مسلم لیگن کا بیانیہ ہی اس کا کارڈ تھا شاہدخاقان عباسی

بیانیہ سارے پاکستان میں بِک گیا، ہمارا مقصد کرسیوں سے بہت بلند ہے کہ نظام بدلا جائے، سابق وزیراعظم


Monitoring Desk March 31, 2021
ہم نے کسی سے مشورہ کیے بغیر امید وار وڈرا کر لیے، سابق وزیر اعظم، ’ٹو دی پوائنٹ‘ میں گفتگو۔ فوٹو: فائل

KARACHI: مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ ہی اس کاکارڈ تھا اور وہ بیانیہ سارے پاکستان میں بک گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام'' ٹو دی پوائنٹ'' میں میزبان منصور علی خان سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کی یہی کامیابی آپ کو پاکستان کے مسائل کاحل دے گی، یہ کرسیوں، مفاد اور اقتدار کی سیاست نہیں تھی یہ ایک بیانیے کی سیاست ہے کہ جب تک آپ اپنے ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلائیں گے ملک نہیں چلے گا، یہ ایک تحریک ہے، ساری جماعتیں الگ ہوجائیں لیکن مسلم لیگ(ن) قائم رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں کرسیوں کا فیصلہ ہم نے نہیں کیا ہمارے تو پانچ لوگ بندھے ہوئے تھے اورچھٹا بھی بندھ سکتا تھا، ہمارے پاس آدھی سے زیادہ تعداد تھی لیکن ہم نے دیکھا کہ چوری چکاری کی سیاست شروع ہوجائے گی، ہمارے جو فالتو امیدوار تھے ہم نے ودڈراکرلیے۔

شاہد خاقان نے کہا کہ قاف لیگ کو زیادہ خطرہ تھا انھوں نے حکومت سے بات کی اور انھوں نے ایک امیدواروڈراکرلیا۔ ہم نے کسی سے مشورہ کیے بغیر اپنے امید وار وڈرا کرلیے۔ سب کامشترکہ فیصلہ تھا کہ ہم نے اس بندربانٹ کاحصہ نہیں بننا۔ پی ڈی ایم اے کی ساری جماعتیں چاہتی تھیں کہ لانگ مارچ کیاجائے پھر استعفے دیے جائیں تب وہ زیادہ موثرہوگا لیکن پیپلز پار ٹی کا اپنا ایک موقف تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے معاملے کو سی ای سی کے پاس لے جائیں گے، ہمارامقصد کرسیوں سے بہت بلند ہے کہ ملک کے نظام کو بدلا جائے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے فیصلے پربہت سوال ہو چکے ہیں آرمی نے ایکسٹینشن کا اظہار کر دیا تھا۔ فوج کو شرمندہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے قانون میں تبدیلی کر دی لیکن ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس سے فوج کے اندربھی ترقی کا عمل رک جاتا ہے، کچھ مدت بعد فوج ہی اسے تبدیل کروائے گی کہ اگر ضرورت کے تحت ایکسٹینشن لیناپڑے توصرف ایک سال کیلیے ہی لی جا سکتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کا نظام آئینی طریقے سے چلے اورآئین میں رہ کر ہر ادارے کو بڑی اسپیس دی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں