فلسفہِ رمضان

دورِ حاضر میں دینِ اسلام کی تعلیمات پر یہود ونصراء کے فتنے کچھ زیادہ ہی سر اٹھا رہے ہیں۔



دورِ حاضر میں دینِ اسلام کی تعلیمات پر یہود ونصراء کے فتنے کچھ زیادہ ہی سر اٹھا رہے ہیں جس کی اہم وجہ امتِ محمدی ؐکا متحدنہ ہونا ،قرآن و سنت کی تعلیمات سے دوری ہے، جب کہ ہمارا دین امن و سلامتی ، ایثار اور قربانی ،مروت اور رواداری کا درس دیتا ہے۔

مندرجہ بالا حوالے سے بھی معلم ِشریعت حضرت محمد ﷺ کی واضح احادیث موجود ہیں بات صرف جستجو اور عمل کی ہے۔ نبی پاک شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی تاریخوں کا خاص خیال فرماتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ''جب رمضان المبارک کا چاند نظرآتا تو نبی کریمؐ یہ دعا فرماتے تھے:''اے اللہ ہمارے لیے ماہِ صیام میں برکت عطا کر دیجیے اور ہماری مشکلیں آسان کردیجیے''(جامع ترمذی)۔

ایک اور روایت جو حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے منقول ہے کہ نبی پاک ﷺ جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے '' یا الٰہی! ہم پر یہ چاند برکت ، امن ، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما، اور توفیق عطا فرما اچھے اور پسندیدہ عمل کی ، (اے چاند) میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے ''(جامع ترمذی) ۔ چاند دیکھ کر روزہ شروع کرنے اورچاند کے لحاظ سے ختم کرنے پر ملکوں ، علاقوں اور سرحدوں کا لحاظ ضروری ہے کیونکہ اگر دورانِ سفر رمضان شروع ہوجائے یا دورانِ رمضان دوسرے ملک یا علاقے کا سفرکرنا پڑھے تو روزوں کی تعداد اور وقت (افطاروسحرکا) وہاں کے لحاظ سے ترتیب دینا چاہیے اگرروزے کم ہورہے ہیں تو عید کے بعد مطلوبہ تعداد پوری کرلیں اور اگرزائد ہوں تو نفلی روزوں کی نیت سے روزے رکھنے چاہیئیں۔

حضرت کریبؓسے روایت ہے کہ حضرت امِ فضلؓ(حضرت عباسؓ کی زوجہ) نے انھیںحضرت معاویہؓ کے پاس کسی کام سے شام بھیجا، کریبؓ کہتے ہیںکہ میں نے شام آکران کا کام کیا ، میںابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا ، میںنے بھی جمعہ کی رات چاند دیکھا پھر میںرمضان کے آخرمیں مدینہ واپس آگیا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے چاندکے بارے میں مجھ سے دریافت کیا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا تھا ، میں نے جواب دیا کہ ہم نے تو جمعہ کی رات دیکھا تھا حضرت عبداللہ بن عباسؓنے پھر پوچھا کیا تم نے بھی دیکھا تھا؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں بہت سے دوسرے آدمیوں نے بھی دیکھا تھا اور سب لوگوں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ دوسرے دن یعنی ہفتہ کا روزہ بھی رکھا۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے فرمایا'' ہم نے تو چاند ہفتہ کے دن (یعنی ایک دن کے فرق سے دیکھا ہم اسی حساب سے روزے رکھتے رہیں گے، یہاں تک کہ تیس دن پورے کرلیں یا چاند دیکھ لیں۔'' (صحیح مسلم، ابوداؤد،نسائی اور احمد)

رویت کے بغیررمضان کے روزے شروع نہ کیے جائیں اورنہ چاند دیکھے بغیرختم کیے جائیں اگر موسم ابرآلود ہو تو مہینے کے تیس دن پورے کرنے چاہیئیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا''چاند دیکھے بغیر رمضان کے روزے شروع نہ کرواور چاند دیکھے بغیر رمضان ختم نہ کرو۔ اگر مطلع ابرآلود ہو تو مہینے کے تیس دن پورے کرلو'' (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) دوران رمضان اگر روزے دار سفر پر ہو تو اس سے روزے حاضر علاقے کے اعتبار سے رکھنا چاہیے اور واپس اپنے مقام پر آنے کے بعد اگر روزوں کی تعداد زائد بن رہی ہو تو روزے ترک کردے یا نفل روزے کی نیت سے رکھنے چاہئیں اگر تعداد کم بنتی ہو تو عید کے بعد مطلوبہ تعداد پوری کرنی چاہیے۔ ابر کی وجہ سے شوال کاچاند دیر سے دکھائی دے اور روزہ رکھا ہوا ہو تو معلوم ہوجانے کی صورت میں کہ چاند نظر آگیاروزہ کھول لیں اگریہ اطلاع زوال سے قبل ملے تو نمازِ عید فوری اسی روز ادا کرلیں اور اگرزوال کے بعد معلوم ہو تو اگلے روز عید کی نماز ادا کی جائے۔

حضرت ابوعمیر بن انسؓ اپنے چچاؤں سے جو اصحابِ نبیؐ میں سے تھے روایت کرتے ہیںکہ بعض سوار بنی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گواہی دی کہ انھوں نے گزشتہ روز شوال کا چاند دیکھا ہے چنانچہ حضرت محمدﷺ نے صحابہ کرامؓکو حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں اور فرمایا ''کل صبح(نمازِ عید کے لیے) عیدگاہ آئیں۔'' (ابوداؤد)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے چاند دیکھا اور میں نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ''میں نے بھی چاند دیکھا ہے''۔

چنانچہ نبی کریم ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا''(ابوداؤد)۔حضرت ابنِ عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ نبویؐ میں آکر عرض کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے اس شخص سے رسول اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تو اللہ تعالی کی وحدانیت کی شہادت دیتا ہے۔ اعرابی نے کہا ہاں!پھر نبی ﷺ نے معلوم فرمایا کیا تو میری رسالت کا بھی گواہ ہے۔ اعرابی نے کہا ہاں!تب نبی ﷺ نے جناب بلالؓ سے فرمایا ''کل کے روزے کا اعلان کر دو۔'' (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

رمضان کے آغازمیں چاند کے چھوٹا یا بڑا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اہلّہ ہلال کی جمع ہے اور ہلال پہلی تین راتوں کے چاند کو کہتے ہیں چاند حقیقت میں ایک ہو مگر چونکہ وہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے اس لیے گویا کئی چاند ہوئے اسی وجہ سے ان کو اہلّہ کہا جاتا ہو اس گھٹنے بڑھنے کا قاعدہ یہ ہوکہ جو لوگ ان پڑھ ہیں ان کو اس سے مہینہ ، تاریخ اور اوقاتِ حج معلوم ہوجاتے ، اگر ایک حالت میں رہتا تو ان لوگوں کو بڑی مشکل پیش آجاتی نہ مہینہ معلوم ہوتا نہ ہی تاریخ۔ ہلال کو دیکھ کر ہر شخص مہینہ اور تاریخ ، حج کے اوقات اور کاموں کی میعادیںآسانی سے معلوم کرسکتاہے۔

حضرت ابوالحشریؓ سے مروی ہے کہ''ہم عمرہ کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے ہم جب بطن'نخلہ' کے مقام پر پہنچے تو سب نے نیا چاند دیکھا کچھ لوگوں نے کہا یہ تو تیسری رات کا چاند لگتا ہے(بڑا ہونے کی وجہ سے)کچھ لوگوں نے کہا کہ دوسری رات کا لگتا ہے، ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ہوئی تو ہم نے ان سے کہاکہ ہم نے چاند دیکھا ہے کچھ لوگوں نے اسے تیسری رات کا کہا ہے کچھ نے دوسری رات کا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا'' تم نے کون سی رات کا چاند دیکھا تھا ؟ ہم نے بتایا کہ فلاں فلاں رات دیکھا تھا تو کہنے لگے رسول اللہ ﷺ کا ارشادِمبارک ہے اللہ تعالی اس کو تمہارے دیکھنے کے لیے بڑا کردیتے ہیں لہذا وہ اسی رات کا چاند تھا ، جس رات تم نے اسے دیکھا۔(صحیح مسلم)

مندرجہ بالا فرمانِ الٰہی اوراحادیث مبارکہ سے یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی معاشرے میں اسلامی ماہ وسال کا آغاز صرف اور صرف رویت پر ہی انحصار کرتا ہے، اس میں ذاتی اختلاف کو حائل نہیں کرنا چاہیے بلکہ جیسا قرآن پاک میں اللہ رب تعالیٰ کا فرمان اور شریعتِ محمدی درس دیتی ہے اس پر ہر مسلمان کو عمل کرنا چاہیے۔ باری تعالی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں