عالمی سرمایہ داری شدید بحران کا شکار
پاکستان میں اس کے اثرات بہت بھیانک شکل میں ابھرتے نظر آ رہے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری سلسلہ انتہائی معاشی بحران کا شکار ہے۔ کھربوں ڈالر کے اسلحے کی پیداوار، تجارت اور کھپت کے میدان سجا لیے ہیں جہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے،لیکن بھوک، افلاس اور غربت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
روزانہ اس دنیا میں ڈیڑھ لاکھ انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ سرمایہ دار دنیا میں جرمنی کے بہت بہتر معاشی حالات ہیں، اب وہ کورونا کی وبا کی وجہ سے 20 بلین (ارب) یورو کا قرض دار ہو چکا ہے۔ یورپی یونین کی کل شرح نمو2 فیصد پر آگئی ہے،جب کہ امریکا کی شرح نمو 2.8 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ چین کی شرح نمو 11 فیصد سے گھٹ کر 6 فیصد پر آگئی ہے۔ حالیہ سرکاری اطلاع کے مطابق 1.2 فیصد شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے جب کہ 18 کروڑ کی بے روزگاری میں صرف 2.1 فیصد کی کمی آئی ہے۔
BRICS کی صورتحال جس پر عالمی سرمایہ داری کو بڑا ناز تھا اس کی شرح نمو 1.5 فیصد کے نیچے آگئی ہے جب کہ جاپان کی شرح نمو منفی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں بے روزگاری کی شرح کروڑوں میں بڑھتی جا رہی ہے۔ کورونا کی بندشوں کی وجہ سے بھوکے لوگ بلبلا اٹھے ہیں اور یورپ، ایشیا، امریکا، لاطینی امریکا اور افریقہ میں سخت لاک ڈاؤن کے خلاف شدید احتجاج ہو رہے ہیں جب کہ ان امراض کی روک تھام اور تدابیر پر حکمران بہت کم اخراجات کر رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ کے ہدف کو پورا کرنے میں امریکا، برطانیہ، جرمنی اور چین عطیات دینے میں ہاتھ روک رہے ہیں۔ خاص کر ٹرمپ حکومت نے تو رقم دینے سے انکار کردیا تھا۔ اب جوبائیڈن نے ایک حد تک بجٹ مختص کیا ہے۔ اس کے برعکس کورونا کی ویکسی نیشن، تدابیر، احتیاط اور ادویات کی کمپنیاں کھرب پتی بنتی جا رہی ہیں۔ صرف امریکا میں 151 ایسے ارب پتیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس معاشی حالات کے اثرات سماجی اور سیاسی حالات پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ اس کا اظہار مختلف ممالک میں احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں کی شکل میں ہو رہا ہے۔ جیساکہ بیلاروس، برما، نیکورنا کا راباخ، نائیجیریا، یمن، سوڈان، لبنان، عراق اور ہندوستان میں نیچے سے لاوا پھوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
پاکستان میں اس کے اثرات بہت بھیانک شکل میں ابھرتے نظر آ رہے ہیں۔ حکمران پارٹی میں تضادات اور شطرنج کے مہروں کی بار بار تبدیلیوں کے باوجود اسے سنبھالنا اب ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ پھر حزب اختلاف میں دھڑے بندیاں، بعض پارٹیوں کی موقع پرستانہ اور مفادات کی خاطر سینیٹ کے چیئرمین، نائب چیئرمین اور اپوزیشن بنانے میں کروڑوں، اربوں روپے کی خرید و فروخت اس کی متروکیت کا برملا اظہار ہو رہا ہے۔ کون سی ایسی پارٹی نہیں ہے جس میں دھڑے بندی نہیں ہے؟
اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ اسے درست کرنے کے لیے یا مہنگائی میں کمی کرنے کے لیے حکومت کی کوشش بارآور اس لیے نہیں ہو رہی ہے کہ وہ جن کارندوں اور سامراجی قوتوں سے توقع لگائے ہوئے ہے وہ صرف ایک ہی کام جانتے ہیں، وہ ہے رقم بٹورنا۔ مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے نام سے پاکستان سے کھربوں ڈالر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ صرف اسلحے کی خریداری، جنگی جہازوں کی خریداری اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات کی ادائیگی میں سارے بجٹ کی رقم بھسم ہو جاتی ہے۔ جب کہ حکمران بے زمین کسانوں میں زمین بانٹتے ہیں اور نہ کارخانے لگا کر روزگار فراہم کرتے ہیں۔
اسپتال اور پرائمری لیبل کے اسکولوں کی تعمیر پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ علاج اور تعلیم کو تجارتی اداروں کے طور پر ابھارا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اور عوام کی بدحالی کیوں کر دور ہوگی۔ مگر خطے کے حالات میں ایک ہلکی سی کروٹ نظر آ رہی ہے۔ ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے اور تجارت کو فروغ دینے کی بات سننے میں آ رہی ہے۔ جیساکہ چینی، گندم، کپاس، دوا، جانور، گرم مسالے، مرچ اور بے شمار اجناس اور معدنیات ہم ایک دوسرے سے تبادلہ کرسکتے ہیں،مگر جنگ کی فضا اور جنگی اخراجات کو بڑھاوا دینے والے گروہ اس کے برعکس کشمیر کی آڑ لے کر ہندوستان سے تجارت کی مخالفت کر رہے ہیں۔
جب کہ امریکی سامراج اسرائیل کی سرپرستی اور فلسطین پر جبر کرنے میں معاون بنا ہوا ہے، اس کے باوجود ہماری سب سے زیادہ تجارت امریکا سے ہے۔ ہم امریکا سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کرو، پھر ہم تم سے تجارتی تعلقات بڑھائیں گے۔ جب کہ بھارت کے مسئلے پر ہم نے یہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا بھارت سے کوئی تجارت نہیں کرنی چاہیے۔ بعض جماعتیں اور نوکر شاہی کا ایک حصہ تو مسلم ممالک افغانستان اور ایران سے بھی تعلقات ہموار کرنے کی زیر زمین اور برملا منفی اظہار کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں توانائی کا بحران ہے جب کہ ایران نے برسوں سے پائپ لائن بچھائی ہوئی ہے۔ صرف امریکی اعتراضات پر پاکستان، ایران سے تیل نہیں لے رہا ہے۔ ایران، پاکستان کو توانائی فراہم کرکے خودکفیل بنا سکتا ہے۔ مگر کیا مجال کہ امریکی مرضی کے بغیر ایران سے تعلقات بہتر کرے۔ اب بھارت سے کشمیر اور ہندوتوا کو بنیاد بنا کر تجارت کی راہ میں جنگ باز قوتیں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔ امریکا اپنی زیادہ تر تجارت کینیڈا اور برطانیہ سے کرتا ہے، تو پھر ہم بھارت، افغانستان اور ایران سے کیوں نہ کریں۔
جہاں تک کشمیر کا مسئلہ ہے تو اسے ایک خودانحصار اور خودمختار خطے کے طور پر آزاد ہونا چاہیے۔ بھارت سے پاکستان کی تجارت بڑھنے سے عوام کے روابط اور ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔ نتیجتاً برصغیر کے محنت کشوں خاص کر بھارت اور پاکستان کی کسان تحریک، سندھ کے ہاریوں (کسانوں) کی تحریک کو یکجا کرکے اپنے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو تقویت ملے گی،اس لیے یہ قدم ایک مثبت قدم ہے۔ ہرچندکہ آزاد سوشلسٹ برصغیر اس خطے کے مسائل کا واحد حل ہے۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے بھارت سے چینی، کپاس منگوانے کا فیصلہ موخر کردیا ہے اور کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کی بحالی تک تجارت نہیں ہو سکتی۔ چینی اور گندم منگوانے کا فیصلہ اور اعلان حکومت کی جانب سے ہی کیا گیا تھا۔ اور دو دن کے بعد وفاقی کابینہ نے اسے موخر کردیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی کابینہ کو کہاں سے ہدایت آئی کہ وہ اپنے ہی فیصلے کو رد کر دے۔