے۔اس عمل میں وائرس یا جرثومے کے جینوم کے ہر حرف یا بنیادی جوڑے کو پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔پھر جینوم کی تمام معلومات محفوظ کر لی جاتی ہیں۔کچھ عرصے بعد شک پڑنے پر کسی وائرس یا جرثومے کے جینوم کی دوبارہ ترتیب کاری ہوتی ہے۔پھر نئے نتائج کو پچھلی ترتیب کاری کے نتیجے سے ملایا جاتا ہے۔موازنے سے اگر نئے جینوم میں کوئی خاص اور نمایاں تبدیلی یا تغیر دریافت ہو تو پتا چلتا ہے کہ پرانے وائرس کی نئی قسم سامنے آ چکی۔اس نئی قسم کو سائنسی زبان میں ''منحرف''(Variant)کہا جاتا ہے۔یہ منحرف اگر اپنی مخصوص خصوصیات پیدا کر لے تو پھر وہ اسٹرین(Strain) کہلانے لگتی ہے۔

دنیا بھر میں بعض ماہرِوائرس اور جرثومیات ننھے منے جانداروں میں جنم لیتے تغیرات پر تحقیق کرتے ہیں۔یہ اس کام میں طاق ہوتے اور بڑی مہارت سے اپنی ذمے داریاں انجام دیتے ہیں۔گویا یہ کرہ ارض پہ آباد غیرمرئی جانداروں کی نہ دکھائی دینے والی دنیا کے سراغ رساں ہوئے۔بظاہر یہ معمولی سا کام لگتا ہے مگر نیا کورونا وائرس''سارس کوو 2'' (SARS-CoV-2)سامنے آنے کے بعد یہ سراغ رساں ایک طرح سے بنی نوع انسان کے محافظ بن چکے۔وہ اپنے کام اور کھوج کے ذریعے اربوں انسانوں کو نئے کورونا وائرس کے حملوں سے تحفظ دے رہے ہیں۔انہی میں پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

جب وائرس دریافت ہوا
سارس کوو 2 کو پہلے پہل چینی شہر،ووہان کے سرکاری اسپتال میں کام کرتے ایک نوجوان ڈاکٹر،لی ون لیانگ نے دسمبر 2019 ء کے آخر میں دریافت کیا۔انھوں نے پھر دیگر معالجین کو خبردار کر دیا کہ ایک نیا کورونا وائرس عوام میں وبا پھیلا چکا۔چینی حکومت نے مگر انھیں تنبیہہ کی کہ وہ عام لوگوں میں وبا کی بات کر کے خوف کی لہر پیدا نہ کریں۔بدقسمتی سے پانچ ہفتے بعد وہ بھی وبا کا نشانہ بن کر چل بسے۔سارس کوو 2 سے نبرد آزما بہادر ڈاکٹروں میں وہ پہلے مقتول تھے۔

اس جنگ میں دوسرا اہم کردار چین ہی کے ایک اور طبی ماہر،ڈاکٹر زینگ یونگ زن نے ادا کیا۔وہ ممتاز ماہر وائرس(وائرلوجسٹ) ہیں۔ان کی لیبارٹری شنگھائی میں واقع سرکاری اسپتال،پبلک ہیلتھ کلینکل سینٹر کا حصہ ہے۔3جنوری 2020ء کو انھیں سارس کوو 2 کا ایک نمونہ موصول ہوا ۔لیبارٹری میں محقق اس کی ترتیب کاری کرنے کا اہتمام کرنے لگے۔5جنوری کو انکشاف ہوا کہ وائرس کورونا وائرسوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ڈاکٹر زینگ نے ترتیب کاری کا سارا ڈیٹا ایک عالمی ادارے، نیشنل سینٹر فار بائیوٹکنالوجی انفارمیشن (National Center for Biotechnology Information)میں اپ لوڈ کر دیا۔دنیا بھر کے ماہرین مختلف جانداروں کے جینوم کی ترتیب کاری انجام دیں تو وہ اپنا ڈیٹا اس ادارے کو ضرور بھجواتے ہیں۔یہ ادارہ امریکی حکومت نے 1988ء میں قائم کیا تھا۔مقصد یہ تھا کہ جانداروں کے جینوم کی ترتیب کاری محفوظ رکھنے والا ایک عالمی ادارہ یا بینک بنایا جا سکے۔اس طرح دنیا بھر کے محقق اس میں محفوظ ڈیٹا سے اپنی نئی تحقیق میں مدد لے سکتے تھے۔

ایک دانشمندانہ اقدام
جب ڈاکٹر زینگ کی لیبارٹری میں سارس کوو 2 کی ترتیب کاری جاری تھی تو حکومت چین نے مقامی لیبارٹریوں پر یہ پابندی لگا دی کہ نئے کورونا وائرس سے متعلق کوئی ڈیٹا بیرون ممالک نہ بھجوایا جائے۔وجہ یہ نہیں تھی کہ چینی گورنمنٹ معلومات کے تبادلے پہ پابندی چاہتی تھی۔وجہ یہ کہ 2003ء میں چین کے ایک ممتاز ماہر وائرس،پروفیسر تایو سنگ نے غلطی سے یہ مشہور کر دیا تھا کہ اس زمانے میں پھیلی وبا(2002-2004 SARS outbreak) نے ایک جرثومے سے جنم لیا ہے۔حالانکہ اس وبا کا ذمے دار ایک اور کورونا وائرس، سارس کوو 1 تھا۔چناں چہ حکومت چین اب چاہتی تھی کہ بیرون ممالک ڈیٹا شئیر کرنے سے قبل اطمینان کر لیا جائے کہ نئی وبا کا خالق کون سا وائرس یا جرثومہ ہے۔

آسٹریلیا کا ماہر وائرس،ایڈوریڈ ہومز ڈاکٹر زینگ کا قریبی دوست تھا۔دونوں نے مل کر مختلف وائرسوں کی ترتیب کاری انجام دی تھی۔انھوں نے اسے سارس کوو 2 کی ترتیب کاری کے بارے میں بتا دیا۔ایڈورڈ تب اپنے دوست پر زور دینے لگا کہ وہ ترتیب کاری کا ڈیٹا افادہ عام کی خاطر مشتہرکر دیں۔ڈاکٹر زینگ شروع میں ہچکچا گئے۔انھیں چینی حکومت کی پابندی کا خیال آیا۔مگر انھیں اپنے تجربے پہ کامل یقین تھا۔اسی لیے انھوں نے دس جنوری کو سارس کوو 2 کے جینوم کی ترتیب کاری کا ڈیٹاجاری کر دیا۔یہ ایک دلیرانہ اور دانشمندانہ اقدام ثابت ہوا۔

چین سے ہزاروں میل دور جرمنی میں ایک مسلمان جوڑے نے بھی سارس کوو 2 کے جینوم کا بغور مطالعہ کیا۔ترک والدین کی اولاد ،ڈاکٹر میاں بیوی اوغور شاہین اور اوزلم تورجی ایک طبی کمپنی،بائیونٹیک چلا رہے تھے۔انھیں محسوس ہو گیا کہ یہ دنیا بھر میں وبا پھیلانے کی طاقت رکھنے والا ایک خطرناک وائرس ہے ۔لہذا وہ فی الفور اس کا توڑ یعنی ویکسین بنانے پر جت گئے۔انھیں اس ضمن میں امریکی کمپنی،فائزر سے سرمایہ بھی موصول ہوا۔ویکسین عام طور پر بننے میں کئی سال لگ جاتے ہیں ۔مگر مسلم جوڑے نے برق رفتاری سے کام کیا اور نومبر 2020ء میں اپنی ویکسین انسانیت کو بچانے کے لیے پیش کر دی۔اس وقت انہی کی ویکسین سب سے بہترین مانی جاتی ہے۔بقیہ طبی اداروں کی بنائی ویکسینوں میں کوئی نہ کوئی ضمنی اثر(سائیڈ ایفکٹ)سامنے آ چکا۔

جدید ترین ٹکنالوجی
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2003ء میں وبا کے ذمے دار سارس کوو1 کے جینوم کی ترتیب کاری مکمل کرنے میں کئی ماہ لگ گئے تھے۔خوش قسمتی سے پچھلے سترہ برس میں ترتیب کاری کی جدید ترین ٹکنالوجی ایجاد ہو چکی۔اسی کی مدد سے ڈاکٹر زینگ کی لیبارٹری میں ماہرین نے سارس کوو 2 کی ترتیب کاری صرف دو دن میں مکمل کر لی۔یہی نہیں،اس کے بعد دنیا بھر کی لیبارٹریوں میں نئے کورونا وائرس کے جینوم کی ترتیب کاری کا سلسلہ چل پڑا۔ایک اندازے کے مطابق اب تک وائرس کے جینوم کی ''آٹھ لاکھ ''بار ترتیب کاری انجام پا چکی۔

سارس کوو 2 کی سبھی ترتیب کاریوں کا سارا ڈیٹا نیشنل سینٹر فار بائیوٹکنالوجی انفارمیشن میں محفوظ ہے۔نیز جتنی بھی نئی ترتیب سازی ہو گی،اس کا ڈیٹا بھی ادارے میں جمع ہو گا۔اسی عظیم معلومات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سارس کوو 2 کے پیچھے پڑے پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا جیسے سراغ رساں اس میں جنم لیتے تغیرات یا تبدیلیوں کا کھوج لگاتے ہیں۔

جنوبی افریقا کا کھوجی
پروفیسر ٹولیو کا آبائی وطن برازیل ہے۔1988ء میں وہ جنوبی افریقا چلے آئے اور وہیں یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم پائی۔تب سے اسی افریقن مملکت میں مقیم ہیں۔مقامی تہذیب وثقافت میں رچ بس چکے۔مقامی بولیاں بھی روانی سے بولتے ہیں۔پچھلے کئی برس سے یونیورسٹی آف کاوا زولو ۔نتال میں قائم ادارے، کے زیڈ این (KZN Research Innovation and Sequencing Platform)کے سربراہ ہیں۔ادارے سے منسلک ماہرین بذریعہ ترتیب کاری وائرسوں اور جراثیم میں جنم لیتے تغیرات کا کھوج لگاتے اور پھر انھیں دنیا بھر میں مشتہر کرتے ہیں تاکہ معالجین ان کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر لیں۔پروفیسر ٹولیو کا شمار ان گنے چنے ماہرین میں ہوتا ہے جو وائرسوں کی ترتیب کاری کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔وہ قبل ازیں ڈینگی،زرد بخار، ایبولا اور دیگر وائرسوں کی ترتیب کاری کر کے مختلف تغیرات اور منحرف دریافت کر چکے۔

جب جنوری2020ء میں چینی ڈاکٹر زینگ نے سارس کوو 2 کے جینوم کا ڈیٹا اپ لوڈ کیا تو پروفیسر ٹولیو اس نئے موذی سے آگاہ ہوئے۔انھوں نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ وہ اس کی وقتاً فوقتاً ترتیب کاری کرتے رہیں گے تاکہ سارس کوو 2 کے تغیرات اور منحرفات کا علم ہوتا رہے۔ان کے ادارے نے وسط 2020ء میں جنوبی افریقا پہنچنے والے وائرس کے جینوم کی ترتیب کاری کی اور یوں مقامی ڈیٹا جمع کرنے کا آغازکر دیا۔وہ پھر ہر ہفتے سارس کوو2 کے مختلف نمونوں کی ترتیب کاری کرتے رہے۔

پہلے منحرف کی دریافت
نومبر 2020ء میں انھیں اطلاع ملی کہ مشرقی جنوبی افریقا کے ساحلی علاقوں میں اچانک سارس کوو2 سے پھیلی وبا، کوویڈ 19 تیزی سے پھیلنی لگی ہے۔راتوں رات کئی مریض علاقائی اسپتالوں میں پہنچ گئے اور وہاں طبی سہولتوں کے بحران نے سر اٹھا لیا۔یہ بڑی خطرناک صورت حال تھی۔پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا نے فی الفور متاثرہ علاقوں کے پچاس اسپتالوں اور کلینکوں سے سارس کووسارس کوو2 کے نمونے منگوائے اور ان کے جینوم کی ترتیب کاری انجام دی۔انکشاف ہوا کہ سبھی نمونوں کا جینیاتی مادہ مماثلت رکھتا ہے۔یہ ایک انہونی بات تھی کیونکہ جتنے زیادہ نمونے ہوں،ان میں جینیاتی فرق اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔

پروفیسر ٹولیو کی زیرقیادت پھر ماہرین نے ان نمونوں کی ترتیب کاری کے نتائج کا پچھلے سات ماہ کی ترتیب کاریوں کے ڈیٹا سے موازنہ کیا۔اسی موازنے سے انکشاف ہوا کہ جنوبی افریقا میں سارس کوو2 کا ایک منحرف جنم لے چکا۔یہ سارس کوو 2 کا پہلا نمایاں منحرف تھا۔ اس میں اولیّں سارس کوو 2 کے مقابلے میں کئی تغیر موجود تھے۔ان میں سب سے اہم تغیر کو ''N501Y''کا سائنسی نام ملا۔

اِس تغیر نے سارس کوو2 کے بیرونی حصے میں موجود اُس پروٹینی مادے میں جنم لیا جو وائرس کو انسانی خلیوں سے چمٹا دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس تغیر کی خاصیت یہ تھی کہ اس نے پروٹینی مادے کو انسانی خلیے سے چمٹ جانے کا عمل پہلے سے زیادہ آسان بنا ڈالا۔یہ تبدیلی وائرس کی بقا کے لیے تو خوش خبری مگر انسانیت کی خاطر بری خبر تھی۔کیونکہ اب سارس کوو 2 کا یہ منحرف اپنے والدین سے بھی زیادہ آسانی کے ساتھ انسانوں کو نشانہ بنا سکتا تھا۔اور یہی وجہ ہے،مشرقی جنوبی افریقا میں دفعتہً کئی مردوزن اس نئے منحرف کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔



فوری اقدام
پروفیسر ٹولیو نے فوراً جنوبی افریقن حکومت سے رابطہ کر کے بتایا کہ مشرقی علاقوں میں سارس کوو 2 کا نیا منحرف پیدا ہو چکا۔پروفیسر صاحب کی تجویز پہ فوراً ان علاقوں میں سخت لاک ڈائون لگا دیا گیا جہاں منحرف موجود تھا۔مدعا یہ تھا کہ وہ علاقوں سے باہر پھیلنے نہ پائے۔اس فوری اقدام کا عمدہ نتیجہ نکلا اور سارس کوو2 کا نیا منحرف پورے جنوبی افریقا میں نہیں پھیل سکا۔

یوں پروفیسر ٹولیو نے اپنے تجربے،ذہانت،حکمت اور فوری عمل کرنے کی صلاحیت بروئے کار لاتے ہوئے سارس کوو2 کے ایک خطرناک منحرف کو شتر بے مہار بننے نہیں دیا۔اگر وہ عملی قدم اٹھانے میں دیر کر دیتے تو یہ قوی امکان تھا کہ نیا منحرف پورے ملک میں پھیل کر ہزارہا مردوزن کو مریض بنا ڈالتا۔پروفیسر ٹولیو نے اپنی حاضر دماغی اور فوری قدم اٹھانے کی خوبی کے سبب جنوبی افریقا میں ہزاروں ہم وطنوں کی قیمتی زندگیاں بچا لیں۔اسی سبب آج وہ منڈیلا کے دیس میں ایک ہیرو کا درجہ پا چکے۔عام لوگ انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے اور سراہتے ہیں۔سچ ہے،جو لوگ دوسرے انسانوں کے کام آئیں،انہی کو عزت و احترام ملتا ہے۔

برطانوی بھی سامنے آ گیا
پروفیسر ٹولیو نے اسی پہ بس نہیں کیا بلکہ انسان دوست سائنس داں کا کردار ادا کرتے ہوئے وہ بیرون ممالک سارس کوو2 کے منحرفات کا تعاقب کرتے ماہرین کو بھی خبردار کرنے لگے۔برطانیہ میں بھی ان کی طرح ایک سراغ رساں،پروفیسر اینڈریو ریمبوٹ سارس کوو 2 کے منحرفات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔وہ نئے وائرسوں کے ارتقا پر تحقیق کرنے میں سپیشلائزیشن کر چکے۔یونیورسٹی آف ایڈن برگ سے وابستہ ہیں۔پروفیسر ٹولیو کے پرانے واقف کار ہیں۔چناں چہ انھوں نے برطانوی ساتھی کو بھی اپنی تحقیق کا ڈیٹا بھجوا دیا۔اب برطانیہ میں پروفیسر اینڈریو سارس کوو 2 کے جینوم کی ہوئی ترتیب کاریوں کا ڈیٹا کنگھالنے لگے۔وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ سارس کوو 2 کے کسی نمونے میں خصوصاً تغیر N501Y تو نمودار نہیں ہو چکا۔

جلد ہی ایک نمونے میں یہی تغیر سامنے آ گیا۔یہ نمونہ کینٹ کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔اور اس علاقے میں کوویڈ 19سے متاثرہ مریض کی تعداد اچانک بڑھ گئی تھی۔اب پروفیسر اینڈریو بھی چوکنا ہو گئے۔انھوں نے کینٹ سے سارس کوو 2 کے مذید نمونے منگوائے اور ان کی ترتیب کاری انجام دی۔اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ برطانیہ میں بھی سارس کوو2 کا ایک منحرف جنم لے چکا۔جنوبی افریقن اور برطانوی،دونوں منحرفوں میں تغیر N501Y موجود تھا۔مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ دونوں ملکوں میں آزادانہ طور پر پیدا ہوئے۔

پروفیسر اینڈریو کی کھوج کا نتیجہ سامنے آیا تو حکومت برطانیہ نے نئے منحرف کی موجودگی کا اعلان کرتے ہوئے کینٹ اور ملحقہ علاقوں میں سخت لاک ڈائون نافذ کر دیا۔یہ اعلان ہوتے ہی دنیا میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ برطانیہ عالمی معاشیات اور سیاحت کا بڑا مرکز ہے۔پاکستان سمیت اکثر ملکوں نے برطانیہ سے آنے والے مسافروں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔اور جو برطانوی مسافر ملک میںموجود تھے،انھیں قرنطینہ بھجوا دیا۔اس طرح پروفیسر ٹولیوکی مساعی جمیلہ سے برطانیہ میں بھی نیا خطرناک منحرف پھیل کر زیادہ جانی نقصان نہیں کر سکا۔

پاکستان میں وبا کا نیا دور
قارئین کرام، ہم نے 14فروری کے ایکسپریس سنڈے میگزین میں طبع شدہ مضمون''کورونا وائرس زیادہ خطرناک ہو رہا ہے''کے ذریعے اہل پاکستان کو خبردار کر دیا تھا کہ انسانیت پر حملہ آور سارس کوو2زیادہ موذی بن چکا۔وجہ یہی کہ وائرس ارتقائی مراحل سے گذر کر اپنے منحرف بنانے لگا تھا جو زیادہ موذی ہیں۔آخرکار ماہ فروری ہی میں برطانوی منحرف پاکستان میں بھی پھیل گیا۔اس نے مذید پاکستانیوں کو مریض بنا کر کوویڈ 19کا نیا دور پیدا کر ڈالا۔ورنہ پہلے خیال تھا کہ وبا دم توڑ رہی ہے۔اہل وطن نے وبا سے بچنے کی تدابیر بھی ترک کر دیں۔اس کوتاہی نے مگر وبا دوبارہ پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ واضح رہے کہ وائرس اور جراثیم بہت چھوٹے ہونے کے سبب چھوٹا ڈی این اے یا آر این اے رکھتے ہیں۔سارس کوو 2 آر این اے جینیاتی مادہ رکھنے والا وائرس ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ''تیس ہزار''بنیادی جوڑے یا حروف رکھتا ہے۔اسی لیے اس کے جینوم کی ترتیب کاری نسبتاً جلد انجام پاتی ہے۔مگر انسان سمیت تمام بڑے جانداروں کے جینوم کی ترتیب کاری طویل اور مہنگا عمل ہے۔اس محنت طلب کام پر کافی خرچہ آتا ہے۔مثلاً آسٹریلوی پھیپھڑا مچھلی کا جینوم پڑھنے میں سپر کمپیوٹر جیسی طاقتور مشین کو سو گھنٹے لگے اور اس کام پہ ایک کروڑ روپے خرچ ہوئے۔

ایک نیا ریکارڈ
سارس کوو 2 نے اس شعبے میں مگر ایک ریکارڈ قائم کر دیا۔انسانی تاریخ میں وہ پہلا وائرس ہے جس کے جینوم کی آٹھ لاکھ سے زائد ترتیب کاریاں انجام پا چکیں۔گویا اس پہلے کبھی کسی غیرمرئی موذی کی اتنے وسیع پیمانے پر سراغ رسانی نہیں ہوئی تھی۔ماہرین نے سارس کوو 2 میں تغیرات اور انحرافات کی کھوج کے انوکھے عمل کو ''جینومی نگرانی''(Genomic surveillance)کا نام دیا ہے۔

ظاہر ہے،بنی نوع انسان کی بقا اور حفاظت کے لیے یہ جینومی نگرانی بہت اہم ہے۔وجہ یہی کہ اسی کی مدد سے ماہرین جان پاتے ہیں کہ نیا وائرس یا جرثومہ تغیرات سے گذر کر کیسے خطرناک رنگ ڈھنگ اختیار کر رہا ہے۔لہذا اس کی ماہیت و ہیت سمجھ کر نئے منحرفوں کا مقابلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔اگر ماہرین انسان پہ حملہ آور موذیوں کے جینوم کی ترتیب کاری نہ کریں تو ہم کبھی نہیں جان پائیں گے کہ کون سا نیا منحرف زیادہ مہلک بن چکا۔

سرگرم عمل منحرف
ماہرین کی رو سے فی الوقت دنیا بھر میں سارس کوو2 کے ''دس منحرف''سرگرم عمل ہیں۔ان میں سے پانچ اس لیے زیادہ خطرناک ہیں کہ وہ مروجہ ویکسینوں کا اثر بھی کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان میں جنوبی افریقن،برطانوی،دو برازیلی اور نیویارک منحرف شامل ہیں۔ان سبھی منحرفوں میں سارس کو2 کے پروٹینی مادے میں تغیر جنم لے چکے۔ان تغیرات کے سبب اب یہ منحرف انسانی جسم میں داخل ہو کر زیادہ آسانی سے خصوصاً پھیپڑوں کے خلیوں سے چمٹ جاتے ہیں۔

برطانوی منحرف،جس کا سائنسی نام B.1.1.7 ہے،اس وقت سب سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ انسانی خلیوں کو بہت تیزی سے اپنا نشانہ بناتا ہے۔اس باعث مریض راتوں رات،بہت جلد بیمار ہر کر قبر کنارے جا پہنچتا ہے۔خیال ہے کہ یہ منحرف یورپی ممالک اور امریکا میں بہت پھیل چکا۔

جنوبی افریقن منحرف کا سائنسی نام 501Y.V2 ہے۔لیبارٹریوں میں تجربات سے عیاں ہوا ہے کہ برطانوی ویکسین، آکسفورڈ آسٹرا زینکا اس منحرف کے خلاف موثر نہیںبلکہ لینے والے کے جسم میں ضمنی اثرات پیدا کر سکتی ہے۔اسی لیے یہ ویکسین متنازع قرار پائی۔یہی نہیں،جرمن وامریکی کمپنیوں کی بنائی ویکسینیں بھی اس منحرف کے خلاف زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئیں۔

جنوبی افریقن منحرف کی خاصیت یہ ہے کہ اب تک جو انسان سارس کوو2 کا نشانہ بن کر صحت یاب ہو چکے،وہ انھیں دوبارہ بیمار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی لیے یہ منحرف کافی مہلک ہے۔ ماہرین کے مطابق جنوبی افریقن منحرف اپنے ''باپ'' کے مقابلے میں ''125 فیصد''زیادہ آسانی سے انسانی خلیوں سے چمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی لیے وہ بڑا خطرناک ہے۔خوش قسمتی سے اس منحرف کو دنیا بھر کی حکومتیں پھیلنے سے روکنے میں کامیاب رہی ہیں۔خدانخواستہ یہ دنیا میں پھیل جاتا تو برطانوی منحرف سے بھی زیادہ قیامت ڈھا دیتا۔

ویکسینوں کی صورت حال
تازہ اعدادوشمار کی رو سے کوویڈ 19پہ قابو پانے کے لیے مختلف اقسام کی بارہ ویکسینیں بنائی جا چکیں۔ان میں سے چار چین،چار امریکا ،دو روس ،ایک جرمنی، ایک برطانیہ اور ایک بھارت میں تیار ہوئی۔امریکا نے تین ویکسینیں جرمنی،سویڈن اور بیلجیم کے ماہرین کی مدد سے بنائیں۔برطانیہ نے بھی سویڈن کے ماہرین سے اشتراک کیا۔دسبر 2020ء تک ان ویکسینوں کی دس ارب خوراکیںتیار ہو چکی تھیں۔ان میں سے آدھی ترقی یافتہ ممالک نے دولت کے بل بوتے پر خرید لیں حالانکہ وہ دنیا کی صرف 14فیصد آبادی رکھتے ہیں۔گویا مغربی ملکوں نے اس نازک مرحلے پر بھی اپنے مفادات کو مقدم رکھا اور انصاف ،مساوات و اخلاقیات پیروں تلے روند ڈالیں۔

مذید براں متفرق ممالک میں کویڈ 19کی''308''ویکسینیں تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ان میں سے''73''پر لیبارٹریوں میں تحقیق جاری ہے۔ ''24'' تجربات کے پہلے مرحلے سے گذر رہی ہیں۔''37''دوسرے اور ''16''تیسرے مرحلے میں ہیں۔تیسرے مرحلے میں موجود سبھی ویکسینیں 95فیصد حد تک کوویڈ19کے خلاف موثر ثابت ہوئی ہیں۔

بہترین طریق عمل
ماہرین طب مگر یہ نہیں جانتے کہ ویکسینیں سارس کوو2کے منحرفات کا کس حد تک مقابلہ کر پائیں گی۔انھیں بہرحال یہ یقین ہے کہ جس انسان کو ویکسین لگ گئی،وہ موت کے منہ میں نہیں جائے گا۔البتہ وہ کوویڈ 19کی علامات مثلاً بخار اور سانس لینے میں دشواری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

گویا کوویڈ 19سے بچائو کا بہترین طریق عمل اب بھی یہی ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔عوامی مقامات میں ماسک پہنا جائے۔عوامی مقامات میں موجود اشیا کو خواہ مخواہ ہاتھ نہ لگائیں۔لوگوں سے فاصلہ رکھیں۔دن میں بار بار ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ہاتھوں کو منہ،آنکھوں،کانوں سے حتی الوسع دور رکھیں۔ان طریقوں سے سارس کوو 2 کو دور رکھنا ممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں