استحصال
ہم تو بھارت سے دوستی کے خواہاں ہیں مگر بھارت اپنی پاکستان دشمنی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کو امن و دوستی کا واضح پیغام دیا گیا ہے، مگر بھارت کی طرف سے اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے دوستی ہو سکتی ہے اگر وہ اپنی دہشت گردی کو ترک کرکے امن پسند پڑوسی ہونے کا ثبوت دے۔
اس طرح ہماری طرف سے بھارت سے امن کی بھیک مانگنے کو ہماری کمزوری قرار دیا گیا ہے اور متنازعہ مسائل کو حل کرنے کی ہماری درخواست کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم تو بھارت سے دوستی کے خواہاں ہیں مگر بھارت اپنی پاکستان دشمنی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ تو پاکستان کے وجود کا ہی قائل نہیں ہے۔ اس نے اپنی دشمنی کا ثبوت پاکستان پر تین جنگیں تھوپ کر اور پاکستان کو دولخت کرکے دیا ہے اور اب مودی حکومت نے پاکستان دشمنی کو انتہا پر پہنچا دیا ہے اس کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح گلگت بلتستان پر قبضہ کرکے اور بلوچستان میں دہشتگردی کو بڑھا کر پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا جائے۔
وہ تو گزشتہ سال گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کی پوری تیاری کر چکا تھا اور حملہ کرنے ہی والا تھا کہ چین نے لداخ میں کامیاب پیش قدمی کرکے مودی کے ہوش اڑا دیے پھر مودی گلگت بلتستان پر حملہ کیا کرتا لداخ کو بچانے میں لگ گیا اور اب تک وہ لداخ میں ہی پھنسا ہوا ہے اور شاید ہمیشہ ہی پھنسا رہے۔
مودی بلوچستان میں دہشتگردی کرانے کے منصوبے ضرور بنا رہا ہے مگر اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا ایک بڑا جاسوس کلبھوشن پہلے ہی پاکستان کی قید میں موجود ہے اسے اپنے اس جاسوس کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ پاکستان جاگ رہا ہے۔ بھارت افغانستان سے بھی پاکستان پر ایک عرصے تک دہشت گردی کراتا رہا ہے مگر ہماری فورسز نے اس کے تمام تخریبی منصوبوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں امن ہے مگر بھارت میں بد امنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ وہاں روز بروز حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کو پہلے سے زیادہ تیزکردیا ہے۔
سکھوں نے خالصتان کی تحریک کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ بھارت کشمیرکی طرح خالصتان کی تحریک کو بھی ختم کرنے میں قطعی ناکام ہو چکا ہے۔ مودی نے سکھ کسانوں کے جائز مطالبات نہ مان کر سکھوں کے غصے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ بھارتی فوج میں شامل سکھ فوجی بغاوت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ سکھوں کو بھارت میں ہر سطح پر محرومیوں کا سامنا ہے، جب کہ پاکستان میں شروع ہی سے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھوں کو ہر طرح سے سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، پاکستان نے کرتارپور راہداری کھول کر نہ صرف سکھوں کی برسوں پرانی دلی مراد کو پورا کردیا ہے بلکہ سکھ مذہب کا مان رکھا ہے۔
سکھوں کے ساتھ بھارت میں روا رکھے گئے ظلم و جبر سے لگتا ہے اب وہ کسی طرح بھی بھارتی چالاک لیڈروں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آسکتے ان کے ساتھ پہلے ہی دھوکا ہو چکا ہے۔ آزادی کے وقت گاندھی اور نہرو نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ انھیں ایک علیحدہ آزاد ملک خالصتان کا مالک بنایا جائے گا مگر اب حال یہ ہے کہ بھارت میں خالصتان کا نام لینا بھی جرم بن گیا ہے۔
سکھوں کے ایک لیڈر کا پاکستانی حکومت کو یہ مشورہ سکھوں کی بھارت سے نفرت کا واضح آئینہ دار ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا بدلہ خالصتان بنا کر لے لے۔ اس وقت بھارت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی بڑھا کر سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس طرح وہ چین کو گوادر سے راہ داری کی سہولت ختم کرا سکتا ہے اور پاکستان کو مستقبل میں اس منصوبے کے ذریعے ملنے والے فوائد سے محروم کرسکتا ہے مگر اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو دشمن اس کے عوام کی محرومیوں کی وجہ سے نشانہ بنا رہا ہے۔ ہماری سابقہ حکومتوں نے وہاں کے عوام کے بجائے وہاں کے سرداروں اور جاگیرداروں کو نوازا ہے اور ان لوگوں نے اپنے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ان کا استحصال کیا ہے۔ دراصل اس علاقے میں انگریزوں کے زمانے سے ہی سرداری نظام قائم ہے۔
انگریز بھی بس یہاں کے سرداروں کو خوش کرتے رہتے تھے تاکہ ان کا اس علاقے پر قبضہ قائم رہے انھیں عوام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ جانتے تھے کہ وہاں کے عوام سرداروں کے دست نگر ہیں اور سردار ہی انھیں کنٹرول کرتے ہیں چنانچہ اگر وہ سرداروں کو نوازتے رہیں گے تو وہ عوام کو خود سنبھال لیں گے اور اس طرح وہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
پاکستان کے بننے کے بعد بھی ہماری حکومتوں نے انگریزوں کے زمانے کی پالیسی کو جاری رکھا جس سے سرداران تو ضرور خوشحال ہوتے رہے مگر عوام کی محرومیاں بڑھتی گئیں۔ اب کچھ سالوں سے وہاں کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے وفاقی حکومتیں متوجہ ہوئی ہیں۔ صوبے میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا گیا ہے گوکہ وہاں کے سردار ان اسکولوں کے قیام کے خلاف تھے۔ اب یہاں کے اسکولوں اور کالجوں سے مستفید ہو کر نوجوان اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔
اب پاکستانی حکومتیں وہاں کے سرداروں کی عوام کش پالیسیوں سے آگاہ ہوکر وہاں کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کی جانب توجہ دے رہی ہیں اور اب انھوں نے سرداروں کے بجائے وہاں کے عوام کے مسائل حل کرنا شروع کر دیے ہیں جس سے متنفر ہو کر وہاں کے سردار ہر حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کو ہی دور کرنے کے لیے سی پیک منصوبہ شروع کیا ہے چونکہ یہ عوام کی خوشحالی کا منصوبہ ہے اس لیے وہاں کے بعض سردار بھی اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت سے مدد مانگ رہے ہیں۔
حال ہی میں پاک سرزمین پارٹی نے کوئٹہ میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا ہے جس میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے مصطفیٰ کمال کی سحر انگیز شخصیت سے قربت اور وطن عزیز سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ پی ایس پی شروع سے پاکستان کے تمام محروم طبقات کے حقوق کی بات کرتی آئی ہے۔ خاص طور پر بلوچستان کے عوام کی محرومی کو دورکرنے کے لیے وہ ہر ایوان میں اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔
مصطفیٰ کمال نے وہاں کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ان کی محرومیوں اور مشکلات کے دن پورے ہوچکے ہیں۔ پی ایس پی انھیں حقوق دلانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ بلوچستان کے عوام صوبے کا نظام چلانے والوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کی محرومیاں کب ختم ہوں گی اور انھیں حقوق کب ملیں گے۔ بلوچستان کے مراعات یافتہ طبقے نے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے اور وہ ان کا کھل کر استحصال کر رہے ہیں۔ وہ ان کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں مگر ان سے کیے گئے وعدوں کو یکسر بھول جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب پی ایس پی ایسا نہیں ہونے دے گی وہ بلوچستان کے وسائل کو بلوچستان کے عوام کے لیے مختص کرائے گی اور انھیں خوشحال بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ پی ایس پی کا یہ جلسہ پارٹی کے پانچویں یوم تاسیس کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا جسے وہاں کے عوام نے اپنی جوق در جوق شرکت سے توقع سے زیادہ کامیاب بنا دیا تھا۔