بارہ اپریل کا عزم
بسا اوقات غم اوردکھ کی شدت سکتے میں ڈھل کر انسان کو چند ساعتوں تک ایک ایسے کردارکا حصہ بنا دیتی ہے۔
بسا اوقات غم اوردکھ کی شدت سکتے میں ڈھل کر انسان کو چند ساعتوں تک ایک ایسے کردارکا حصہ بنا دیتی ہے، جس سے فوری طور سے نکلنا نہ صرف محال بلکہ نا ممکن سا لگتا ہے۔
ایک برس قبل کے بارہ اپریل کا جب خیال آتا ہے تو میرے ذہن میں دھان پان مگر مضبوط ارادوں کی مہناز رحمن ایک ایسی چٹان لگتی ہے کہ جس سے ٹکرا کر اس سمیت ہزاروں کے ہر دلعزیز احفاظ کی موت اپنی طاقت کو کمزور سمجھنے پر مجبور ہو جائے۔
کیا عام فرد کے تصورکے نہاں خانے میں مہناز کی پرعزم حرکی صلاحیتوں کا شمار کیا جاسکتا تھا؟ یہ وہی مہناز تھی جو کچھ عرصہ قبل اپنی دلجو '' ماں '' کے لاشے کو نمناک آنکھوں سے سپرد خاک کرنے پر مجبورکردی گئی تھی، مگر مجال کہ احفاظ الرحمن کے احساس اور خیال کو ایک لمحے کے لیے بھی اس نے خود سے محو کیا ہو۔
بلکہ بیٹے کی کشادہ دلی اور سہولیات سے پر زندگی کو محض اس لیے چھوڑ کر اسی ایک سو بیس گز کے گھر میں پلٹ آئی جہاں اس کا احفاظ سکون وطمانیت محسوس کرتا تھا ، اب یہ جوکھم بھی وہی کرسکتا یا سمجھ سکتا ہے جو زندگی کی قدروں میں نظریے کی بھٹی کے الاؤ سے گذرا ہو، ذات کے وجود کو دوسرے میں ڈھالنے کا ہنر جانتا ہو ، مشکل کو تراشنے کے علم سے باخبر ہو اور دکھوں کی ردا تان کر بھی مسکان سجانے کے اطوار سے واقف ہو ، تبھی تو مہناز بارہ اپریل کو احفاظ کی پہلی برسی پر پریس کلب میں رنجیدہ لہجے میں ان احباب سے شاکی تھی جو آج اس پریس کلب کی چھتر سایہ میں سکون سے آتے جاتے ہیں جس کے لیے احفاظ اور ان کے نظریاتی احباب نے جان جوکھم میں ڈالی اور اظہار کی آزادی کے لیے اپنا نظریاتی لہو پریس کلب کی قدروں کی سلامتی کے لیے دیا ، مہناز درست ہی تو کہہ رہی تھی کہ احفاظ کی یاد کے دعویدار ہی پریس کلب کی تقریب میں غائب تھے ، سو وہ طاغوتی طاقت یا پنجوں سے کس طرح پریس کلب کو چھڑا پائیں گے؟
اس کا کہنا تھا کہ احفاظ یکسوئی ، جدوجہد اور باہمی ربط کا وہ استعارہ تھا کہ جس کی برسی کی تقریب دوستوں کو قریب ترکرنے کی ایک سعی تھی جو کہ شاید اپنے مقاصد پورے نہ کر سکی ، مگر جہد مسلسل کی اس کوشش میں مصمم ارادوں کی مہناز کا شکوہ ان احباب سے بھی تھا جنہوں نے اس تقریب کا بیڑہ اٹھایا تھا کہ وہ صاحب اثر ورسوخ اور عوامی حقوق کے داعی دوست بھی وہ تیاری نہ کر سکے کہ احفاظ کی اظہار رائے کی سلامتی اور جدوجہد کو نئی نسل تک احسن طریقے سے پہنچایا جا سکے۔
اس لمحے ایک خیال میرے ذہن میں بھی آیا کہ مہناز اور ہم ایسے ان سے کیوں امیدیں وابستہ کیے رہتے ہیں جو کہ مختلف حقوق کے نام پر ادارے بنا کر سرمایہ حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، لہذا وہ افراد کیونکر احفاظ ایسے مکمل نظریاتی فرد کی تقریب کی کامیابی کے متمنی ہوں جو تقریب کسی طور بھی ان کے سرمائے کو چار گنا نہ کر سکے، لہذا جو گھاٹے کا سودا کرنے کا دھنی احفاظ تھا سو اس کی قدر سرمائے کے حصول کے افراد کیوں کریں ، ہاں اس تجربے سے یہ ضرور سیکھا جانا ضروری ہے کہ طبقہ تبدیل کر لینے کا قطعی مقصد قربانی اور نظریاتی وابستگی ہرگز نہیں ہوتا بلکہ یہ راہ و رسم نبھانے کی وہ مجبوری ہے جو کہ اپنے آخری نتیجے میں انھی سرمائے کے دھنیوں کو فائدہ پہنچانے کا سبب ہوگی ، وابستگی کے لیے خود کو تج کر دینے والی مہناز بننا ہرکسی کو شوبا کہاں دیتا ہے۔
احفاظ کی تقریب سے پہلے انسانی بقا وحرمت کے لیے خود کو تج کر دینے کی صلاحیتوں سے مالا مال پی ایف یو جے کے ایک اور دھنی صحافی آئی اے رحمان کو اس برس کی بارہ اپریل نگل چکی تھی ، یہ افسوسناک خبر انسانی حقوق سے محروم افراد اور اپنے پیاروں کی راہ میں ٹکٹکی بندھے لواحقین پر قیامت بن کر ٹوٹی کہ ان کی امید اور سہارے کا مرد مجاہد آئی اے رحمان بھی اب نہ رہا۔ آئی اے رحمان کے بچھڑنے کے بعد عجیب سا رویہ ان کے ساتھ رہنے اور جاننے والوں کا دکھائی دیا ، جس سے گمان ہوا کہ آئی اے رحمان نے گویا انسانی حقوق کی سر بلندی میں ہی اپنی زندگی صرف کردی ،جب کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
آئی اے رحمان نے اپنے سفرکا آغاز ہی انسان کی جمہوری اور سماجی آزادی سے کیا ،جس کے لیے انھوں نے صحافت کے پیشے کو ایک موثر ذریعہ سمجھا اور شعوری طور سے وہ صحافت کے خار زار میں داخل ہوئے جہاں ان کی ملاقات فیض احمد فیض ، مظہر علی خان اور منہاج برنا سے رہیں اور انھوں نے اپنے صحافتی قلم کی اثر انگیزی سے آخری دم تک اپنے قاری کو جمہوری قدروں اور اظہار کی آزادی کے اہم جوہر سے روشناس رکھا ، یہ بھی یاد رکھا جائے کہ آئی اے رحمان صحافیوں کی اس نظریاتی اساس کے امین تھے جو انسانی قدروں کا عظیم مارکسسٹ نظریہ تھا ، یہی وجہ رہی کہ جب مارشلاؤں میں انسانی جمہور کو تاراج کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو آئی اے رحمان نے ان کا مقابلہ مارکسی نظریئے کی اساس ذریعے ہی سے کیا۔
بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ 1930 میں ہریانہ کی کوکھ سے جنم لینے والا مارکس وادی نہ ہو ، یہی وجہ رہی کہ جب بھی صحافت پرکڑا وقت آیا تو آئی اے رحمان صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کے ہر اول دستے میں شامل ہو کر اظہار کی آزادی کی خاطر ڈھاکا تک پہنچ گئے،ان کی ویو پوائنٹ میگزین کے زمانے کی دیرینہ رفیق زہرہ یوسف نے درست ہی تو لکھا کہ '' وہ ایک کمیونسٹ آدرشی تھے بلکہ بقول حسین نقی آئی اے رحمان نے آخری دم تک خود کو مارکسسٹ فلسفے سے جوڑے رکھا اور کہتے رہے کہ میں مارکسسٹ ہوں،اسی لیے میں انسانی قدروں اور ان کی منزلت کو سمجھ سکتا ہوں۔''
اب بھلا اس موقع پر عدم شناس عظمی نورانی کا یہ کہنا کہ آئی اے رحمان غیر نظریاتی فرد تھے کا جواب تاریخ ہی دے تو بہتر ہے، وگرنہ ایسے نا آشناؤں کو معاف کر دینا ہی بہتر ہے،کیسے بتاؤں کہ جو شخص جوان بھتیجے کی موت کو انسانی حقوق پر قربان کر دے یا بیروزگار صحافی بیٹے اشعر رحمان کی دلجوئی کرتا رہے ، مگر اپنے صحافتی اور عہدائی تعلقات استعمال کرنے سے دور رہے کہ کہیں اس کے مارکسی آدرش کو ٹھیس نہ پہنچ جائے تو اس آئی اے رحمان کو انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے ریاست کیسے روک سکتی ہے ، بس یہی بات این جی اوز کی آڑ میں دھندوڑی مارکسسٹوں کو سمجھنی ہے وگرنہ تو احفاظ اور آئی اے رحمان تو ہر برس بارہ اپریل کو اپنے اصول اور آدرش کی بنیاد پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔