جرم اور سائنس کا تعلق
قدرت کی جانب سے کیا خوب منصوبہ بندی ہے کہ بال بھی اب خاک برابر نہیں رہا ہے۔
پرانے زمانے میں خاص کر دیہاتوں میں یہ دستور تھا کہ جب کسی کے گھر چوری کی واردات ہوتی تھی تو خاص طور پر کھوجی کو بلایا جاتا تھا یہ کھوجی خاندانی ہوتے تھے یعنی ان کے یہاں وراثتی طور پر کھوجنے کی خصوصیت کا کام منتقل ہوتا آیا یا کھوجیوں کے خاندان مقبول ہوتے تھے جو جائے واردات کو اچھی طرح چیک کرکے چور کے قدموں کا نشان کھوجتے کھوجتے اصل جرم تک پہنچ جاتے تھے۔
اسی طرح کھوجی کتے بھی اپنا کام دکھاتے اور ان کو اس کام کے لیے خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی، کھوجیوں کا کام آج بھی دیہاتوں میں جاری ہے البتہ کھوجی کتے پولیس اور پیراملٹری شعبوں میں اپنی مخصوص شناخت کرنے والی حس کے باعث خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جرم چاہے چوری، ڈکیتی یا قتل کا ہو،گاؤں دیہاتوں سے لے کر شہروں تک میں آج کے دور میں جدید خطوط پر شواہد کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور مجرم تک رسائی میں آسانی ہوتی ہے۔ ہمارا ملک اس حوالے سے اب بھی ذرا پیچھے ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک اس دوڑ میں بہت آگے نکل چکے ہیں جہاں جدید خطوط پر فرانزک لیب کام کر رہی ہیں اور فرانزک سائنس اس ضمن میں ایک اہم مضمون بن چکا ہے جس میں جدید ترین سائنسی نظریات اور ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہے۔
فرانزک لیب کا لفظ آپ نے اکثر فلموں اور ڈراموں میں سنا ہوگا جہاں جرم اور قانون کے درمیان رسہ کشی میں یہ لیب بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن حقیقی دنیا میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ فرانزک دراصل لاطینی زبان کے لفظ "Forensis" سے آیا ہے جس کے معنی ہیں فورم۔ اس کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جاسکتی ہے ''عدالتی نظام میں اٹھائے جانے والے سودمند سوالات کا جواب دینے کے لیے سائنسی علوم کا وسیع پیمانے پر اطلاق یا شواہد جمع کرنے اور ان کی جانچ پرکھ کے لیے استعمال کیا جانے والا سائنسی طریقہ۔''
یہ سائنسی طریقہ جرم خاص کر قتل کی واردات میں اس وقت اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب قتل کا شبہ ایک سے زائد افراد پر کیا جا رہا ہو، بہت سے مظلوم اس شک کی بنیاد پرگھسیٹے گئے ہیں۔ ان کے مستقبل، رشتے ناتے اور کردار اس حوالے سے داغ دار ہو چکے ہیں یہ الگ بات ہے کہ بعد میں باعزت بری کیے جانے کے عمل تک انھیں طویل اذیت ناک وقت سے گزرنا پڑا اور یوں بھی ہوا کہ سب نے جھوٹی خبر اور شک پر ہی یقین کرکے الزامات کا ٹوکرا سر پر دھر دیا۔
ایسے بہت سے کیسز میں بہت سے اشخاص کو پولیس کی جانب سے دھر لینے، چھترول لگانے، خاندان والوں کو تنگ کرنے جیسے دقت آمیز مراحل میں گزرتے اخبارات میں پڑھا جا چکا ہے۔زینب کیس میں قاتل اس قدر نزدیک تھا کہ اغوا سے لے کر بچی کی نماز جنازہ میں شامل رہا اور بعد میں سائنسی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر شواہد حاصل کرکے اپنے انجام کی جانب بڑھا۔
شرلاک ہومز کے ناولز میں ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ مجرم جرم کرنے کے بعد اپنا کوئی نہ کوئی سراغ چھوڑ جاتا اور مشہور زمانہ تخلیقی کردار جاسوس شرلاک ہومز اس سراغ کی مدد سے مجرم تک پہنچ جاتے۔ ناولوں اور کہانیوں کو عملی جامہ پہنانے والے پہلے علم جرمیات سے تعلق رکھنے والے فرانس کے ڈاکٹر ایڈمنڈ لوکارڈ نے دنیا کی پہلی کرائم لیب 1910 میں فرانس میں ایک پولیس اسٹیشن کی اوپری منزل پر قائم کی۔ 1877 میں پیدا ہونے والے لوکارڈ کا کہنا تھا کہ ''ہر رابطہ یا تعلق کوئی نہ کوئی سراغ یا نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے۔''
قدرت نے انسانی جسم میں ڈی این اے ایک ایسا جینیاتی خاکہ ترتیب دیا ہے ، جو اسے دوسرے انسان سے مختلف بنا دیتا ہے یہ قدرتی شناخت مخصوص اور بہت اہم ہے ، اس سے وہ تمام معلومات مل سکتی ہیں جو تمام زندہ اجسام کی جانچ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ، یہ شناخت جینو ٹائپ کہلاتی ہے ، ہر جاندار کی جینو ٹائپ الگ ہوتی ہے، جیسے انسانی انگلیوں کی لکیریں اور ان کے دباؤ کا نشان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح جینو ٹائپ بھی ہر جاندار کا علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔
یہ قدرت کی جانب سے ہر جاندار کی ساخت کو علیحدہ سے شناخت کرنے کا بڑا دلچسپ اور خوبصورت طریقہ ہے، لاکھوں، کروڑوں انسانوں میں سے ہر ایک کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ڈی این اے حاصل کرنے کے لیے انسانی جسم کے لعاب دہن ، پیشاب ، بال ، ہڈی اور جلد کے نمونوں کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں، ڈی این اے ٹیسٹ، فرانزک سائنس میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔1980 میں پہلی بار ڈی این اے کی بنیاد پر فرانزک ٹیسٹ کا آغاز ہوا اور اس میں کامیابی کے بعد اسے آج تک وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ نہ صرف مجرموں تک پہنچنے کے لیے کارگر ہے بلکہ قانونی معاملات میں بھی اس سے مدد لی جا رہی ہے مثلاً اس کے ذریعے یہ پتا چلایا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص فلاں شخص کی اولاد ہے یا نہیں، یہ ٹیسٹ باہر کے ممالک میں بہت سے معاملات میں بہت ضروری اور سستا بھی ہے جب کہ ہمارے یہاں اب بھی بہت سی پیچیدگیوں کے ساتھ زیادہ اخراجات کے حوالے سے مشکل ہے جب کہ امریکا میں یہ ٹیسٹ نناوے ڈالرز کے عوض کیا جا رہا ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے پولیس جرم کی جگہ سے یا مقتول کے جسم سے مجرم کے جسم کے شواہد حاصل کرتی ہے اور اس ٹیسٹ سے مجرم کی جینیاتی رپورٹ سامنے آ جاتی ہے۔ ان سیمپلز کی بنیاد اور ٹیسٹ کی رپورٹ کے سبب مختلف مشکوک افراد کے نمونے لے کر ان کے ڈی این اے رپورٹ کو میچ کیا جاتا ہے اس طرح اصل مجرم کی شناخت باآسانی ہو جاتی ہے۔ بے لورکالج آف میڈیسن کے ایک سروے کے مطابق 2018 میں قانون سے متعلق اداروں نے 91 فیصد اس طریقہ کار کو استعمال کیا یہ کیسز شدید نوعیت کے تھے جب کہ 46 فیصد غیر شدید نوعیت کے تھے۔
گو ڈی این اے ٹیسٹ ایک طرح سے فنگر پرنٹ کی سی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بہت سے قانونی مسائل اور پیچیدگیوں کے باعث ڈی این اے ٹیسٹ کو فنگر پرنٹ کے مقابلے میں زیادہ فوقیت دی جاتی ہے جس کے غلط ہونے میں شبہات نہیں ہوسکتے۔
البتہ ایسا ہوتا ہے کہ اصل مجرم کی کھوج میں یہ ٹیسٹ طوالت بھی اختیار کرسکتا ہے اس کی مثال گزشتہ برس موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کے مجرم کی شناخت میں اندازاً 5 لوگوں کے ڈی این اے سیمپل لیے تھے فرانزک لیبارٹریز کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اب پاکستان میں بھی سائنس کی اس مفید شاخ کو استعمال کیا جا رہا ہے اور یہاں تین فرانزک لیبارٹریز کا قیام عمل میں آیا، پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی، سندھ فرانزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری اور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اور ہیلتھ سائنسز جو قانونی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
پچھلے برس جولائی 2020 میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایم اشرف کا کہنا تھا کہ انھوں نے چھ لاکھ کے قریب کیسز حل کیے ہیں، زینب ریپ مرڈر کیس میں بھی یہی طریقہ کار کارآمد رہا تھا۔
زمانہ ترقی کر رہا ہے، جرم کرنے کے طریقے بھی بدل رہے ہیں، لیکن قدرت کی جانب سے کیا خوب منصوبہ بندی ہے کہ بال بھی اب خاک برابر نہیں رہا ہے کیونکہ اس بال کے ذریعے بھی نئی سائنسی ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑے سے بڑے شاطر مجرم کو پکڑا جاسکتا ہے، پاکستان معاشی اعتبار سے کمزور ملک ہے کم وسائل کے باوجود بھی کام ہو رہے ہیں، ان کم وسائل کو ضایع کرنے کے بجائے بخوبی استعمال کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا سب کچھ سائنس پر چھوڑ دینے میں عقل مندی نہیں۔