البصیر و التجلی کی مشقیں
ہندوستان میں متعدد ایسے افراد گزرے جو توجہ کی قوت سے چیزوں کو ہوا میں معلق کردیتے تھے۔۔۔
KARACHI:
کبھی آپ نے ''آتشیں شیشے'' کا تجربہ کیا ہے؟ جسے ہم محدب عدسہ بھی کہتے ہیں۔ آتشیں شیشے کے ذریعے سورج کی شعاعیں کسی کاغذ یا کپڑے پر ڈالی جاتی ہیں اور اس میں آگ لگ جاتی ہے۔ جس طرح سورج کی کرنوں کا اجتماع دوسری چیزوں میں آگ لگا سکتا ہے، کیا اس طرح خیال کی لہریں ایک نقطے پر جمع ہو کر آئینے میں شگاف نہیں ڈال سکتیں، خیال کی لہروں کو طاقت ور بنانے کے لیے توجہ کا ایک نقطے سے چپک جانا اور چمٹ جانا ضروری ہے، جوں ہی توجہ کسی ایک نقطے سے چپک اور چمٹ جاتی ہے، خیال کی قوی اور برقی طاقت رکھنے والی لہریں دماغ سے خارج ہونے لگتی اور حیرت انگیز واقعات ظہور میں آنے لگتے ہیں۔ مشہور گلوکار و غزل سرا مہدی حسن مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ چند بار ایسا ہوا کہ موسیقی کی محویت میں گاتے گاتے ان کے سحرِ نغمہ سے گلاس ٹوٹ ٹوٹ گئے۔
ہندوستان میں متعدد ایسے افراد گزرے جو توجہ کی قوت سے چیزوں کو ہوا میں معلق کردیتے تھے، ایک صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ پتھر پر نظریں جمائیں تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ اور ہندوستان ہی کیا دنیا میں ایسے بے شمار لوگ موجود تھے اور ہیں، جو اپنی توجہ سے مافوق الفطرت مظاہر کے مرتکب ٹھہرے۔ استاد تان سین سے کون واقف نہ ہوگا جو اپنے دیپک راگ سے پانی میں آگ لگا دیا کرتے تھے تو راگ ملہار سے آسمان سے پانی برس جایا کرتا تھا۔ درحقیقت ارتکاز توجہ سے خیال کی لہریں ایک سمت میں بڑی طاقت سے بہنے لگتی ہیں اور یہیں سے ٹیلی پیتھی (اشراق) کا میکانزم حرکت میں آتا ہے۔
نظر کی اہمیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ خیال کی گولی کے لیے بندوق کی نالی کا کام دیتی ہے، جس طرح بندوق کی نالی سے گولی بڑے زناٹے سے گزرتی ہے، اسی طرح نظر کی وساطت سے خیال کی لہریں پوری قوت سے مشہود سے ٹکراتی ہیں اور وہ کچھ ظہور میں آتا ہے جس کا بیان بھی امکان سے باہر ہے۔ ایک عام تجربہ آپ بھی کرسکتے ہیں کہ کسی بھی پبلک مقام پر ایک اجنبی شخص جو اپنے کام میں منہمک ہو، اس کی گردن یا دماغ کی پشت پر اپنی نظریں جما دیں اور تصور کریں کہ آپ کے خیال کی لہریں نگاہوں کے ذریعے اس کے دماغ میں اتر رہی ہیں، اب ان لہروں کے ساتھ یہ پیغام بھیجیں کہ وہ آپ کو پلٹ کر دیکھے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ شخص بے چین ہوجائے گا اور اپنے کام سے توجہ ہٹا کر آپ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائے گا۔
ارتکاز توجہ کی مشقوں میں ''البصیر'' کی مشق خصوصیت کے ساتھ مشاہدے کی تربیت کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مشق تنفس نور کے پانچ یا سات چکر کرنے کے بعد، اسی آرام دہ نشست میں بیٹھے بیٹھے کمر، گردن اور پشت کو ایک سیدھ میں لاکر آنکھوں کو ناک کی نوک پر گاڑ دیں اور نظریں مرکوز کرنے کے بعد یہ تصور کریں کہ ناک کی نوک سے روشنی نکل رہی ہے۔ شروع شروع میں یہ مشق نظروں کو بری طرح تھکا دیتی ہے اس لیے تعمیر و تنظیم شخصیت و کردار سازی کے طالب علموں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کسی استاد کی نگرانی میں یہ مشقیں کریں تاکہ وہ طالب علم کی اعصابی، دماغی اور جذباتی کیفیت کا جائزہ لے کر یہ تجویز کرسکے کہ مشق کس وقت سے کس وقت تک کرنی چاہیے۔ میں اپنے دوستوں کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ اندازاً دس پندرہ سیکنڈ سے البصیر شروع کرکے رفتہ رفتہ اس کی مدت 45 منٹ تک بڑھا دیں۔ مدت میں اضافہ بھی طالب علم خود نہیں کرسکتا۔ البصیر کی مشق سے دماغی غدہ بلغمی حرکت میں آجاتا ہے جسے علمائے قدیم ''مرکز روح'' تصور کرتے تھے۔
ہر روز مشق البصیر کے بعد آنکھوں کے ڈھیلوں اور پپوٹوں کو آرام دینے اور تھکن دور کرنے کے لیے آنکھیں بند کرلیں اور داہنی آنکھ کی پتلی کو پہلے داہنی طرف اور پھر بائیں طرف موڑیں اور نیچے اوپر پھرائیں۔ اس کے بعد بائیں آنکھ کی پتلی کو پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف موڑیں اور نیچے اوپر گردش دیں۔ یہ عمل چند سیکنڈ تک ضرور کرنا چاہیے۔ یہ طریقہ آنکھوں کی ورزش اور اعصاب بصر کو مضبوط کرنے کی بہترین مشق ہے۔ البصیر کا مقصد بھی استغراق کی حالت پیدا کرنا ہے اور استغراق اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب نہ صرف نظریں ناک کی نوک پر چپک جائیں بلکہ توجہ کی ساری قوت بھی اسی ایک نقطے پر مرکوز ہوجائے۔ التجلی کی مشق تصوف کی اصطلاح میں ''شعل محمود انصیرا'' اور راجیہ یوگ میں ''اگنا چکرتا'' کہلاتی ہے، ذرا سے فرق کے بعد جسے صرف ایک استاد ہی سمجھ سکتا ہے۔ یہ مشق بھی کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے طلبا سے قوت ارادی کی ترقی، خود اعتمادی، دماغی مضبوطی اور نفسیاتی صحت مندی کے لیے کرائی جاتی ہے۔
اس کی شرائط بھی وہی ہیں جو التصویر (بلور بینی یا گلاس کی مشق) اور البصیر کی، یعنی پرسکون خلوت گاہ، مقررہ وقت، مشق تنفس نور یا متبادل طرز تنفس کے پانچ یا سات چکر اور آرام دہ نشست۔ کمر، گردن اور پشت کو ایک سیدھ میں کرلیں، آنکھوں کی پتلیوں کو ماتھے کی طرف چڑھا لیں اور دونوں نظریں ناک کی جڑ (دونوں بھنوؤں کے درمیان) پر مرکوز کردیں۔ پلک نہ جھپکانے کی شرط تو بہرحال عائد ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ تصور کریں کہ دماغ کے اندر تیز چمکدار برقی قمقمہ روشن ہے۔ میں غدہ بلغمی (دماغ کے وسط میں واقع ہے) کے نزدیک غدہ صنوبری کا ذکر کرچکا ہوں۔ غدہ بلغمی کو گہوارۂ روح اور غدہ صنوبری کو ''تیسری آنکھ'' تصور کیا جاتا ہے۔ اس مشق سے کشف کی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اور بعض اوقات زمان و مکان کے حجابات تک اٹھ جاتے ہیں۔ التجلی کی مدت کا تعین بھی صرف ایک ماہر فن ہی کرسکتا ہے۔ التجلی کے بعد بستر پر چت لیٹ جائیں اور جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر آنکھیں بند کرلیں۔ پھر وہی تصور قائم کریں کہ وسط دماغ میں ''برقی قمقمہ'' روشن ہے، اس کے ساتھ دل و دماغ میں اس فقرے کو دہراتے یا گردش کراتے رہیے کہ:
''میرے اندر بھی نور ہے، باہر بھی، جسم میں بھی نور ہے جان میں بھی اور میں رفتہ رفتہ ہمت، طاقت، مسرت اور صحت کا پیکر بنتا چلا جارہا ہوں۔''
یہ تلقین دہراتے دہراتے سوجائیں۔ چونکہ اس مشاہدے یا مشق سے دماغ کی نورانیت جاگتی ہے اور غدہ بلغمی و صنوبری کے روشن ہوتے ہی تجلیات کی بارش شروع ہوجاتی ہے اس لیے اس مشق کو التجلی کہا جاتا ہے۔
اور آخر میں ایک بار پھر اپنے الفاظ دہراتے چلیں کہ ان کالموں میں دی گئی مشقوں کے لیے ہمارے روحانی استاد رئیس امروہوی مرحوم کی کتابوں سے مدد لی جارہی ہے۔ یہ کالم خلق عامہ کی بھلائی اور علم کے لیے کسی بھی قسم کے ذاتی مفاد سے قطع نظر پیش کیے جارہے ہیں۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)