کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں

ہر نکلتے سورج کے ساتھ موجودہ حکومت اپنی اہمیت کھو رہی ہے


Abid Mehmood Azam 1 April 02, 2021
ہر نکلتے سورج کے ساتھ موجودہ حکومت اپنی اہمیت کھو رہی ہے

ہر نکلتے سورج کے ساتھ موجودہ حکومت اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور دن بدن اس کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ عوام اس سے بیزار ہورہے ہیں۔ کاروباری حضرات سے لے کرنوکری پیشہ افراد تک کوئی بھی اس حکومت سے خوش نہیں، اب تو اس کے حامی اور ووٹر بھی اس حکومت کی حمایت سے دور ہو رہے ہیں۔ ان کے دلوں میں موجود محبت بدل رہی ہے۔

عوام موجودہ حکومت سے مایوس اور نا اْمید ہو چکے ہیں۔ حکومت نے اپنی پالیسیوں سے عوام کو مایوس اور نا امید کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خوش تو عوام کو سابقہ حکمرانوں نے بھی نہیں کیا ، ان کی پالیسیاں بھی اتنی عوام دوست نہیں تھیں کہ پاکستانی قوم ان پر واری جاتی۔ ان کی سیاست بھی اپنے مفادات کے گرد گھوم رہی تھی۔ آئیڈیل حکمران تو وہ بھی نہیں تھے ، مگر عوام کو سب سے زیادہ دکھ اور افسوس موجودہ حکومت کی کارکردگی پر ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ان کے تمام خواب چکنا چور کردیے ہیں۔

عوام نے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کی تھیں ، جو پوری نہیں ہوئیں۔ حکومت نے غریب عوام پر بے جا ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ لاد کر ان کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ کوئی بھی حکومتی اقدام ایسا نہیں ہے ، جس سے عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا ہو اور عوام مطمئن ہوئے ہوں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ عوام کے تمام مسائل کا خاتمہ کردیں گے۔

عوام نے ان کے وعدوں پر یقین کر کے انھیں وزیرِاعظم منتخب کیا ، لیکن اقتدار ملنے کے بعد کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ملک کے غریب اور متوسط طبقے نے پی ٹی آئی کو بہت امیدوں کے ساتھ ووٹ دیا تھا ، لیکن حکومت نے مہنگائی اتنی زیادہ کردی ہے کہ ہر چیزکی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ نہ صرف کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہورہی ہیں، بلکہ گیس اور بجلی کے بلوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ آج عوام سوچنے پر مجبور ہے کہ عمران خان نے جس تبدیلی کی بات کی تھی ، کہاں ہے وہ تبدیلی؟ کہاں ہے انصاف؟ کہاں ہے روزگار ؟ کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں ؟ کہاں ہیں پچاس لاکھ گھر ؟ کہاں ہے خوشحالی؟ کیا غربت کم ہوئی ہے ؟ کیا مہنگائی پرکنٹرول ہوا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔

مہنگائی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ غریب کے لیے جینا دوبھر ہوگیا ہے اور ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کی اپنی رعایا کی مشکلات کی رتی برابر بھی فکر نہیں۔ صرف مہنگائی ہی نہیں بڑھ رہی ، بلکہ روزگار بھی چھن رہا ہے اور تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں ہورہا۔ شاید پہلی حکومت ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔

وزیرِاعظم بننے کے بعد عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ مدینے کی ریاست کے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ '' اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کا جوابدہ میں خود ہوں گا۔'' ریاست مدینہ کے خلیفہ اول کا تو فرمان تھا کہ میری تنخواہ مدینہ کے مزدور کے برابر مقررکردیں، اس پر ساتھیوں نے عرض کیا کہ '' مزدورکی تنخواہ تو کم ہوتی ہے، اس سے آپ کا گزارہ نہیں ہوگا۔ ریاست مدینہ کے پہلے خلیفہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ'' پھر مزدورکی تنخواہ بڑھا دی جائے ، اس طرح میری تنخواہ بھی بڑھ جائے گی'' لیکن یہاں تو خود حکومتی ارکان سرکاری خزانوں سے اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔

عوام کی تنخواہوں میں پانچ فیصد بھی اضافہ نہیں کیا اور خود اپنی تنخواہوں میں لاکھوں روپے تک اضافہ کرلیا۔ کیا یہ ہے ریاست مدینہ؟ یہ ظلم عظیم ہے۔ میرے ملک میں ہمیشہ عوام کو ہی ہر قربانی دینا پڑتی ہے۔ سیاسی جماعتیں ہمیشہ عوام کو الیکشن سے پہلے وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ سبزباغ دکھاتی ہیں۔ یہ لوگ جھوٹے وعدوں اور دعووؤں کی بنیاد پر اقتدار میں آجاتے ہیں، مگر اپنے اقتدارکے آخری دن تک عوام سے کیے ہوئے وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہناتے۔ کسی کو سبز باغ دکھانا ، جھوٹے وعدے کرنا سرا سر دھوکا ہے، مگر یہاں تو سبزباغ دکھانا ، جھوٹے وعدوں اور دعووؤں کوکوئی برا نہیں سمجھتا ہے۔

الیکشن سے پہلے تحریک انصاف نے عوام سے بہت سے وعدے کیے ، لیکن اقتدار ملنے کے بعد عوام کی اْمنگوں اور خواہشات کو چکنا چورکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ موجودہ حکومت کے لیے بیروزگاری کا چیلنج بہت بڑا ہے۔ جناب عمران خان نے الیکشن سے پہلے پوری قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ پونے تین سال گزر گئے ہیں ، ایک کروڑ نوکریاں توکیا دینی تھیں ، اس عرصے میں بہت سے افراد بیروزگار ہو گئے ہیں۔

حکومت سنبھالتے ہی ایسی پالیسیاں بنائی گئیں کہ میڈیا کے اداروں کو اپنے ہزاروں ملازمین کو نکالنا پڑا۔ اس کے بعد بہت سی فیکٹریاں ، ملیں اور انڈسٹریز بند ہوگئیں ، ہزاروں مزدوروں کو تنخواہوں اور نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں اب بھی جاری ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔

عوام کو اپنا روزگار بچانے کے لیے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب بھر کے گریڈ 16 کے تقریبا 14000 ایم ایس سی، ایم فل اور پی ایچ ڈی ، ایس ایس ایز اور اے ای اوزکو اپنی نوکری بچانے کے لیے متعدد بار احتجاج کرنا پڑا اور لاہور میں دو ہفتے دھرنا دینا پڑا۔ ہر احتجاج کے بعد ان سے وعدہ کیا جاتا رہا ، ایک بار پھر ان سے وعدہ کیا گیا ہے ، خدا کرے یہ وعدہ وفا ہوجائے اور حکومت ہر بارکی طرح اس پر کوئی یوٹرن نہ لے۔

یہ تعلیم یافتہ افراد 2014ء تا 2018ء تھرو پراپر چینل این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرکے ضلع لیول پر میرٹ لسٹ و انٹرویو کے بعد بھرتی ہوئے، اصولی طور پر انھیں تین سال بعد مستقل کرنا چاہیے تھا ، لیکن ایک کروڑ نوکریاں دینے کی دعویدار حکومت کی کوشش ہے کہ ان اساتذہ کو مستقل کرنے کے بجائے بیروزگارکردیا جائے۔ موجودہ حکومت نئے نئی نوکریوں کے کوئی مواقع پیدا نہیں کیے ، بلکہ گزشتہ حکومتوں میں ہر سال جو نوکریاں دی جاتی تھیں ، وہ سلسلہ بھی بند کردیا گیا ہے۔ سال 21-2020 کے دوران ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ، جب کہ مالی سال 20-2019 کے دوران اس کی تعداد 58 لاکھ تھی۔ صرف ایک سال کے دوران آٹھ لاکھ بے روزگار افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں تعلیم یافتہ بے روزگار افراد خصوصاً ڈگری رکھنے والے بے روزگار افراد کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اوسطاً بیروزگاری کی شرح کے مقابلے میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے۔ بے روزگاری قانون کا احترام کرنیوالے اچھے شہریوں کو بھی مجرم اور ڈاکو بنا دیتی ہے اور اس سے بدعنوانی پھیلتی ہے ۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے، یہ حکومت پر لازم ہے،کیونکہ یہ حکومت روزگار فراہمی کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں