نواز اور عمران کی سوچ کا فرق

خان صاحب اور ان کے رفقا کار نواز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے منصوبوں کی تکمیل کےلیے دن رات ایک کردیں


نواز شریف اور عمران خان کے دورِ حکومت میں سوچ کا فرق واضح ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک بچے کا اپنے والد سے شکوہ تھا کہ انہیں اس سے محبت نہیں ہے جبکہ اس کے دوست کے والد اس سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ والد کے پوچھنے پر بچے نے بتایا کہ دوست کے ابا اسے چاند، سورج، تارہ کہہ کر بلاتے ہیں، جبکہ آپ اوئے گدھے، بندر وغیرہ کہہ کر بلاتے ہیں۔ باپ نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور بولا کہ بیٹا درحقیقت اس کے والد ماہر فلکیات اور میں ماہر ڈنگریات یعنی جانوروں کا ماہر ہوں۔ اس لیے آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

بظاہر یہ ایک گھسا پٹا لطیفہ ہے لیکن یہ وطن عزیز کے سیاستدانوں بالخصوص میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور آپ میاں صاحب کو دیکھ لیجئے۔ میاں صاحب کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے ہونے کی وجہ سے انہیں کاروبار اور اس سے متعلق مشکلات کا بخوبی اندازہ تھا۔ میاں صاحب کو اس بات کا پوری طرح سے ادراک تھا کہ شہری اور دیہی ترقی ملک کےلیے لازم و ملزوم ہے۔ اسی لیے آپ جب 1981 میں پنجاب کی صوبائی کابينہ ميں بطور وزيرِخزانہ شامل ہوئے تو آپ صوبے کے سالانہ ترقياتی پروگرام ميں ديہی ترقی کے حصے کو 70 فیصد تک لائے۔

میاں صاحب جب وزیراعظم بنے تو نجی شعبے کے تعاون سے ملکی صنعت کو مضبوط بنانے کی کوششیں کیں۔ اپنے پہلے دور حکومت میں شروع کیے گئے منصوبے لاہور تا اسلام آباد موٹروے کو حکومت کے خاتمے کے باوجود نہیں بھولے اور جیسے ہی دوبارہ حکومت میں آئے اسے مکمل کیا۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر آپ کسی علاقے کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو اسے سڑک سے جوڑ دیں، باقی ترقی وہ علاقہ خود ہی کرلے گا۔ غازی بروتھا اور گوادر بندرگاہ، سندھ کے بے زمین ہاريوں ميں زمین کی تقسیم، وسطی ایشیائی مسلم ممالک سے مستحکم تعلقات، اقتصادی تعاون تنظیم کی ترقی، افغانستان کے بحران کو حل کرانے ميں مدد، جس کے نتیجے میں ''معاہدۂ اسلام آباد'' ممکن ہوا۔ اور پریسلر ترمیم کے تحت نافذ کی گئی امریکی پابندیوں کے باوجود معاشی ترقی کا حصول۔ اپنے تیسرے دور حکومت میں وطن عزیز کے اندھیروں کو 10 ہزار 400 میگاواٹ بجلی سسٹم میں داخل کرکے روشنیوں میں تبدیل کرنا۔ اور نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی تکمیل۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ میاں صاحب کے سامنے ایک مقصد تھا۔ وہ جانتے تھے کہ معیشت مضبوط ہوگی تو کاروبار ہوگا، روزگار ملے گا، غربت اور بھوک کا خاتمہ ممکن ہوگا۔

دوسری جانب موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کرکٹ کھیلتے ہوئے ساری زندگی اسپانسر شپ پر گزاری۔ کھیل سے فراغت کے بعد آپ نے چندہ اکھٹا کیا اور اسپتال بنایا۔ اسپتال سے فراغت کے بعد آپ نے اسے چلانے کےلیے چندہ مانگنا شروع کردیا (جو کہ اب تک چل رہا ہے)۔ اس لیے آپ جب ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے تو آپ نے عوام کو بھی مانگنے پر لگا دیا۔ کوئی ''لنگر خانے'' سے اور ''کوئی بھوکا نہ سوئے'' کے کاؤنٹر سے مانگ کر اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کی کوشش کررہا ہے۔

بقول سراج الحق صاحب، مہاتیر محمد نے خان صاحب کو کارخانے بنانے کو کہا تو خان صاحب نے لنگر خانے بنادیے، یہ سوچے بنا کہ ایک کارخانہ ہزار لنگرخانوں سے بہتر ہے۔ کاش کوئی خان صاحب کو بتادیتا کہ اس ملک میں بہت سے لوگ پہلے ہی یہ کام کررہے ہیں۔ بہرحال ڈھائی سال کے بعد جب عوام مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں، غربت، بھوک اپنے عروج پر ہے، تو خان صاحب کو حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے، اور انھوں نے عوام کا احساس کرتے ہوئے اپنے لاڈلے وزیر خزانہ کو فارغ کردیا ہے، وسیم اکرم پلس آج کل طوفانی دوروں پر ہیں، ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح ہورہے ہیں، اقتصادی زونز کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، مہمند ڈیم پر کام شروع ہوچکا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ منصوبے خان صاحب کے دور حکومت میں پورے نہ ہوسکیں گے، اور یوں الیکشن کے موقع پر شائد پہلی بار ایسا ہوگا کہ پانچ سال حکومت میں رہنے والی پارٹی عوام کو یہ بتانے کے بجائے کہ ہم نے ملک کےلیے خدمات سرانجام دیں، خان صاحب اور ان کے رفقا کار یہ کہہ رہے ہوں گے آدھا وقت تو ہم نے اپنے اناڑی پن کی وجہ سے ضائع کردیا اور اب ہم یہ کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خان صاحب اور ان کے رفقا کار نواز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے منصوبوں کی تکمیل کےلیے دن رات ایک کردیں، تاکہ وطن عزیز کی معاشی ترقی کی رفتار منفی سے مثبت ہوکر زیادہ نہ ہو، کم ازکم اتنی تو ہوجائے جس قدر ''ن لیگ'' چھوڑ کر گئی تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں