حسینہ معین اٹھ گیا ناوک فگن…
حسینہ نے میرے بارے میں ایک مضمون ’’رنگ لگائی ہے حنا‘‘ لکھا۔
ہنستی ہوئی، جملے چست کرتی ہوئی، روشن چہرے والی حسینہ معین نے آنکھیں موند لیں۔ اب اس کے آخری دیدار کو کیسے جائیں؟ حمراء آپا سے یہی طے ہوا کہ ہم اسے سوتے نہیں دیکھیں گے۔ یہ تاب، یہ توانائی نہ ان میں تھی اور نہ مجھ میں۔
ہم اب کل جائیں گے جب حسینہ کو تنہا سوتے ہوئے 24 گھنٹے گزر چکے ہوں گے،لیکن اب 24 گھنٹوں یا 24 دنوں کا کیا معاملہ ہے، اب اسے اورہمیں، سب کو ہی تاابد تنہا رہنا ہے۔ غالب نے کچھ غلط شکوہ تو نہیں کیا تھا کہ تنہا گئے کیوں، اب رہو تنہا کوئی دن اور۔
وہ چند دنوں پہلے اسلام آباد سے اپنے دو ڈراموں کی فلم بندی کے بعد واپس آئی تھی اور بہت خوش تھی۔ ''میری جان موسم بہت اچھا تھا اور شوٹنگ بھی شاندار ہوئی۔ تم سے وعدہ تو ابھی آنے کا تھا لیکن ذرا لاہور کا پھیرا لگا آئوں، واپس آئوں گی تو پھر تمہاری طرف آئوں گی۔''
ان دنوں میں کامران اور فینی کے یہاں ہوں، حسینہ کو وہیں آنا تھا۔'' سحینا پنڈی سے آئی ہوئی ہے، اس سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ زریون کو اور اس کے بیوی بچوں کو ضرور بلانا۔'' اس نے ہدایت دی۔ وہ زریون کو چاہتی تھی اور یہ جانتی تھی کہ زریون اس پر اور اپنی حسینہ خالہ کے ڈرامے ''ان کہی'' پر کس طرح فدا ہے۔ وہ اپنے آنے کا دن اور وقت طے کرتی رہی۔ یہ 24 مارچ شام پانچ بج کر چار منٹ کی بات ہے اور وقت ہم پر ہنس رہا تھا۔
میں نے اسے بتایا کہ 23 مارچ کو ایکسپریس ٹریبون کے صفحہ اول پر اس کی بہت جیتی جاگتی جگمگاتی ہوئی تصویر شایع ہوئی ہے۔ وہ آرٹس کونسل میں کوویڈ ویکسین لگوانے گئی تھی۔ وہاں سے نکل کر اس نے ہنستے ہوئے یہ جملہ کہاتھا I want to tell every one its not painful at all مجھ پر ناراض ہوئی کہ تم نے اب تک کیوں نہیں لگوایا۔ میں نے پوچھا تمہیں کیسا محسوس ہورہا ہے؟ کہنے لگی مجھے کمزوری بہت محسوس ہورہی ہے۔ اس کے بھائی ڈاکٹر عزیز نے کہا ''آپا، پانی بہت پیجئے''۔ عزیز پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے۔
حسینہ کو جب کینسر ہوا تو عزیز نے ہی آپریشن سے پہلے اور اس کے بعد بہن کی بے پناہ تیمار داری اور خبر گیری کی جس میں ہر قدم پر انجم نے اس کا ساتھ دیا۔ بیوہ بھاوج شہناز سعید، بھتیجی سبین، سب ہی حسینہ پر جان نثار کرتے تھے۔ غزالہ اور اعجاز لاہور چلے گئے تھے لیکن سب ایک دوسرے کی پل پل کی خبر رکھتے تھے۔ رابیل تھی حسینہ کی منہ بولی بیٹی اور بھتیجا نعمان جو ہم سب کو حسینہ کی رخصت کی خبر دے رہا تھا۔ ان سب کی اور حسینہ کے بعض دوستوں کی زندگیاں کیسے خالی ہوگئیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ حسینہ ہمیں چھو کر گزریں۔
وہ ان لوگوں میں سے آخری تھیں جو برصغیر کی عظیم روایات، اقدار اور تہذیب و ثقافت کو اپنی ذات میں سمیٹے ہوئے تھیں۔ ان کے ڈراموں کی شائستگی اور سادگی ہماری انھیں روایات کا عکس تھیں۔
حسینہ ہماری ان لکھنے والیوں میں تھیں جنھوں نے ٹیلی وژن کے لیے ایسے مقبول سیریل لکھے کہ جن کی ساری اردو دنیا میں دھوم رہی اور آج بھی لوگ ان کے ڈراموں کو یاد کرتے ہیں۔ پاکستان کی طرح وہ ہندوستان میں بھی مشہور ہیں اور لوگ تحفے میں ان کے سیریلز کی سی ڈیز کی فرمائش کرتے ہیں۔ ان کے اور آج کے ڈراموں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حسینہ، مرزا عظیم بیگ چغتائی کی 'شہزوری' کا کردار ابھارتی تھیں جب کہ آج کے بیشتر ڈراموں کی ہیروئن سسرال میں طمانچے کھاتی ہے اور گھر سے نکالی جاتی ہے۔
ان کا بچپن کانپور میں گزرا اور لڑکپن سے آخری سانس تک وہ کراچی میں رہیں، کراچی سے انھیں محبت تھی، یہاں سے کہیں اور جاکر زندگی بسر کرنے کا ان کے یہاں کوئی تصور نہ تھا۔ لسانی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر کراچی گزشتہ 45 برسوں سے لہولہان چلاآتا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب کراچی کی تہذیبی ،ادبی اور تعلیمی محفلوں کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ یہاں سڑکوں پر خون بہنے لگا اور گلیوں سے گزر کر اپنے گھروں کو جانے والے بھی سہم سہم کر قدم اٹھانے لگے۔ وہ دن جب کراچی اپنے ہی لہو میںنہا رہا تھا انھوں نے کراچی کے نام ایک خط لکھا۔
میرے اپنے پیارے کراچی!
خط لکھنے کی وجہ اس لیے پیش آئی کہ کچھ تم بدل گئے کچھ ہم بدل گئے، وہ جو آدھی رات کو گلیوں میں سے بانسری کی آواز آتی تھی وہ کہاں گم ہوگئی، وہ جو صبح سویرے سڑکیں دھلنے کی آواز پر ہم جاگا کرتے تھے وہ جگانے والے کہاں چلے گئے۔
ہمارا تمہارا پیار تو اس گھڑی سے شروع ہوا تھا جب ہم نے یہاں پہلا قدم رکھا اور تمہارا ہاتھ تھامے بچپن گزارا۔ سمندر کی لہروں کو حیرت سے دیکھتے تھے۔ ریت کے محل بناتے تھے۔ سیپیاں چنتے عمر گزر گئی، کیسے خوشی کے دن تھے۔
میرے اپنے کراچی، اتنا تو بتا دو کہ وہ تتلیاں، وہ جگنو، وہ پرندے ، وہ سیپیاں کہاں چلی گئیں۔ یہ سب تو تمہیں آج کے بچوں کو دکھانا تھا۔
ایک ایسی لڑکی جسے پیڑ پر چڑھنے اور شرارتیں کرنے میں لطف آتا تھا، جو اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر سڑک پر کرکٹ کھیلتی تھی۔ وہ ریڈیو پاکستان کے لیے ریڈیائی ڈرامے لکھتے لکھتے ٹیلی ویژن ڈراموں تک پہنچی اور پھر آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اس نے ہر شعبے میں اعزازات سمیٹے۔ اس کی اماں کا خیال تھا کہ اس کا جی پڑھنے میں نہیں لگتا، یہ میٹرک پاس کرلے تو غنیمت ہے۔ پھر اسی اماں نے دیکھا کہ بیٹی آسمان میں تھگلی لگا رہی ہے۔ انھیں شاید یقین نہ آیا لیکن آخر دنوں میں حسینہ نے اپنی اماں کی کتنی خدمت کی۔ بالوں میں تیل ڈالنا، ان کی کنگھی کرنا اور ان کا منہ چوم لینا حسینہ کے لیے راحت کا سبب تھا۔
اپنے ڈراموں اور ان کے پروڈیوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا ہے ۔''محسن اور شیریں، شہزاد خلیل، ساحرہ کاظمی اوررعنا شیخ۔ شروع میں محسن علی اور شیریں ڈرامہ پروڈیوس کرتے۔ انکل عرفی، پرچھائیاں، بندش اور دھند پروڈیوس کیا۔بد قسمتی سے شیریں بیمار پڑگئی اسے کینسر ہو گیا۔وہ لندن چلی گئی۔اس کی وفات کے بعد میں نے سال بھر کام نہیں کیا۔
شعیب منصور نے مجھ سے کہا کہ آپ میرے لیے کچھ لکھیں۔ میں ان کے بارے میں کچھ تذبذب کا شکار تھی کہ یہ اتنے چھوٹے سے ہیں' پتہ نہیں کر بھی پائیں گے یا نہیں۔تو انھوں نے کہا کہ آپ ایک موقع دے کر تو دیکھیں۔ جس دن میں نے حامی بھری کہ چلو تمہارے لیے کچھ لکھ دوں گی تو شعیب منصور نے باقاعدہ سجدہ شکر ادا کیا کہ آپ نے حامی تو بھری۔ ''ان کہی'' میں نے ان کے لیے لکھا۔اس میں محسن صاحب بھی شامل تھے۔کیونکہ شہناز شیخ نے جب سنا کہ شعیب منصورکریں گے تو اس نے کہا یہ تو بہت چھوٹے سے ہیں، یہ کیسے کریں گے تو میں نے کہا کہ نہیں محسن صاحب بھی ہیں۔ پھر میں نے شہزاد خلیل صاحب کے ساتھ ڈرامہ ''تنہائیاں''کیا۔
میرے ساتھ یہ بات بھی بہت عجب رہی کہ میرے ساتھ دو ڈائریکٹرز کام کرتے تھے اور میں اکیلی لکھتی تھی۔اتنا اتفاق ہونا بہت کم ہوتا ہے۔ ''ان کہی'' کو شعیب اور محسن علی نے کیا۔پھر ان لوگوں کا تبادلہ ہو گیا۔ ''تنہائیاں'' شہزاد خلیل صاحب نے کیا۔پھر ساحرہ کے ساتھ ''دھوپ کنارے'' اور ''آہٹ'' کیا۔ ''آہٹ'' پاپولیشن کے متعلق تھااور اس وقت پاپولیشن کا نام لینا ہی بہت خطرناک تھا۔ایک تنظیم کی خواتین ہمارے پاس آئیں کہ آپ نے فحش نگاری کی ہے۔میں نے کہاکہ اگر پریگننٹ عورت کو دکھانا فحش نگاری ہے تو پھر پوری دنیا ہی فحش ہے۔ اس کے بعد خواجہ نجم الحسن کے ساتھ تاریخی کھیل ''تان سین'' کیا،جو بہت کامیاب رہا۔''
حسینہ نے میرے بارے میں ایک مضمون ''رنگ لگائی ہے حنا'' لکھا۔ اس میں ایک جگہ یوں تحریر کیا: ہماری زاہدہ کی ملاقاتیں گاہے بہ گاہے ہوتی رہیں۔ نہ ہم نے اسے طعنے دیے کہ کہاں گئیں تمہاری لن ترانیاں اور نہ اس نے کبھی ہمارے سامنے فریادی ماتم کیا۔ اس سے مل کر ہم ہمیشہ غیر سنجیدہ سی گفتگو کرتے رہے اور جیسے ہی وہ اٹھ کر گئی دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے حوصلے پر عش عش کیا کہ بھئی کیا لڑکی ہے آگ اور چھری کا ماتم ہنستے ہنستے کرتی ہے۔
اس وقت جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، ان کے چاہنے والے انھیں آخری سفر پر لے جا چکے ہوں گے۔ مجھ میں اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہیں تھی، کل یا پرسوں ان کے گھر جائوں گی۔ سب سے ملوں گی، اور دل ہی دل میں یہی کہوں گی کہ
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیرکون