سو سیاسی پارٹیاں اور ایک سو ایکویں پارٹی
پاکستانی قوم سو سیاسی پارٹیوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اسی لیے ننانوے کے پھیر میں پڑی ہوئی ہے۔۔۔
لو ہم تو بھول ہی چلے تھے۔ خبر پڑھی اور پڑھ کر تھوڑا چونکے اور پھر ساری بات ہی ذہن سے اتر گئی۔ خبر یہ تھی کہ جناب عبدالقدیر خاں نے جو پارٹی قائم کی تھی اسے اب ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر ہمیں اپنی بے خبری پر رونا آیا کہ عبدالقدیر خاں نے پارٹی قائم کی۔ پھَلی پھُولی۔ پھر اس کا خاتمہ بالخیر ہو گیا۔ اور ہمیں اس سارے عرصے میں اس کے وجود کا پتہ ہی نہ چلا۔ اب پتہ چلا ہے تو اس طرح کہ وجود و عدم دونوں کا بیک وقت پتہ چلا۔ مگر مسعود مفتی نے جو پارٹی قائم کی تھی اس کے سلسلہ میں معاملہ الٹا ہوا۔ اس کے قیام کا تو ہمیں خوب پتہ تھا۔ بس اس کے انجام سے ہم بے خبر رہے۔ قیام کا تو ہمیں پتہ چلنا ہی تھا۔ مسعود مفتی نے روز اول سے اپنا پارٹی لٹریچر معہ خبر نامے کے ہمیں بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ اس سے ہماری سیاسی معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔
اصل میں مسعود مفتی نے شروع ہی میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا شمار کر کے یہ بتا دیا تھا کہ اس وقت ملک میں سو پارٹیاں ہیں لیکن کر کیا رہی ہیں، ان کی ساری توجہ الیکشن پر ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے یہ پارٹیاں سرگرم عمل رہتی ہیں اور انھوں نے اعلان کیا کہ الیکشن لڑنا ہمارا مقصود نہیں ہے۔ اگر یہ مقصود نہیں ہے تو پھر کیا مقصود ہے۔ انھوں نے اغراض و مقاصد بیان تو کیے تھے جن کے ذیل میں کچھ قومی خدمت کا ذکر آیا تھا۔ مگر وہ تو ہم بھول گئے۔ ہر چند کہ ان کی پارٹی کی سرگرمیوں سے ہمیں باقاعدہ باخبر رکھا جاتا تھا۔ اور ان کی طرف سے جو بھی بلیٹن یا کتابچہ موصول ہوتا ہمیں، اسے شوق سے پڑھتے تھے۔ ارے یہ ایک ہی تو سیاسی پارٹی تھی جس سے ہم نے بہت سی امیدیں وابستہ کی تھیں۔ لیکن ہوا یہ کہ کتنے سالوں تک اس پارٹی کا لٹریچر ہمیں آتا رہا مطلب یہ ہے کہ اس کی پراگریس رپورٹ ہمیں ملتی رہی اور ہم حیران ہوتے رہے کہ اس پارٹی کی پراگریس رپورٹ تو ہمیشہ اچھی ہی آتی ہے مگر خود اس کی پراگریس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ پھر ان کی یہ پراگریس رپورٹ بھی آنا بند ہو گئی اور خاصے دنوں تک ہمیں بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ جو ایک سو ایکویں سیاسی پارٹی تھی اس نے ہمیں اپنے خبر ناموں سے نوازنا کیوں چھوڑ دیا۔
یہ پچھلے برس کا ذکر ہے کہ اسلام آباد میں ایک ادبی فیسٹیول ہوا تو ہم نے دیکھا کہ وہاں مسعود مفتی بھی موجود ہیں اور مقالہ پڑھ رہے ہیں اور مقالہ میں انھوں نے بہت تیز تیز باتیں کی تھیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ شاعر اس زمانے میں دو ہوئے ہیں' احمد فرازؔ اور حبیب جالبؔ۔ باقی سب کوڑا ہے۔ ہم چونکے کہ ارے یہ ممتاز مفتی بول رہے ہیں پھر ہم نے سوچا کہ چلو اس ایک سو ایکویں سیاسی پارٹی نے عمومی ذہنی انقلاب پیدا نہ کیا ہو مگر اپنے بانی کو تو انقلابی بنا دیا۔ مگر ہم نے دیکھا کہ ان کے اس ذہنی انقلاب کو ہم ہی نے محسوس کیا۔ اوروں نے تو جیسے سُنی اَن سُنی کر دی۔
مگر خیر جب وہ اسٹیج سے اترے تو ہم نے انھیں مبارکباد دی کہ خیر سے آپ پھر ادب کی طرف واپس آگئے ہیں۔ پھر ہم نے پوچھا کہ آپ کی پارٹی کی کتنے دنوں سے ہمیں خیر خبر نہیں ملی۔ بولے کہ میں نے پارٹی کے تو خاتمہ کا اعلان کر دیا ہے۔
ہم حیران ہوئے کہ کب اور کیسے۔ کم از کم عبدالقدیر خاں نے تو یہ وضعداری تو برتی کہ جس پارٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا اس کے انجام کا اعلان بھی ضروری سمجھا۔ مگر مسعود مفتی بھی اپنی جگہ سچے ہیں۔ جب ان کی پارٹی کے قیام کا کسی کو پتہ نہ چلا تو اس کے خاتمہ کا بھی انھیں کیوں پتہ دیا جائے۔
اصل میں اس ایک سو ایکویں پارٹی کا معاملہ بھی کچھ اردو غزل کے معشوق کی کمر والا معاملہ تھا جس کے متعلق ایک شاعر نے کیا خوب کہا کہ؎
صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے
لیکن بھائی ہم جھوٹ نہیں بولیں گے۔ آخر ہمیں بھی حشر میں اللہ میاں کو منہ دکھانا ہے۔ ہم یہ گواہی دینے کو تیار ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنے پر مستعد ہیں کہ مسعود مفتی والی پارٹی تھی اور مقرر تھی۔ مگر وہ پارٹی کیا کرتی۔ پاکستان کے لوگ سو سیاسی پارٹیوں کے نرغے میں ہیں وہ سو کے چکر میں آ کر ننانویں کے پھیر میں پڑ گئے ہیں۔ اس سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ سو یہ ایک سو ایکویں پارٹی کس بوتے پر اپنا راگ الاپتی رہتی۔ اپنی دکان بڑھا دی اچھا کیا اور وہ جو عبدالقدیر خاں والی پارٹی تھی۔ اس نے بھی عوام سے مایوس ہو کر آنکھیں موند لیں۔ خیر مسعود مفتی نے جو اپنی دکان بڑھا دی تو اس کی تو ہم صاف لفظوں میں یہ گواہی دیں گے کہ؎
شہر میں کھولی ہے حالیؔ نے دکاں سب سے الگ
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
خیر ہمیں تو اس نایاب مال کا پتہ تھا لیکن ہم سے ایک چُوک ہو گئی۔ ہمیں یاد آ رہا ہے کہ ہمیں جو اس طرف سے آخری بلیٹن موصول ہوا تھا اس میں مسعود مفتی نے ایک تجزیہ پیش کیا تھا۔ اس تجزئیے میں پاکستانی معاشرے میں انھوں نے تین طبقوں کی نشان دہی کی تھی۔ سب سے اوپر والا طبقہ یعنی جاگیرداروں امراء و روسا پر مشتمل بالائی طبقہ۔ متوسط طبقہ اور سب سے نچلا طبقہ جس میں عوام شامل ہیں۔ انھیں میں طالبان بھی شامل ہیں۔ مسعود مفتی نے اس طبقے سے انقلاب کی امیدیں وابستہ کی تھیں۔ طالبان کے متعلق ان کا تجزیہ یہ تھا کہ ان کی سوچ تو صحیح ہے۔ بس ذرا ان کا طریق کار غلط ہے۔ اس بصیرت افروز تجزئیے پر ہماری پسلی پھڑک اٹھی۔ اور ہم نے اپنے کالم میں لکھا کہ مسعود مفتی کی بھی سوچ صحیح ہے۔ بس ان کے طریق کار میں کہیں کوئی کھوٹ ہے۔ہماری اس رائے زنی کے بعد ان کے بلیٹن ہمیں آنا بند ہو گئے۔ اور پھر انھوں نے وہ دکان ہی بڑھا دی جو دوائے دل بیچ رہی تھی۔
ویسے کوئی مانے یا نہ مانے ایک بات مسعود مفتی کی درست تھی کہ پاکستانی قوم سو سیاسی پارٹیوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اسی لیے ننانوے کے پھیر میں پڑی ہوئی ہے۔ جب بھی کوئی ایک سو ایکویں پارٹی قائم ہو گی جو اس قوم کو سو کے چکر سے نکال پائے گی بس تب ہی وہ ننانوے کے پھیرے نکلے گی اور اس کے دلدر دور ہوں گے۔