سحری کیلیے ڈھولکنستر بجانے کا روایتی کلچر دم توڑگیا

نوجوان ڈھول بجا کر ’’روزہ دارو اٹھو سحری کا وقت ہو گیا‘‘ کی آوازیں لگاتے تھے


Qaiser Sherazi April 16, 2021
دادا اور والد کی وفات کے بعد سے جگانے کا کام کر رہا ہوں، کلچر ختم ہو چکا، سہیل۔ فوٹو: اے ایف پی

گزشتہ ایک صدی سے برصغیر میں رمضان المبارک کے دوران سحری کیلیے ڈھول اور گھی کے خالی ٹین کے کنستر زور زور سے بجا کر روزے داروں کو جگانے کے قدیم روایتی کلچر نے دم توڑ دیا ہے جب سے سوشل میڈیا نے معاشرہ کو اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔

اس وقت سے قدیم تمام کلچر ختم ہونے لگے ہیں، 2010تک ہر رمضان میں مختلف نوجوانوں پر مشتمل گروپ ڈھول بجا کر گلیوں محلوں میں گھوم کر ڈھول بجاتے ''روزے دارو اٹھو سحری کا وقت ہوگیا'' آوازوں کے ساتھ جگاتے تھے مساجد سے بھی روزہ دارو اٹھو سحری کا وقت ہوگیا ہے اعلانات کئے جاتے تھے یہ نوجوان ہر سال رمضان شروع ہوتے ہی ٹولیوں میں گھی کے خالی کنستر بجاتے گلی محلوں میں گھومتے روزے داروں کو ٹین بجا کر جگاتے اور عید کے دن گلی محلے گھوم کر گھر گھر سے عیدی وصول کرتے تھے۔

اب یہ سلسلہ موبائل، وٹس ایپ اور فیس بک نے ختم کر دیا ہے اوراب تو مساجد سے بھی روزے دارو اٹھو سحری کا وقت ہوگیا کی اعلانات بھی سننے کو نہیں ملتے، راولپنڈی میں ہر سال رمضان میں ٹین کے گھی کے خالی کنستر بجا کر روزے داروں کو جگانے والے محمد سہیل نے بتایا کے اس کے دادا نے یہ کام شروع کیا تھا قیام پاکستان سے قبل دادا جان اپنے دوستوں ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہر سحری سے 2 گھنٹے قبل روزہ داروں کو جگاتے، دادا کے بعد والد نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔

والد کی 1994 میں وفات ہوگئی تو یہ فریضہ میں نے سنبھال لیا 2008 تک خود ٹین کے کنستر کے ساتھ یہ کام کرتا رہا اس کے بعد جوں جوں سائنس نے ترقی کی یہ کام ختم ہوتا چلا گیا اب ہر سحری کو ڈھول اور ٹین کنستر سے جگانے کا کلچر مکمل ختم ہوچکا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔