ابا جی… درد تھمتا ہی نہیں
تین بیٹوں کے باوصف ابا جی ہمیشہ مجھے بیٹا کہتے تھے… بیٹا بھی نہیں بلکہ اپنا شیر بیٹا۔۔۔
21 نومبر 1927۔ 4 جنوری 2014
اس وقت پورا گاؤں اور اس کے گرد و نواح کے درجنوں دیہات کے لوگ امڈے پڑ رہے تھے... میری دھندلی نظروں کو کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا کہ کون مجھ سے ملا، کس نے مجھے لپٹا لیا، کس نے مجھے پکڑ کر کہاں بٹھا دیا اور کون کیا کہہ رہا ہے۔ میں اس وقت غم کے اس اتھاہ سمندر میں تھی جس میں میرا پورا خاندان غوطے کھا رہا تھا۔ چشم فلک نے اور ان لوگوں میں سے کئی نے بیسیوں برس پہلے اس شخص کو ایک جوشیلے لڑکے، پھر ایک ذمے دار نوجوان اور پھر ایک انتہائی سایہ دار شجر کے روپ میں دیکھا تھا جو اس وقت درجنوں لوگوں کے کندھوں کا سفر کرتا ہوا آیا تھا۔
21 نومبر 1927ء کو بھدر (ضلع گجرات کا ایک نواحی گاؤں) کے ایک زمیندار گھرانے میں جنم لیا، بھدر سے ابتدائی تعلیم کے بعد اسلامیہ اسکول لالہ موسی سے میڑک کیا... اپنے زمانہء طالب علمی میں وہ مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم اور اہم کارکن تھے۔ اسکول کی طرف سے انھیں ایک جیپ فراہم کی گئی تھی جس پر بیٹھ کر وہ ہر گاؤں اور دیہات میں جاتے، جلسے منعقد کرواتے جس کے لیے ان کے بہن بھائی جھنڈیاں بناتے تھے۔ پنجاب میں Unionist جماعت کی حکومت تھی اور گاؤں کے سارے بڑے چوہدری (ان کے والد سمیت) اسی جماعت کے حامی تھے... مگر اسکول کی انتظامیہ نے انھیں اہم ذمے داری کے لیے منتخب کیا تھا جسے وہ بخوبیٔ احسن نبھا رہے تھے۔ ان کے والد کے پاس حکمران پارٹی کے کرتا دھرتا لوگوں نے شکایت پہنچائی کہ آپ تو حکومت کے حامی مگر آپ کا بیٹا کیا کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خود اپنی سوچ رکھنے والا لڑکا ہے اور اسے اسکول کی طرف سے جو ذمے داری دی گئی ہے اسے نبھا رہا ہے اس لیے میں اسے منع نہیں کر سکتا۔
ان کے والد ہندوستان میں کپڑے کے تاجر تھے۔ گاؤں میں عموما لوگ سفید پوشی کے ساتھ سادہ زندگی گزارتے تھے، رقم کا مصرف بھی کم تھا اور اس کی گردش بھی۔ اس زمانے میں بھی ان کے گھر میں جو چیزیں آتیں وہ عام لوگوں کے لیے حیران کن ہوتیں، چائے کی پتی، سلک، شیفون، بنارسی کپڑا، اون، ریڈیو، گراموفون اور ایسی کئی چیزیں کہ لوگ دیکھنے آتے تھے کہ چوہدری امام دین کیسی انوکھی چیزیں لائے ہیں۔ بے فکری کا دور تھا، وہ سندھ پولیس میں بھرتی ہو گئے۔ اس زمانے کے سب سے نمایاں واقعات میں وہ فخریہ ذکر کرتے تھے کہ وہ ان خوش نصیبوں میں سے ایک تھے جنھوں نے قائد اعظم کے جنازے کو کندھا دیا تھا۔ابھی پولیس کی ابتدائی تربیت سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ انھیں اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے المیے سے دو چار ہونا پڑا... ان کے والد کی وفات، اس المیے کے بعد وہ اپنے دس بہن بھائیوں کے لیے باپ جیسے بن گئے، میرے ابا جی... فقط بائیس برس کی عمر میں اس شفقت سے محروم ہوئے جس سے محروم ہو کر میرا درد تھمتا ہی نہیں۔
اپنے سے بڑی بہنوں سے لے کر، سب سے کم عمر اپنے تین سالہ بھائی تک کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنی زندگی کی مہلت ختم ہونے تک اسی شفقت کے سائے تلے رکھا۔ قدرت نے ان کے بہن بھائیوں سے باپ چھین کر انھیں بہترین متبادل دیا تھا۔ وہ اپنی ماں کے ایسے فرمانبردار تھے کہ جیسی اطاعت اور فرمانبرداری کی کہانیاں ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ انھوں نے جہاں انھیں چلنے کو کہا وہ چل دیے، جہا ں رکنے کو کہا وہ رک گئے، کبھی انھوں نے اپنی ماں کو ''ناں'' نہیں کہا، اللہ نے ماں کی اطاعت کی وجہ سے انھیں بہت نوازا۔ انھوں نے بہن بھائیوں اور اولاد کے سارے فرائض بطریق احسن پورے کیے۔
یکم جولائی 1957 کو ان کی شادی ہوئی...اللہ نے انھیں نو اولادوں سے نوازا، جن میں سے ایک بیٹی کم عمری میں وفات پا گئی۔ انھوں نے ہم آٹھ بہن بھائیوں کو پڑھا لکھا کر معاشرے کے سمندر میں اپنے بہترین اصولوں کے ساتھ اتارا۔ 41 برس تک سندھ پولیس میں اپنی مدت ملازمت پوری کر کے وہ1988ء میں ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہو کر گجرات آئے اور اپنی باقی حیات یہیں پر گزاری۔ ان کی زندگی کٹھنائیوں کے سفر کی ایسی داستان ہے جس میں کہیں پر یہ ذکر نہیں آتا کہ وہ تھک گئے، اکتا گئے، گھبرا گئے یا کسی کو مدد کے لیے پکارا ہو۔
1980ء میں میرے نانا جان کی وفات کے بعد میری امی جان کے نو بہن بھائیوں کے سر کا سائبان چلا گیا، ان کی زندگیوں کی تپتی دوپہروں میں ابا جی نے انھیں جہاں ممکن ہوا اپنے سایہ شفقت سے فیض یاب کیا۔ ان کی اپنی بہنوں میں سے اگر کوئی بیوہ ہوئی تو وہ اس کے بچوں کی ذمے داریوں کو اپنی ذمے داری سمجھ بیٹھے اور اسے جی جان سے نبھایا، اپنے بچوں سے افضل ان کے بچوں کی ضروریات اور خواہشات کو جانا۔
اباجی ایک انتہائی شفیق، ذہین، بذلہ سنج، مودب، حاضر جواب، پابند وقت، بے ریا، عاجز، متحمل مزاج، پر خلوص، انتہائی مشفق، سادہ لباس اور سادہ خوراک، مطالعے کے انتہائی شوقین، دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو میں انھیں ملکہ حاصل تھا۔ ان کی دوستی خاندان کے ہر عمر کے شخص سے تھی، وہ تین سالہ علی امام کے ساتھ بھی اسی طرح ہنسی مذاق اور دوستی سے بات کرتے تھے جیسے وہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ کرتے تھے۔ ان کی قوت بیان غضب کی تھی... میں ہمیشہ ان سے کہتی کہ انھیں اپنی سوانح حیات لکھنی چاہیے۔ وہ 1937, 1947, 1960, 1970 یا کسی بھی اور دور کی بات اس طرح سناتے تھے جیسے کل کی بات بیان کر رہے ہوں۔ ان کا حافظہ غضب کا تھا، وہ واقعات میں انسانوں کے حلیے، جگہوں کی تفصیلات، واقعات کی ترتیب ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے... کبھی کوئی تفصیل انھیں بھولتی نہ تھی۔خطوط نویسی کے زمانے میں وہ خاندان کے ہر فرد کو باقاعدگی سے خطوط لکھتے تھے...
میرے پاس ان کے خطوط کا ایک خزانہ محفوظ ہے جس کا عرصہ 1978 سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک ہے جب تک کہ انھوں نے موبائل فون نہیں لے لیا۔ اس کے علاوہ عید کارڈز، سالگرہ کے کارڈ اور نئے سال پر سب کو باقاعدگی سے کارڈ بھجواتے۔کسی کو دیے گئے وقت پر اس طرح پہنچتے تھے کہ لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت اس کے مطابق درست کرتے تھے۔ وقت کی پابندی نہ کرنے والے لوگوں سے انھیں بہت چڑ تھی۔ حافظہ اس عمر میں بھی ایسا تھا کہ سب کے موبائل نمبر انھوں نے زبانی یاد کر رکھے تھے، گیارہ digts کے درجنوں نمبر انھیں زبانی یاد تھے، وہ فون بک میں search کرنے کی بجائے اپنی یاداشت سے نمبر ڈائل کرتے تھے۔
انتہائی مہمان نواز اور دوست دار طبیعت پائی تھی، اگر انھیں علم ہوتا کہ کوئی مہمان آ رہا ہے تو اس کے قیام کے مطابق پورا مینو جاری کر دیتے، گیٹ کے پاس چکر لگاتے رہتے جب تک کہ مہمان گھر نہ پہنچ جاتا ... دوپہر، شام کی چائے، رات کا کھانا، کھانوں کے وقفوں کے دوران... خود کم اور نپی تلی خوراک کھاتے مگر جو ان کے گھر پر جاتا اسے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اور ہر چیز کھلانا چاہتے تھے۔ ''گھر خیریت سے پہنچ کر اطلاع ضرور کرنا!'' نکلتے وقت ان کا مخصوص فقرہ۔ اپنے بچوں سے پیار اور شفقت تو دنیا کا ہر باپ کرتا ہے مگر ایسا شخص کم کم ہی ملے گا کہ جس کے سایہء عاطفت سے ایک عالم فیض یاب ہوتا ہو... وہ پیار اور محبت کا سمندر، علم کا دریا اور شفقت کا منبع تھے۔ برداشت، صبر اور قربانی ان کے بنیادی اوصاف تھے۔کتب بینی ان کا اولین شوق تھا، اچھی موسیقی کا شغف بھی رکھتے تھے۔ تاریخ یورپ، تاریخ اسلام اورتاریخ پاکستان انھیں ازبر تھی۔ اپنے بہن بھائیوں اور بچوں میں بھی انھوں نے اس شوق کو بیدار کیا۔ انھیں پنجابی، اردو، انگریزی، سندھی اور فارسی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اس کے علاوہ وہ پشتو، ہندکو اور سرائیکی زبانیں بول اور سمجھ لیتے تھے۔ انتہائی عبادت گزار تھے، تہجد سمیت کوئی نماز نہ چھوڑتے تھے، اس کے علاوہ قرآن کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے تھے۔ جہاں کہیں انھیں کوئی بات سمجھ نہ آتی تو کسی سے بھی پوچھنے میں عار نہ سمجھتے تھے۔ میں اکثر اپنے کالموں میں کسی آیت، حدیث، شعر یا تاریخی واقعے کا حوالہ دینے کے لیے ان سے رجوع کرتی، کلام اقبال اور حکایات سعدی میں نے ان سے سمجھیں، انھیں فارسی زبان بہت پسند تھی۔انھیں آج کل کے دور کی ایجادات بہت fascinate کرتی تھیں، خصوصاً اسمارٹ موبائل فون... ہمارے فون دیکھ کر خوش ہوتے۔
بعض دفعہ پوچھتے کہ اس بات پر google کیا کہتی ہے؟ حیران ہوتے کہ google کو کیسے علم ہو جاتا ہے ہر بات کا۔ ''google سے پوچھ کر بتاؤ ذرا...'' پوچھتے اور میں لمحوں میں انھیں بتا دیتی کہ کیا جواب آیا ہے۔ میری خوش قسمتی کہ 23 دسمبر سے 27 دسمبر 2013کے آخری پانچ دن میں نے ان کے ساتھ گزارے، ان سے کومہ میں جانے سے قبل ان سے فون پر بات بھی ہوئی اور پھر وہ لیٹ گئے، اسی حالت میں وہ کومہ میں چلے گئے اور اسی کومہ سے وہ ابدی نیند سو گئے۔ہمارے اختیار کی حد دعاؤں تک تھی، جس میں دنیا بھر میں سے کسی چاہنے والے نے کمی نہ کی۔ وہ ایک اتنے بڑے کنبے کے سربراہ تھے کہ جس کی اصل تعداد گنی بھی نہیں جا سکتی۔ جنوری کی چار تاریخ کو... جب میں اپنا گزشتہ کالم بھجوا کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ ان کے انتقال کی خبر آ گئی، میں نے اپنی ماں کو اپنی آغوش میں بھرا، اپنی سب بہنوں، بھابیوں، بچیوںکو اپنے سامنے بٹھایا، اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر انہیں بتایا کہ میرے سر کی چھت گر گئی ہے... اس مشکل گھڑی میں میں کرب کی کن منزلوں سے گزری، اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔جس وقت صدمے سے میرے بھائی بھی نروس بریک ڈاؤن کی حد کو پہنچ گئے تھے، اس وقت میں نے خود پر کتنا جبر کیا، کیونکہ مجھے اپنی ماں کو حوصلہ دینا تھا، انھیں سنبھالنا تھا، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور سب بچوں کو سنبھالنا تھا، ابا جی کی بہنوں کو سنبھالنا تھا جو ہر روز اسپتال کے دروازے پر بیٹھ کر اپنے بھائی کی درازیٔ عمر کی دعا مانگتی تھیں۔ ہم نے اباجی کی مختصر علالت کے ان آٹھ دنوں میں آس اور یاس کے نہیں بلکہ آس اور امید کے مرحلے طے کیے تھے کیونکہ یہی لگتا تھاکہ وہ اب جاگے کہ تب جاگے۔
میری امی جان کے ساتھ ان کی 55 سال، چھ ماہ کی رفاقت انجام پذیر ہو گئی، انھوں نے امی جان کو کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ وہ ایک انتہائی سخت گیر اور دلیر پولیس آفیسر تھے جن کے نام سے مجرم تھر تھر کانپتے تھے مگر ان کے اس غیض و غضب کا مظاہرہ خاندان میں کہیں نہیں ہوا، گھر اور خاندان میں وہ نرم دلی اور برداشت میں مشہور تھے۔
ہر روز صبح مجھے کال کر کے خیریت پوچھتے اور احتیاط سے گاڑی چلانے کا کہتے تو میں ان کی دعاؤں کے کمبل میں لپٹ جاتی اور خود کو محفوظ تصور کرتی۔ اتوار کی صبح وہ گیٹ پر اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ اخبار نہ آ جاتا اور سب سے پہلے کالم پڑھتے پھر کال کر کے مجھے رائے دیتے، تعریف کرتے یا کوئی غلطی ہوتی تو اس کی نشاندہی کرتے... تین بیٹوں کے باوصف ابا جی ہمیشہ مجھے بیٹا کہتے تھے... بیٹا بھی نہیں بلکہ اپنا شیر بیٹا... میں اندر سے ریزہ ریزہ ہو کر بھی خود کو اس لیے سالم رکھے ہوئے ہوں کہ مجھے ابا جی نے کسی بنا پر ہی بیٹا کہا ہو گا، کسی وجہ سے ہی مجھ سے وہ ہمیشہ بہادری کی توقع کرتے ہوں گے... میں نے ایک باپ ہی نہیں، ایک استاد، ایک مصلح، ایک ناصح، ایک دوست، ایک پیار بھرا سائبان... ایک جہاں کھویا ہے
سو رہا ہے ہے تہہ خاک وہ وجود...
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
انھوں نے سوگواران میں ایک بیوہ... اور 93 انتہائی قریبی خونی رشتے چھوڑے ہیں جن میں ہم ان کی اولادیں بھی شامل ہیں۔ میں سب احباب کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے اس مشکل وقت میں اپنی دعاؤں، اپنی موجودگی، اپنی ٹیلی فون کالوں اور اپنے تسلی کے الفاظ سے میرا اور میرے خاندان کا ساتھ دیا۔ ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے آپ سے دعا کی طالب ہوں ...