اعتراف جرم
مودی پاکستان دشمن ناتھورام گوڈسے کے نظریات کا حامل کٹر پاکستان دشمن آر ایس ایس کا کارندہ ہے
پھانسی کے پھندے پر لٹکنے سے قبل ناتھو رام گوڈسے نے اپنے بھائی گوپال رام گوڈسے کو وصیت کی تھی کہ اس کی چتا کی راکھ کو گنگا یا جمنا میں بہانے کے بجائے اس وقت تک محفوظ رکھا جائے ، جب تک پاکستان ٹوٹ کر بھارت کا حصہ نہ بن جائے اور پھر اس کی راکھ کو سندھو ندی میں بہا دیا جائے۔
چنانچہ آج بھی اس کی راکھ پاکستان کے ٹوٹنے کا انتظارکررہی ہے۔ مودی اسی پاکستان دشمن ناتھورام گوڈسے کے نظریات کا حامل کٹر پاکستان دشمن آر ایس ایس کا کارندہ ہے۔ اس کی پوری زندگی آر ایس ایس کی خدمت کرتے گزرگئی ہے، اس نے اپنی بیوی تک کو آر ایس ایس کی خدمت گزاری میں چھوڑ دیا تھا۔
وہ گوڈسے سے اس قدر متاثر ہے اور اسے اتنا بڑا رہنما خیال کرتا ہے کہ اس کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح گاندھی کی جگہ گوڈسے کو بھارت کا نجات دہندہ یعنی راشٹرپتا (بابائے قوم) قرار دے دیا جائے۔ مگر اس کی اس خواہش کو بھارت کے سیکولر طبقے اورکانگریس پارٹی نے پورا نہیں ہونے دیا ہے مگر اس کی پاداش میں مودی نے کانگریس کو اتنا کمزورکردیا ہے کہ وہ اب کسی بھی بھارتی ریاست میں اکیلے الیکشن جیتنے کے قابل نہیں رہی ہے، اسے وہاں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی نہ کسی علاقائی پارٹی کا لازمی سہارا لینا پڑتا ہے۔
گوکہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں کانگریس کا ہی کردار تھا مگر مودی نے یہ باورکرانا شروع کردیا ہے کہ پاکستان کو توڑنے میں آر ایس ایس کا اصل کردار تھا ، اس نے بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ کے موقعے پر ڈھاکا میں بہ آواز بلند اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو توڑنے میں آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے اہم کردار ادا کیا تھا ، وہ اس گھناؤنے جرم میں خود بھی شامل تھا اور اسے اس سلسلے میں جیل بھی جانا پڑا تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ بھیس بدل کر بنگلہ دیش میں داخل ہوا تھا۔
اس کے اس بیان سے صاف پتا چلتا ہے کہ جس مکتی باہنی کا ذکر کیا جاتا ہے وہ دراصل آر ایس ایس کے دہشت گردوں پر مشتمل تھی۔ انھیں کلکتہ میں عوامی لیگ کے کچھ غنڈوں کے ساتھ بھارتی فوج نے دہشت گردی کی تربیت دی تھی۔ پھر انھی دہشت گردوں نے پاکستانی فوج جیسی وردی پہن کر بنگالی مرد عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا تھا اور بڑے پیمانے پر بنگالی خواتین کی بے حرمتی کی تھی۔ یہ سب کچھ بنگالیوں کو پاکستانی فوج سے نفرت دلانے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ پاکستان کو توڑنا آسان ہو جائے۔
آج پاکستانی فوج پر جو بنگلہ دیش میں قتل عام کا الزام لگایا جاتا ہے وہ قتل عام دراصل آر ایس ایس کے غنڈوں نے کیا تھا۔ مودی نے اس دہشت گردی میں اپنے کردارکو ظاہرکرکے یہ ثابت کیا ہے کہ بنگلہ دیش بنگالیوں نے نہیں ، بھارتیوں نے اپنی قربانیوں سے بنایا تھا۔ مودی کی تقریر کے دوران حسینہ واجد مسلسل تالیاں بجاتی رہیں۔
اس لیے کہ بے وقوف مودی نے اپنی تقریر میں پاکستان کے خلاف وہ باتیں کہہ ڈالی تھیں جنھیں وہ خودکہنے سے پرہیز کر رہی تھیں۔ وہ چاہتیں تو خود بھی پاکستان کے خلاف زبردست تقریر کر سکتی تھیں مگر اس وقت ایک طرف ان کی چین سے دوستی چل رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان سے بنگلہ دیش کے پھر سے تعلقات بحال ہو رہے ہیں تاہم بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ اور ان کے والد شیخ مجیب کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر مجیب الرحمن کی روح کو تسکین پہنچانے کے لیے پاکستان مخالف تقریر کی ضرورت تھی چنانچہ لگتا ہے فیصلہ کیا گیا کہ مودی کو بلا کر تقریر کرائی جائے۔
ظاہر ہے وہ ہر جگہ پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی کرتا رہتا ہے اور پھر اس نے حسینہ واجد کی امنگوں کے مطابق ہی پاکستان مخالف تقریر کی۔ اس طرح حسینہ واجد نے مودی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرلیا اور مودی کو پتا بھی نہیں چلا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے مگر سمجھنے والے سب کچھ سمجھ چکے ہیں ، خود بھارتی دانشور اور سیاستدان مودی کی بے وقوفی پر کچھ آنسو بہا رہے ہیں تو کچھ قہقہے لگا رہے ہیں۔
اس تقریر نے جہاں بھارت کو پاکستان کو توڑنے کا مجرم بنا دیا ہے اور اسے ایک دہشت گرد ملک ثابت کردیا ہے وہاں پاک بھارت حالیہ سدھرتے ہوئے تعلقات کو پھر سے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مودی کا پاکستان توڑنے کا اعتراف اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ناقابل معافی جرم ہے۔ مودی پاکستان کو توڑنے کا اعتراف اس سے پہلے لال قلعے سے پندرہ اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں بھی کر چکا ہے وہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا بیان بھی دے چکا ہے۔ حکومت پاکستان کو مودی کے ان بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اقوام متحدہ کو بھارت کے خلاف کارروائی کرنے کی جانب متوجہ کرنا چاہیے مگر افسوس کی بات ہے ڈھاکا میں پاکستان مخالف بیان پر ہماری وزارت خارجہ نے ابھی تک اپنا کوئی ردعمل ہی ظاہر نہیں کیا ہے۔
مودی نے ڈھاکا میں بنگلہ دیش بنانے میں جو اپنے جیل جانے کا ذکر کیا ہے اسے خود بھارتیوں نے سفید جھوٹ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پورا بھارت پاکستان توڑنے میں لگا ہوا تھا تو مودی کو اس سلسلے میں کیونکرگرفتارکیا جاتا یہ کہہ کر انھوں نے حسینہ کے سامنے ضرور اپنا قد بڑھانے کی کوشش کی ہے مگر بھارتیوں کے نزدیک وہ سدا کا جھوٹا بونا ہے۔ جہاں تک حسینہ واجد کا تعلق ہے انھوں نے بنگلہ دیش کو ترقی کی راہ پر ضرور گامزن کردیا ہے مگر وہاں ابھی بھی غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے دور میں بنگلہ دیش جمہوری روایات سے بہت دور ہو گیا ہے۔
وہ صرف ایک سیاسی پارٹی کا ملک بن گیا ہے۔ عوامی لیگ بارہ سالوں سے برسر اقتدار ہے اور شاید آگے بھی وہی ملک پر راج کرتی رہے گی اس لیے کہ حزب اختلاف کو کرش کر دیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کے تمام سرکردہ لیڈروں پر مقدمات چل رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی ایسی جرأت کرتا ہے تو اسے بھارت کی طرح ملک دشمن قرار دے کر جیل بھیج دیا جاتا ہے یا اغوا کرلیا جاتا ہے صحافتی آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ درجنوں صحافیوں کو حراست کے دوران ہلاک کردیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی عوام کا کہنا ہے کہ اسی لیے بنگلہ دیش بنایا گیا تھا کہ سدا مجیب الرحمن کا خاندان اقتدار سے چمٹا رہے گا۔ مودی کے دورے نے بنگلہ دیش کو دنگا دیش بنا دیا ہے۔
مودی کی وجہ سے وہاں سیکڑوں قیمتی جانیں ضایع ہوگئی ہیں اور کئی گائیں بھی سڑکوں پر ذبحہ کردی گئی ہیں مگر یہ تو مودی کی سرشت میں داخل ہے کہ جب تک خون نہ بہے اسے چین نہیں آتا خواہ وہ احمد آباد ہو، پلوامہ، لداخ یا دہلی مسلمانوں کا خون تو اسے معاف ہے، مگر جو گائیں وہاں اس کی وجہ سے ناحق قربان ہوگئیں اس کا تو اسے ضرور بھگوان کو جواب دینا ہوگا۔ اس دورے کے خلاف حفاظت اسلام نامی تنظیم نے ملک گیر احتجاج کرکے حسینہ کے اس گمان کو چکنا چورکردیا ہے کہ اب اسلامی جماعتیں ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہی ہیں۔