جواب ضرور ملے گا
کیمرون کی کہاوت ہے ’’وہ جو سوال پوچھتا ہے اسے جواب ضرور ملتا ہے‘‘۔۔۔
STANFORD:
کیمرون کی کہاوت ہے ''وہ جو سوال پوچھتا ہے اسے جواب ضرور ملتا ہے''۔ دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے ایک یہودی کو جرمنوں نے اس کے خاندان سمیت گرفتار کرلیا، اسے باقیوں کی طرح ٹرین میں ٹھونس کر بیگار کیمپ لے جایا گیا، اس بدنصیب شخص نے اپنی بیوی بچوں کو مرتے دیکھا، انھیں زہریلی گیس کے ذریعے سے ہلا ک کیا گیا تھا، وہ دوسرے قیدیوں کی طرح دن رات کام کرتا ہوا موت کی جانب بڑھ رہا تھا، اسے جب نیند آتی اسے خواب میں اپنے خاندان کی موت کا منظر دکھائی دیتا، وہ ہڑبڑا کر بیدار ہوجاتا اور چیخنے لگتا۔ اس خواب نے اسے اتنا پریشان کردیا تھا کہ وہ نیند سے ڈرنے لگا تھا، آخر میں اس نے ایک فیصلہ کرلیا، وہاں سے بھا گنے کا۔ اس کے ذہن میں سما گیا تھا کہ اس خواب سے بچنے کی اب ایک صورت ہے کہ اس جہنم سے بھاگ لیا جائے، مگر کیسے؟ وہ یہ سوال اپنے آپ سے کرتا اور اپنے ساتھیوں سے بھی۔
اسے ایک ہی جواب ملتا ''ناممکن'' خدا سے دعا کرو اور صبرکرو۔ لیکن وہ ان تمام تر مایوس کن باتوں کے اس سوال کے جواب میں رہا کیسے ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ پوچھتے ہیں تو جواب ضرور ملے گا، ایک روز ایسا ہوا کہ یہ شخص لاشوں کے ٹرک کے قریب مشقت میں جتا ہوا تھا، گلی سٹری لاشوں سے ناقابل برداشت تعفن اٹھ رہا تھا، اس نے بڑے غم اور تکلیف سے ان بدنصیب لوگوں کی لاشوں کو دیکھا جنہیں آج ہی گیس کے ذریعے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک سوال ابھرا، کیا میں ان میں چھپ کر یہاں سے فرار ہوسکتا ہوں۔ اب فوراً ہی اسے جواب مل گیا کہ ہاں ایسا ممکن ہے بس ہمت کی ضرورت ہے۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا، جوں ہی دن ختم ہوا وہ اپنے ساتھی قیدیوں اور پہرے داروں کی نظروں سے بچ کر اس ٹرک میں داخل ہوگیا۔
یہ لاشیں بالکل برہنہ تھیں، ان کے جسم سے ہر چیز اتار لی گئی تھی، اس نے بھی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کرلیا اور تعفن کے ڈھیر میں گھس گیا۔ آدھی رات کو اس ڈھیر میں اور لاشیں پھینکی گئیں۔ آخرکار ٹرک روانہ ہوا، ٹرک کو کیمپ سے کافی فاصلے پر ایک بہت بڑے گڑھے کے پاس روک دیا گیا تھا، تھوڑی دیر بعد ڈرائیور اور اس کے ساتھی چلے گئے، ان لاشوں کو صبح بلڈوزر سے اس گڑھے میں پھینکا جانا تھا، اس نے تھوڑی دیر انتظار کیا، ہر طرف ہو کا عالم تھا، اب وہ اس ڈھیر سے نکلا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ ایسا کیوں ہوا تھا، اس میں اور ان لوگوں میں کیا فرق تھا جو اس کیمپ میں پڑے رہ گئے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اس نے الگ سوال پوچھا تھا اور بار بار پوچھا تھا۔ اس کا ذہن برابر اس کے جواب کی ٹوہ میں تھا اور آخرکار اسے جواب مل گیا تھا۔ بہت پرانی کہاوت ہے وہ جو کبھی نہیں پوچھتا کبھی نہیں پاتا۔
نطشے نے کہا ہے، جس کی پاس ایک مضبوط ''کیوں'' ہے، وہ ہر قسم کے ''کیسے'' سے نمٹ سکتا ہے۔ تھامسن ایڈیسن ایک ایسا شخص تھا جس کو اس دنیا میں کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں سب سے زیادہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے اپنی غلطیوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ علم ہوا اور اپنی بے شمار غلطیوں کے متعلق ہونے کے باعث اس نے کسی بھی دوسرے شخص کی نسبت زیادہ کامیابیاں حاصل کرلیں۔ اس نے 1093 ایجادات کیں، جب اسے اپنے تجربات کی طرف سے اسے نہیں پر مشتمل جواب ملا تو اس نے فوراً پوچھا کیوں۔ اور جب اسے کیوں کے متعلق علم ہوگیا تو وہ اپنے تجربات میں کامیاب ہوگیا۔ شاید کسی شخص نے بھی اس قدر محنت نہیں کی ہوگی اور کسی بھی شخص کے راستے میں اس قدر مشکلات اور رکاوٹیں نہیں آئی ہوں گی جتنا کچھ پولینڈ کی رہنے والی اس غریب اور بے چاری لڑکی کے ساتھ آئیں جو بعد میں انسانیت کے لیے نہایت ہی عظیم ترین محسن اور مربی ثابت ہوئی۔
اسے تعلیم حاصل کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ وہ بالائی منزل پر ایک ایسے کمرے میں رہنے کے لیے رضامند اور آمادہ تھی جس میں نہ کوئی کھڑکی تھی، نہ گیس، نہ بجلی اور نہ ہی گرمائش کا کوئی انتظام تھا۔ تمام موسم سرما وہ صرف کوئلوں کے دو تھیلے ہی خرید سکتی تھی، اسے اس قدر کم خوراک میسر تھی کہ بعض اوقات وہ بھوک کے باعث بے ہوش ہوجایا کرتی تھی، بالآخر وہ دنیا کی سب سے عظیم ترین خاتون سائنس دان بن گئی، اس نے کامیابی حاصل کرلی، اس نے دو دفعہ نوبل انعام جیتا، ایک دفعہ طبیعات میں اور دوسری دفعہ کیمیا میں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اور اس کے شوہر نے ایک نیا عنصر ریڈیم دریافت کیا، اور پھر سائنس، طب اور تمام کائنات میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ اس کا نام مادام کیوری تھا۔
ہر ناکامی کے بعد اس کا ایک ہی سوال ہوتا تھا کیوں۔ اور پھر اسی کیوں نے اسے عظیم کامیابی سے ہمکنار کردیا۔ نیوٹن، قائداعظم، سقراط، ارسطو، افلاطون، کوپرنیکس، فرینکلن، لوئی پاسچر اور دیگر نے اپنے آپ سے سوال کیے اور ان کو جواب مل گئے۔ یورپ، امریکا، برطانیہ کے عوام نے اپنے آپ سے سوال کیے اور ان کو خوشحالی، ترقی، کامیابی کی صورت میں جواب مل گئے جب کہ ہم اس قدر وحشت زدہ قوم بن گئے ہیں کہ ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور سوال کے نام سے بھی کانپنے لگتے ہیں۔ ہر ظلم، ناانصافی، زیادتی کے آگے اندھے گونگے اور بہرے بن چکے ہیں۔ آخر ہم کیوں نہیں سوچتے اور کیوں اپنے آپ سے سوال نہیں کرتے کہ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں کیوں ہے؟ پاکستان کے عوام اتنے غریب، مفلس، لاچار، بے اختیار، بے بس اور مظلوم کیوں ہیں؟ پاکستان میں اتنی کرپشن، لوٹ مار، بے ایمانی، دھوکا دہی، ملاوٹ، فراڈ کیوں ہے؟ پاکستان میں غنڈوں، بدمعاشوں، لٹیروں کی بدمعاشی کیوں ہے؟ پاکستان میں بنیاد پرستوں، رجعت پرستوں، قدامت پرستوں کی بادشاہت کیوں قائم ہے؟ ترقی پسندی، سیکولر ازم، روشن خیالی کفر کے زمرے میں کیوں آتی ہے؟ پاکستان میں دہشت گردی، بدامنی کیوں ہے، انتہاپسندی کا راج کیوں قائم ہے؟ پاکستان کے عوام بجلی، گیس، پانی کی سہو لتوں سے کیوں محروم ہیں؟ پاکستان کے عوام تعلیم، صحت کی سہولتوں کے لیے کیوں ترستے پھرتے رہتے ہیں؟ پاکستان میں کوئی بھی کام رشوت، کمیشن کے بغیر کیوں نہیں ہوتا؟ پاکستان کے نوجوان کیوں بے روزگار مارے مارے پھر رہے ہیں، پاکستان کے لوگ آخر کیوں خودکشیاں کررہے ہیں؟ آخر ہم ہر ظلم، ناانصافی، زیادتی کے آگے کیوں اندھے، گونگے، بہرے بنے ہوئے ہیں؟ ہم کیوں اتنے بزدل ہوگئے ہیں؟ اگر انسان غور کرے تو دنیا کی ہر چیز سے عمل و ہمت کا نعرہ سنائی دیتا ہے، زنگ زدہ ہو کر گل جانے سے یہ بدرجہا بہتر ہے کہ انسان جدوجہد کرتے کرتے فنا ہوجائے۔ کامیابی ہر شخص کی منتظر ہے، جیت جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، کامیابی کی تمام داستانیں عظیم ناکامی کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ واحد فرق یہ ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ ناکام ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر کو شش کرتے ہیں۔ قسمت اتفاقی معاملہ نہیں ہے، یہ انتخاب کا معاملہ ہے، اس کا انتظار نہیں کیا جاتا، اسے تو حاصل کیا جاتا ہے۔ ہارنا جرم نہیں ہے لیکن کوشش نہ کرنا جرم ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اپنے نصیب بدلنے کی کوشش کریں۔