قبضہ سچا… دعویٰ جھوٹا

ہم پوری طرح مایوس ہوچکے ہیں اور کشمیر کی آزادی اب ہمارے لیے ایک بے معنی چیز ہو کر رہ گئی ہے۔



یہ کوئی تیس چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک کرم فرما نے جو بھارت کے رہنے والے تھے اور بڑے زمیندار تھے ، اپنے ایک ہاری سے یوں ہی بس پوچھ لیا '' ذرا یہ تو بتاؤ! کہ تمہارے خیال میں یہ کشمیر کا مسئلہ جس نے پاکستان اور بھارت کو مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے کیسے حل ہوگا ؟ ''

ہاری نے بڑی معصومیت اور بھولپن سے جواب دیا۔ '' میاں! بات یہ ہے قبضہ سچا ، دعویٰ جھوٹا۔'' معمولی سی بات تھی بات آئی گئی ہوگئی۔ وقت کی گرد میں چھپ کر ذہن سے محو ہوگئی۔ ویسے بھی یہ کسی فلاسفر کا قول نہ تھا کہ یاد رکھا جاتا۔ ایک ان پڑھ کسان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تھے جن کی کوئی اہمیت نہ تھی۔

اب سالوں بعد یوں ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو اپنی پسندیدگی سے نوازا اور طرح طرح سے ان کی لیاقت و فراست کو سراہا۔ پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ وزیر اعظم نے اسی لائق وزیر خزانہ کو بہ یک جنبش قلم اس کے عہدے سے فارغ کردیا اور ان کے مشیران خاص نے اس کا سبب یہ بتایا کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہے تھے۔

وزارت خزانہ کا قلم دان ایک بار پھر حماد اظہر کے سپرد کردیا گیا۔ حماد اظہر ایک سابق گورنر کے بیٹے ہونے کے علاوہ خاصے پڑھے لکھے ، نوجوان اور '' باصلاحیت '' شخص ہیں مگر ابھی نوخیز اور ناتجربہ کار ہیں۔ ان کی کارکردگی پر گفتگو سے قبل اس تبدیلی کے پس منظر کا ذکر ہو جائے۔

وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل فرمایا تھا کہ اب ہندوستان سے تعلقات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ بہتری کا اقدام بھارت کی طرف سے ہو۔چنانچہ 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر مودی جی نے وزیر اعظم کو پیغام بھیجا جس میں پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس رسمی پیغام کو بھارت کی طرف سے دوستی میں پہل کرنے کی سعی قرار دے لیا گیا اور پھر وہ اقدامات کیے گئے جن کی معنویت اس اقدام کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔یہی پیغام دوستی حفیظ شیخ کی رخصتی اور حماد اظہر کی جلوہ افروزی کا سبب بنا۔ اب چونکہ بھارتی وزیر اعظم نے ہمارے لیے نیک خواہشات کا اظہار کردیا اور یہی ہمارے لیے کافی تھا چنانچہ حماد اظہر صاحب نے آتے ہی اس بڑھتے ہوئے دوستی کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا۔

وزارت کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد انھوں نے جو پریس کانفرنس کی اس میں فرمایا کہ ہم بھارت سے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کر رہے ہیں کیونکہ بھارت سے ہمیں چینی سستے داموں مل رہی ہے اس طرح ہم چینی کی قیمت کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انھوں نے یہ خوش خبری بھی دی کہ ہم بھارت سے کپاس بھی برآمد کریں گے۔

انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ بعض اوقات مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔گویا ہتھیار ڈالنے کو بھی مشکل فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس وقت بھارت نے کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے لیے دستور کی دفعہ 370 اور شق 35اے کو ختم کرکے کشمیر کی رہی سہی آزادانہ حیثیت کو یکسر ختم کر دیا ہے اور خود وزیر اعظم پاکستان یہ کہہ چکے تھے کہ جب تک یہ اقدام واپس نہ لیے جائیں بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

بھارت نے نہ اپنا کوئی اقدام واپس لیا ہے نہ اس کی یقین دہانی کرائی ہے اس کے باوجود سستی چینی اور کپاس کی خریداری کے کیا معنی ہیں۔ کیا ہم نے بھارتی اقدام کو درست تسلیم کرلیا ہے اور کشمیر کو طشتری میں رکھ کر بھارت کے حوالے کردیا ہے اور اب ہم سستی چینی اور سستی کپاس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

یہ اقدام خود حکومت کے اس موقف کی نفی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ جب تک بھارت حالیہ اقدامات یعنی دفعہ 370اور شق 35 اے کو واپس نہیں لیتا اس سے کوئی گفتگو نہیں کی جائے گی۔ مگر حکمران یوٹرن لینے پر مجبور ہیں انھوں نے اپنے تمام بیانات کے برخلاف یہ سارے اقدامات محض سستی چینی اور سستی کپاس خریدنے کے لیے کیے اور یہ بھی نہیں سوچا کہ مودی کا رسمی نیک خواہشات کا اظہار دوستی کا کوئی اقدام نہیں ایسے بیانات تو بدترین دشمن بھی ایسے مواقع پر ایک دوسرے کے لیے دیتے رہتے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم پوری طرح مایوس ہوچکے ہیں اور کشمیر کی آزادی اب ہمارے لیے ایک بے معنی چیز ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر اس کی کوئی اہمیت ہوتی تو ہم ثابت قدمی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے اور بھارت کو اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاتے۔ ٹھیک ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں مگر ہتھیار پھینک کر امن کی بین بجانا بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔اب سالوں بعد بھارت کے ایک ان پڑھ کسان کا دو فقری تبصرہ کہ قبضہ سچا ، دعویٰ جھوٹا بڑا بامعنی نظر آتا ہے۔ ذلت کے ساتھ امن کو وابستہ کرنا کہاں کی دانش مندی ہے اگر امن کی یہی قیمت دینی ہے تو اناللہ پڑھ لینا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔