نہر سویز کی بندش
نہر سویز کے بند ہونے سے اب تجارتی جہازوں کو ایشیا سے یورپ کا سفر کرنے کے لیے پورے براعظم افریقہ کا چکر لگانا پڑیگا۔
ہم نے سڑکوں پر ٹریفک جام کا تو سنا ہے، لیکن کبھی مال بردار بحری جہازوں کے ٹریفک جام کے بارے میں نہ سوچا ہو گا ،اور وہ بھی ایسے مقام پر جسے دنیا بھر میں کارگو ترسیل کے لیے اہم ترین مقام سمجھا جاتا ہو۔ہم بات کر رہے ہیں مصر کی معروف نہر سوئز کی ۔
منگل کو چین سے نیدرلینڈز کے شہر نوٹراڈیم جانے والا چار سو میٹر لمبا بحری جہاز تیز ہواں کے باعث توازن اور سمت برقرار نہ رکھ سکا او ر نہر سویز کو بلاک کرنے کا سبب بنا۔ یہ بحری جہاز بحیرہ روم کی جانب گامزن تھا۔ جہاز کے پھنسنے سے تمام مال بردار بحری جہازوں کی آمد و رفت بند کر دی گئی ہے۔ عالمی تجارت کا 12 فیصد حصہ نہر سویز کے ذریعے ہوتا ہے۔ایور گیون نامی بحری جہاز کا شمار دنیا کے بڑے مال بردار جہازوں میں ہوتا ہے۔
ایور گیون کے جاپانی مالک شوئی کسین کا کہنا تھا کے اس صورتحال سے نکالنا انتہائی مشکل ہے۔امدادی ٹگ بوٹس کی مدد سے اس جہاز کو ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہیں لیکن اتنے بڑے حجم کے جہاز کو دیکھتے ہوئے خدشات ہیں کہ وہ اس مقام پر اگلے کئی روز تک پھنسا رہے گا۔
180 سال قبل بنائے جانے والی نہر سویز 120 میل لمبی ہے۔اس کی تعمیر دس سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔ 60ھزار سے زائد مزدوروں نے تین شفٹوں میں مسلسل کھدائی کی۔ تعمیر کے دوران 25 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ ابتدا میں پانی کی یہ گزرگاہ دو سو فٹ چوڑی اور پچیس فٹ گہری تھی بعد ازاں اس میں توسیع کی گئی گی۔اب نہر سویز کی چوڑائی 650 اور گہرائی 80 فٹ ہے۔
کچھ عرصہ پہلے جب مجھے مصر جانے کا موقع ملا تو میں نے نہر سویز اور صحرائے سینا کا سفر بھی کیا۔ہماری منزل شرم الشیخ کا تفریحی شہر تھا ۔شرم شیخ جاتے ہوئے ہم نہر سویز کے نیچے زیر زمین تعمیر کردہ سرنگ سے بھی گزرے۔قاہرہ سے87 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ سرنگ سطح زمین سے 160 فٹ نیچے سمندر سے گزرتی ہے۔تین کلومیٹر طویل اس سرنگ کے اوپر بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کا پانی دو سمندروں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے دو براعظموں کو ملاتا ہے۔
جب آپ اس سرنگ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ براعظم افریقہ میں ہوتے ہیں لیکن چند ہی منٹ بعد جب گاڑی باہر نکلتی ہے تو آپ براعظم ایشیا میں ہوں گے۔ جس طرح استنبول میں آبنائے باسفورس ایشیا اور یورپ کو ملاتی ہے، اسی طرح نہرسویز افریقہ اور یورپ کا بحری سنگم ہے۔ سویز کینال سے دنیا کے بڑے بحری جہاز جن میں سپر ٹینکر اور ہوائی جہاز کیریئر تک شامل ہیں باآسانی گزر سکتے ہیں۔اس نہر کو دنیا بھر کی بحری تجارت میں عظیم حیثیت حاصل ہے۔
اس سرنگ سے گزرنے والے چھوٹے جہازوں کو دس ہزار ڈالر اور بڑے جہازوں کو حجم اور وزن کے اعتبار سے لاکھوں ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ابتدا میں نہرسویز فرانسیسی کنٹرول میں تھی۔ پھر یہ برطانوی عملداری میں آگئی۔ 1956 میں مصر کے حکمران صدر جمال عبدالناصر نے اسے قومیانے کا فیصلہ کیا تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی اور مصر کو جنگ کا سامنا کرنا پڑا تاہم اقوام متحدہ نے نہر سویز کو مصر کا حق قرار دیا تاہم جنگ اور امن دونوں ایام میں اسے بند نہیں کیا جاسکتا۔
ابتدا میں نہر سوئز سے بحری جہازوں کی یکطرفہ ٹریفک ممکن نہ تھی لیکن 2015 میں کی جانے والی توسیع کے بعد اب سویز کینال سے بیک وقت تین کانوائے میں 97جہاز گزر سکتے ہیں۔ یہ جہاز گیارہ سے 16 گھنٹے میں نہر سویز کی مسافت طے کر لیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یورپ کے لیے دو تہائی تیل اسی راستے سے گزرتا ہے ایشیا اور یورپ کے درمیان 57 فیصد سے زیادہ تجارت نہرسویز کے ذریعے ہوتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 97 بحری جہاز روزانہ اس گزرگاہ کو استعمال کرتے ہیں۔ پانی کی اس گزرگاہ نہر سویز کے بند ہونے سے اب تجارتی جہازوں کو ایشیا سے یورپ کا سفر کرنے کے لیے پورے براعظم افریقہ کا چکر لگانا پڑیگا۔ وہ مسافت جو 12گھنٹے میں طے کی جاتی تھی اب اس میں کئی ہفتے صرف ہوں گے۔