عالمی شرح بے روزگاری میں اضافہ۔۔۔۔ایک سنگین مسئلہ

عالمی مالیاتی اداروں امیر صنعتی ممالک کو بھی ترقی پذیرملکوں کے بارے میں اپنی سخت پالیسیوں کو فوری طورپر نرم کرنا ہوگا۔



1930کے عظیم معاشی بحران کے وقت بیروزگاری کی شرح انتہائی بلند تھی لیکن ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری ترقی یافتہ ملکوں کی طرح سنگین مسئلہ تو تھا لیکن سماجی برائی میں روز افزوں کا ذریعہ نہ تھی لیکن اب 90 برس بعد جب دنیا 1930 کی کساد بازاری سے بھی کہیں زیادہ خطرناک کورونا زدہ معیشت کے شکنجے میں جڑی ہوئی ہے، تو ایسے وقت میں بے روزگاری سنگین عالمی معاشی مسئلہ تو ہے لیکن پاکستان میں انتہائی مہلک سماجی بیماریاں جنم لے چکی ہیں۔

اس کے کارن چوری، ڈکیتی، رہزنی وغیرہ جیسے سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کئی یورپی اداروں اور امریکی اداروں نے مختلف ملکوں میں بے روزگاری کی شرح سے متعلق ایک سروے کیا تھا ، جس کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 15 فیصد بتائی گئی تھی جوکتنے ہی ملکوں سے زیادہ تھی اور کئی ملکوں سے کم بھی رہی۔

ان میں سے کئی ملکوں کے اعداد و شمار برائے شرح بے روزگاری کچھ یوں تھی کہ ترکی میں بے روزگاری کی شرح 12 فیصد مصر 9.7 فیصد، برطانیہ 7.9 فیصد، روس 7.8 فیصد، بھارت 10.8 فیصد اور ویتنام 2.9 فیصد اور کئی ملکوں میں پاکستان سے زیادہ شرح تھی۔

برسبیل تذکرہ ویتنام کی بات کرلیتے ہیں تو 60 اور70 کی دہائی کا جنگ زدہ ملک۔ ہر طرف غربت و افلاس کے ڈیرے تھے۔ اس دوران لاکھوں ویتنامی ہجرت کرکے دیگر ملکوں میں جا بسے طویل جنگ کے خاتمے کے بعد اس کی اڑان 2005 کے بعد سے شروع ہوئی اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کے معاملے میں پاکستان سے کہیں آگے نکل گیا۔

پاکستان کو اس ایشیائی ملک سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وبا کے دوران بہت سے ممالک ایسے تھے جنھوں نے کاروبار زندگی کو کسی نہ کسی طرح بحال رکھا یا جلد ہی لاک ڈاؤن کے مرحلے سے باہر نکل آئے۔

لہٰذا انھوں نے بڑی سرعت کے ساتھ ایسی پلاننگ کر ڈالی کہ لوگوں کو بڑی تعداد میں بے روزگار ہونے سے بچا لیا لیکن پھر بھی عالمی معیشت کے ناک میں جس چیز نے دمکئے رکھا وہ مسلسل بڑھتی ہوئی بے روزگاری تھی۔ اکتوبر 2020 میں کیے گئے ایک عالمی سروے میں دنیا کے مختلف ملکوں میں بے روزگاری کی کیا شرح رہی اس کے اعداد و شمار ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔

الجییریا 12.8 فیصد، ارجنٹائن میں بے روزگاری کی شرح 11.7فیصد رہی، آسٹریلیا 6.6 فیصد، بنگلہ دیش 5.3فیصد، برازیل جوکہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے لدا پھندا ملک ہے وہاں بے روزگاری کی شرح تقریباً 14فیصد رہی، بلغاریہ ایک یورپی ملک جس کی شرح بے روزگاری 5.7 فیصد، ہنگری بھی یورپی خطے کا ایک ملک ہے جہاں پر ان ایمپلائمنٹ ریٹ 4.3 فیصد، کینیڈا میں یہ شرح 9.5 فیصد رہی۔ لیبیا جہاں ایک وقت تھا بڑی تعداد میں پاکستانی بھی جاتے ہی برسر روزگار ہو جایا کرتے تھے۔ عالمی سازشوں کا شکار ملک بن کر جنگ میں دھکیلا گیا اب وہاں کی شرح بے روزگاری 19.4 فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے دوران دنیا کی شرح بے روزگاری 6.5 فیصد ہے۔ اسی رپورٹ میں پاکستان کی شرح بے روزگاری تقریباً 5 فیصد بتائی گئی ہے ، جب کہ آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شرح 8 تا 10 فیصد ہے اور کورونا کے دوران اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ نئی ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں۔ البتہ کئی وجوہات کی بنا پر یہ شرح 10 تا 12 فیصد بھی بتائی جاتی ہے۔ عرب دنیا میں اس دوران بے روزگاری کی شرح 11.5 فیصد، امیر ممالک میں 6.7 فیصد ، امریکا میں 8.3 فیصد نوٹ کی گئی تھی۔

اندرونی وجوہات میں پاکستان میں موجود تمام وسائل یا بے کار وسائل کو کام میں نہ لانے سے بھی بے روزگاری بڑھی ہے۔ وہاں کے منصوبے بھی ناقص رہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت روزگار کی فراہمی کا جو ہدف مقرر کیا گیا وہ حاصل نہ ہو سکا اگلے برس مزید لاکھوں افراد بے روزگاروں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔

مشہور ماہر معاشیات کنیز نے ترقی پذیر ملکوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے ترقیاتی کام شروع کریں۔ اس سے لوگوں کو عارضی طور پر روزگار کے مواقع ملیں گے ان کی روزانہ کی آمدن بڑھ جاتی اور ملک بھر میں اشیا کی طلب میں اضافہ ہو جاتا۔ اس طرح پھر بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے رسد بڑھانا پڑتی۔ اس طرح معیشت بھی حرکت پذیر ہوکر رہتی اور معاشی ترقی بھی حاصل ہوکر رہتی۔ پاکستان بھی سالہا سال سے اسی اصول پر کاربند تھا۔

ترقیاتی اخراجات کے نام پر اربوں کھربوں روپے رکھے جاتے لیکن کچھ معاملات کرپشن کے باعث خراب ہو جاتے یا پھر ان کے ویسے نتائج نہ مل سکے جو دیگر ملکوں نے اس دوران حاصل کرلیے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ترقیاتی اخراجات کے لیے بڑی بڑی رقوم مختص نہیں کرسکتے۔ کیونکہ آئی ایم ایف بہادر قرضوں پر سود اور قسطوں کی ادائیگی پہلے کی جائے۔ لہٰذا اب تو بہت ہی معمولی رقم بچتی ہے جوکہ ترقیاتی اخراجات کے نام پر خرچ کیے جاتے ہیں۔

جنرل(ر) مشرف کے دور حکومت میں بڑی مقدار میں بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی اخراجات کے لیے رقوم دی گئی تھیں اور دیگر اداروں کو ترقیاتی اخراجات کے لیے رقوم دی گئی تھیں۔ کرپشن اپنی جگہ لیکن رقوم خرچ ہوتی ہوئی نظر آرہی تھیں کہ کہیں مزدور سڑک بنا رہے ہیں، پل تعمیر کیے جا رہے تھے، نہروں کی صفائی کی مہم چل رہی تھی، وغیرہ وغیرہ۔

دنیا میں جس انداز سے بے روزگاری نے خطرات جنم دینا شروع کردیے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ عالمی پیمانے پر اصلاح احوال کیے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اپنے فرائض کو پہچانیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 8 کروڑ ملازمتیں سالانہ پیدا کرنا ہوں گی۔ لوگوں کو ان کے گھر کے نزدیک ان کی صلاحیتوں اور تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمت فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔

اب اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے ایسی پالیسی تیار کریں اور راقم کے خیال میں اس مسئلے کا حل بلاسود قرض دیے جائیں آئی ایم ایف سے لے کر مغربی ممالک، جی 20 اور امیر صنعتی ممالک ترقی پذیر ملکوں کو طویل مدت اور بلا سود قرض کے ساتھ ان ملکوں میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے تکنیکی عملہ مشینریاں ٹیکنالوجی بغیر کسی سیاسی مفاد کے فراہم کیے جائیں۔ آئی ایم ایف جس طرح بجلی اور دیگر کی قیمتیں بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اس طرح بے روزگاری مزید بڑھے گی۔

مہنگائی بڑھے گی، کارخانوں میں کام کم ہوگا ، مزدوروں کی طلب میں کمی ہوگی، ایسی صورت میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ عالمی مالیاتی اداروں امیر صنعتی ممالک کو بھی ترقی پذیر ملکوں کے بارے میں اپنی سخت پالیسیوں کو فوری طور پر نرم کرنا ہوگا تاکہ بے روزگاری میں کمی لائی جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں