حکومتی کمزور پالیسی
پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی ذمے داری براہ راست حکومتی حکام پر عائد ہوتی ہے۔
کورونا کی تیسری لہر برطانیہ سے پاکستان پہنچی۔ اس لہر نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بوڑھوں کے علاوہ نوجوانوں اور بچوں کو متاثرکیا، یوں گزشتہ سال کورونا سے متاثر ہونے کے بعد اس وباء کی شرح پہلی دفعہ 20فیصد کے قریب پہنچ گئی۔
برطانیہ سے آنے والے تیسرے وائرس سے بچے بھی متاثر ہوئے اور متعدد بچے جاں بحق بھی ہوئے۔ پاکستان نے فوری طور پر برطانیہ سے آنے والے مسافروں پر بندش کے لیے لندن سے آنے والی فلائٹس پر پابندی عائد نہیں کی لیکن برطانیہ نے پاکستان سے آنے والی فلائٹس پر پابندی لگا دی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج کو محسوس کیا۔ 2013ء میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کی تو ایک بلین درخت لگانے کا ٹارگٹ طے کیا۔خیبر پختونخوا کی حکومت نے درختوں کی کٹائی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے۔
عمران خان نے ٹمبر مافیا کے خلاف فوری اقدامات کا حکم دیا جس کے نتیجے میں سوات اور دوسرے علاقوں میں اس مافیا کے خلاف سخت کارروائی عمل میں آئی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اربن فورسٹ کی حوصلہ افزائی کی اور جدید طریقے سے درخت لگانے کا عمل رائج کیا۔
صنعتی فضلہ کو بحیرہ عرب میں ڈالنے کے عمل کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے،مگر حیرت انگیز صورت اس طرح رونماہوئی جب امریکا کے نو منتخب صدرجو بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر ہونے والی ایک بین ا لاقوامی کانفرنس کا اعلان کیا جس میں ایشیا اور افریقہ کے متعدد ممالک کے سربراہوں کو بلایا۔ اس خطے میں بھارت کے علاوہ سری لنکا، بھوٹان کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس امریکی فیصلے پر دکھ کا اظہار کیا۔ ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے ماحول کے تحفظ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں مگر امریکی حکومت کا رویہ افسوس ناک ہے۔ چند ماہ قبل جب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کا معاملہ آیا تو بھارت سے زیادہ فرانس نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس سے قبل فرانس نے صدر عارف علوی کے بیان پر سخت خفگی کا اظہار کیا تھا۔
برطانیہ نے پاکستان سے آنے والی پروازوں پر پابندی کا اعلان کیا تو پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ نے اس قدم کو امتیازی سلوک قرار دیا اور امریکا کو بھی پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک پر بھی ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔امریکا میں پاکستانی کمیونٹی نے بھی امریکا کے اس سلوک کو جانبدارانہ قرار دیا جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کی تو ایران اور ترکی نے پاکستان کے موقف کی بھر پور تائید کی۔
ترکی کے صدر نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں مسلسل لاک ڈاؤن کو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی قرار دیا۔ پاکستان کے قریبی مسلم ممالک نے بھارت کے اس عمل کی مذمت کرنے کے بجائے بھارت سے اربوں ڈالر ز کے نئے تجارتی معاہدے کیے تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک بڑی لابی پاکستان کے خلاف متحرک رہی ہے۔ یہ اتنی مضبوط ہے کہ امریکا اور یورپ کے ذرایع بلاغ پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے اور پاکستان کے تشخص کو خراب کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یوں یورپ اور امریکا کی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے اور بعض ماہرین اس صورتحال کو پاکستان کی پسماندگی سے منسلک کرتے ہیں۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں پنجاب اور آزاد کشمیر سے ہزاروں افراد برطانیہ گئے اور برطانیہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانیوں نے کوئلے کی کانوں، پبلک ٹرانسپورٹ، ٹیکسٹائل کے شعبوں میں اہم کردارادا کیا اورپاکستانیوں نے دوسرے ممالک میں بھی سخت محنت کی۔
پاکستانی ڈاکٹروں نے برطانیہ کے صحت کے شعبے میں اہم کردار ادا کیااور اس وقت بھی یہ ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی نژاد برطانوی شہری پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور اس وقت لندن کے میئر صادق خان کا تعلق بھی پاکستانی کمیونٹی سے ہے۔ صادق خان نے وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ کے بھائی کو اس الیکشن میں شکست دی تھی۔
اسی طرح امریکا میں بھی پاکستانی پروفیشنلز خاصے فعال ہیں۔ وہاں بھی پاکستانی ڈاکٹر صحت کے شعبے میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہ امریکا میں پاکستان کے بیانیے کی تشہیر کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیںمگر اس تمام صورتحال کے تجزیئے سے ایک نکتہ اور سامنے آتا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ امریکا اور یورپ میں اپنے بیانیے کی تشہیر میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اس موقع پر ایک اور خیال ابھرتا ہے کہ شاید پاکستانی بیانیہ میں کچھ نقائص پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ ماضی میں تو پاکستان کے موقف کی خوب تائید کی جاتی تھی۔
بہت سے پاکستانی صحافی بار بار لکھتے ہیں کہ پاکستانی سفارت خانوں کے آفیسران شاہانہ مزاج رکھتے ہیں۔ نہ وہ اپنے ہم وطنوں کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہوتے ہیں اور نہ اپنے ملک کے بیانیے کی تشہیر کرتے ہیں۔ان کا زیادہ تر وقت اپنے خاندان کے افراد کو امریکا اور یورپی ممالک کی شہریت دلانے اور دوسرے قسم کی سرگرمیوں میں گزرتا ہے۔
پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی ذمے داری براہ راست حکومتی حکام پر عائد ہوتی ہے۔وہ روز جو دعوے کرتے ہیں حقائق ان کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ بہرحال کوئی بھی وجہ ہو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں سفارتی طور پر تنہائی کا شکار ہوا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان ایک زمانے میں برطانیہ کی مقبول شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے برطانیہ کے امراء کے خاندانوں سے اچھے تعلقات تھے۔ اس بنا پر یہ تصور کیا جاتا تھا کہ پاکستان کے بیانیے کو بہت زیادہ پذیرائی ہوگی مگر پاکستان کے بیانیے کا جو رد عمل سامنے آیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری صورتحال کے پس پشت محرکات کا جائزہ لیا جائے۔ اداروں کی تنظیم نو کی جائے اورایسا بیانیہ تشکیل دیا جائے جسے امریکا اور یورپ میں پذیرائی حاصل ہو اور پاکستان کی تنہائی ختم ہو۔