ہوا نے دیکھ لیے ہیں چراغ سب میرے
آپ نے ’پل ِصراط کا سفر‘ کے عنوان سے ناول بھی لکھا جس نے قارئین میں کافی مقبولیت حاصل کی۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہم ہی سوگئے داستان کہتے کہتے
نامور ڈرامہ نگار حسینہ معین، ایک چراغ اور بجھا، ہر چراغ کو بجھنا ہے مگر غم اس وقت شدید ہو جاتا ہے جب اس کو ابھی بجھنا نہیں تھا۔ ان کے لیے یہ لکھنا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، کچھ ناقابل یقین سا لگتا ہے۔
آپ 20 نومبر 1941 کو بھارت کے شہر کانپور (یوپی) میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد معین الدین آرمی سے وابستہ تھے۔ تقسیم ہندکے بعد انھوں نے اپنا ٹرانسفر پنڈی (ہیڈ کوارٹر) کرالیا تھا، پھر جلد ہی آپ کا گھرانہ لاہور منتقل ہو گیا، جہاں آپ نے لاہور ماڈل ٹاؤن اسکول سے میٹرک پاس کیا، پھر 1950میں آپ کا گھرانہ کراچی آ گیا، آپ پانچ بہنیں تین بھائی تھے جن میں آپ کا نمبر چوتھا تھا۔ آپ کا بچپن مسخرا پن، کھیل تماشے کرتے گذرا جس پر آپ کو ڈانٹ بھی پڑھتی۔ آپ کے گھرانے میں دیانت داری انتہا پر تھی۔
آپ کو بچپن سے ہی لکھنے کا بہت شوق تھا آپ نے بچوں کے ماہانہ رسالے ''بھائی جان'' میں بھی لکھا۔ 1960میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے گریجویشن کی۔ کراچی آمد کے فورا بعد آپ کی رہائش دو کمروں کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ہوئی، بہرحال وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اس لیے انھوں نے صبر کیا اور ہمت سے کام لیا۔ بچوں کے اخبار سے آپ نے لکھنے کا آغاز کیا پہلے پہل چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھیں پھر کالج کے وال پیپر میگزین میں لکھنا شروع کیا۔ آپ اپنے کالج کے زمانے کو اپنا سنہرادور گردانتیں۔
جب آپ سکینڈ ایئر میں تھیں تو ریڈیو پاکستان سے ایک ڈرامہ نویسی کے مقابلے کے پروگرام کا دعوت نامہ آپ کے کالج آیا، آپ کی اردو کی پروفیسر جو کہ معروف نقاد ڈاکٹر شان الحق حقی کی اہلیہ تھیں سلمی آپا کے اصرار پر آپ نے اس مقابلے میں حصہ لیا، جس پر آپ کے کالج کو ایوارڈ ملا اس ڈرامے کو آغا ناصر نے پروڈیوس کیا، زندگی کے ہر رنگ سے بھرپور اس ڈرامے کو دیکھ کر کسی کو یقین نہ آیا کہ یہ ایک کالج کی طالبہ نے لکھا ہے جس کی وجہ سے آغا ناصر کی نوکری تک پہ بات آ گئی۔
آغا ناصر، رضی اختر شوق اور ذاکر حسین اس بات کی تصدیق کے لیے آپ کے کالج آئے اور جب انھیں آپ کی باتوں سے یقین ہو گیا کہ یہ ڈرامہ آپ نے ہی اس کم عمری میں لکھا تو انھوں نے ہفتہ وار پروگرام 'اسٹوڈیو نمبر نو' کے لیے دس بارہ ڈرامے دو سال کے اندر آپ سے لکھوائے۔ 1963 میں کراچی یونیورسٹی سے جنرل ہسٹری میں آپ نے ماسٹرز کیا، جامعہ کے جن اساتذہ سے آپ فیضِ یاب ہوئیں ان میں صدر شعبہ ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر ریاض، Dr.Narshey، ڈاکٹر چوہدری، ڈاکٹر رحیم بنگالی تھے بقول آپ کے یہ علم کا خزانہ تھے اور اپنے اپنے مضامین پر پورا عبور رکھتے۔
یونیورسٹی کا دور مکمل ہونے کے بعد ٹی وی کراچی آیا تو آغا ناصر صاحب کی فرمائش پر آپ نے ایک کامیڈی کھیل "Happy Eid Mubarak" تحریر کیا۔ 13 جنوری 1972 کو آپ کے والد رحلت فرما گئے جس کے تقریبا دس دن بعد عید تھی اور عید پر آپ کا یہ کھیل آن ایئر ہوا لیکن اس سانحے کی وجہ سے آپ نے دیکھا ہی نہیں تھا، افتخار عارف کا فون آیا کہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا جس پر اس زمانے میں ایم ڈی پی ٹی وی اسلام آباد سے آئے اور دو دو سو روپے کے لفافے ڈرامے سے متعلق تمام لوگوں کو دیے جس سے تقریبا پندرہ سال تک آپ نے سنبھال کر رکھے اور پھر پی ٹی وی میں کنور صاحب نے حسینہ معین سے کہا کہ '' بی بی آپ لکھنا شروع کر دیجیے.
عظیم بیگ چغتائی صاحب کی کتاب آپ کو دی سیریل چھ اقساط کی بنانی تھی اور کتاب میں کہانی صرف 13 صفحوں کی، پہلی ہی سیریل 'شہزوری' بے انتہا کامیاب رہی اور پھر تو جیسے لائن لگ گئی زیر زبر پیش، پی ٹی وی کی پہلی اوریجنل سیریل 'کرن کہانی' انکل عرفی، بندش، دھند، پرچھائیاں، رومی، نیا رشتہ، ان کہی، تنہائیاں، دھوپ کنارے، آہٹ، کہر، پڑوسی، آنسو، آئینہ، بالائے جان، کسک، پل دو پل، دیس پردیس، تان سین، میرے درد کو جو زبان ملے، تم سے مل کر اور دیگر شامل ہیں تقریبا 50 کے قریب ٹی وی سیریلز ڈرامے لکھے۔
پی ٹی وی کا ایک ڈرامہ نویسی کا مقابلہ پانچوں اسٹیشنز کا ہوا جس میں آپ کے تحریر کردہ ڈرامے کو شیریں خان نے ڈائرکٹ کیا جس پر آپ کو، کراچی اسٹیشن کو اور ڈرامے کے مرکزی کرداروں کو بھی ایوارڈ ملا۔ ریڈیو کا ہی ایک مقبول ڈرامہ 'بھول بھلیاں' کراچی ٹی وی کے اسلم صاحب کی فرمائش پر آپ نے 1969میں 'نیا راستہ' کے عنوان سے کیا اور غالباً یہاں ہی سے آپ کے ٹی وی کیریئر کا آغاز ہوا۔ آپ کی ڈرامہ سیریل 'دھوپ کنارے' کو پڑوسی ملک میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
آپ شعبہ تعلیم سے بھی بحیثیت 'مدرس' وابستہ تھیں اور تقریبا تیس سال سے زائد عرصے کے بعد صدرِ مدرس کی حیثیت سے فضل الرحمن گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول سے سبکدوش ہوئیں۔ دورانِ طالبعلمی آپ نے جو تحریریں پڑھیں اس میں 'عورت' کو مظلوم بتایا جاتا جس کی اپنی کوئی رائے نہیں، جو ہر وقت صرف ایک ایثار و قربانی کا پیکر بن کر گھر بھر کی ہمہ وقت خدمت میں لگی رہے جس سے شدید اختلاف کرتیں اس لیے آپ نے اپنے ڈراموں سے 'عورت' کو مضبوط کیا۔ آپ کا ڈرامہ 'پرچھائیاں' باقاعدہ دوسرے ممالک خاص کر پڑوسی ملک میں بطور تربیت ٹریننگ کے اداروں میں کورس کی حیثیت رکھتا ہے۔
آپ نے فلموں کے لیے بھی مکالمے لکھے، جن میںیہاں سے وہاں تک میں وحید مراد نے مرکزی کردار ادا کیا، نزدیکیاں میں عثمان پیرزادہ، کہیں پیار نہ ہو جائے جاوید شیخ کے لیے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں راج کپور کی شدید فرمائش پر 'حنا' کے مکالمے لکھے جو 1991 میں پیش کی گئی۔ 1987 میں انھیں پرفارمنگ آرٹس کی خدمت پر تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ دہلی سے چندا نارنگ نامی خاتون کے اصرار پر ایک سیریل لکھی جو دور درشن پر پیش کی گئی اس کا نام 'کشمکش' تھا، دور درشن پر آج تک کسی پاکستانی کا نام نہیں آیا اور آپ کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ مسلسل تیرہ ہفتے آپ کا ڈرامہ وہاں چلتا رہا جو کہ Ranking میں نمبرون بھی رہا۔
آپ نے 'پل ِصراط کا سفر' کے عنوان سے ناول بھی لکھا جس نے قارئین میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ چھاتی کے سرطان کی آگہی کے حوالے سے امریکا کی ڈائس فاؤنڈیشن کے زیر ِاہتمام ڈرامے کے لیے آپ نتھیا گلی گئی ہوئی تھیں اسے مصباح اسحق ڈائریکٹ کر رہی ہیں جو شاید اگلے ماہ آن ایئر ہو گی۔ آپ اپنے چھوٹے بھائی ڈاکڑ عزیز کے ساتھ نارتھ ناظم آباد میں رہائش پذیر تھیں۔ لاہور کام کے لیے جانے کی تیاری کر رہی تھیں کہ اچانک دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور یوں ڈرامہ نگاری کا ایک نایاب عہد تمام ہوا۔ اردو زبان اور ڈرامہ نویسی پر آپ نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔