مختلف سوچیں مختلف نظریات
انسان کے پاس امکانات بے پناہ ہیں ان کی کوئی حد نہیں ہے پھر آپ نے کیوں خود پر بے بسی طاری کررکھی ہے۔
اٹھارویں صدی میں فرانس میں نظریات کی جنگ کاآغاز ہوا، یہ نظریاتی تصادم اس دور کے عظیم ترین مفکر والٹیر اور دیگر فرانسیسی مفکرین کے درمیان تھا۔ مذہب کے قدیم عقائد اور سماجی رویوں کو چیلنج کردیا گیا تھا۔
سب سے بڑی بات یہ تھی کہ نئے نظریات بڑی بے باکی سے پیش کیے جارہے تھے لیکن اس طرح کی سیاسی سوچ زیادہ تر فرانس تک محدود تھی، اس دوران جمہوریت کا تصور پھیل گیا اور امریکی قرار داد آزادی اور فرانسیسی قرار داد حقوق کے مسحور کن الفاظ اور جملوں نے لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کردیا لاکھوں استحصال زدہ اور بے کس و مجبور لوگوں کے لیے یہ ایک سنسنی اور نجات کا پیغام تھا دونوں قرار دادیں آزادی ، مساوات اور تمام لوگوں کے لیے خوشی اور آسو دگی کے حق کی بات کرتی تھیں۔
یورپ اور دنیا بھر میں عیسائیت سمیت تمام مذاہب کا قدیم عقیدہ تھا کہ گناہ اور دکھ ناگزیر طور پر لوگوں کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں۔ مذہب دنیا میں غربت اور بدحالی کو ایک مستقل بلکہ احترام کا مقام دینا چاہتا تھا ۔ وعدے وعید اور اجر دوسری دنیا اور آخرت سے وابستہ تھے ،اس دنیا میں صبر اور شکر کے ساتھ تمام مصائب اور محرومیوں کو برداشت کرنے کا درس دیاجاتا تھا۔ خیرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی غریبوں میں بچا کھچا بانٹنا نیکی تصور کیا جاتا لیکن غربت کے خاتمے کے لیے کبھی کچھ سو چانہ جاتا۔ آزادی اور مساوات کے تصورات چرچ اور معاشرے کی حاکمیت کے خلاف سمجھے جاتے تھے۔
جمہوری نظرئیے کے ارتقاکا ایک ظاہری نتیجہ یہ نکلا کہ ہر آدمی کو مقتدر اسمبلی یاپارلیمنٹ کے ارکان منتخب کر نے کا حق یعنی ووٹ دینے کا اختیار مل گیا ووٹ سیاسی قوت کی علامت تھا یہ باور کر لیا گیا کہ اگر ہر ایک کوووٹ کااختیار مل جاتا ہے تو اس طرح ہر ایک سیاسی قوت و اقتدار میں حصہ دار بن جاتا ہے بقول لنکن ووٹ کی طاقت بندوق کی گولی سے زیادہ ہے۔ہمار ے حکمرانوں کی جانب سے ووٹ کی بے حرمتی نے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی بڑھانے میں ایندھن کا کام کیا۔
ظاہر ہے جب آپ لوگوں کے مسائل حل نہیں کریں گے تو پھر لوگ مایوس ہوکر دوسری سمت دیکھنے پر مجبور ہونگے دوسری طرف جب مذہبی جماعتوں کو اس بات پر یقین ہوگیا کہ وہ کبھی بھی ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار میں نہیں آسکیں گے تو پھر انھوں نے لوگوں سے مایوس ہو کر دوسرا راستہ اختیار کر لیا اور وہی کھیل کھیلنا شروع کردیا جو کلیسا نے اٹھارویں صدی میں یورپ میں کھیلا تھا۔
آج پاکستان میں واضح طور پر دو مختلف سو چیں اور مختلف نظریات الگ الگ سمت میں اپنا کام کررہے ہیں ایک سوچ وہ ہے جو ہمیں واپس اٹھارویں صدی میں لے جانا چاہتی ہے اور دوسری سوچ وہ ہے جس کی منزل وہ خوشحالی ، ترقی اور استحکام ہے جو بڑی جدوجہد کے بعد یورپ ، امریکا اور دیگر ممالک نے حاصل کیاجہاں انسان آزاد ہے خوشحال ہے، ہماری نجات ، خوشحالی اور ترقی کاانحصار خود ہماری سوچ ، کوشش اور جدوجہد پر ہوتا ہے ۔
یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم آیا واپس ماضی کی سمت سفر کرنا چاہتے ہیں یاآگے کی سمت سفرکرنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ اصل مسئلہ ہی سو چ کااور نظریہ کاہے اندھیرے کی سوچ اور نظریہ والے ہم سب پر جبراً اپنی سوچ اور نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں تشدد اور ہر حربے کو جائز سمجھتے ہیں وہ خوشحالی کا وعدہ کرکے ہماری زندگی کو جہنم بنانا چاہتے ہیں ۔ فیصلہ خود ہم نے کرنا ہے کہ آیا ہم واپس اٹھارویں صدی میں جانا چاہتے ہیں یااپنے ملک کو ہی جنت بنانا چاہتے ہیں ۔
نپو لین ہل کہتا ہے کہ انسان جو کچھ سوچ سکتا ہے ذہن وہی کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ ایک نوجوان نے سقراط سے پوچھا کہ ''کامیابی کا راز کیا ہے '' سقراط نے اسے کہا ''مجھے کل صبح دریا کے کنارے آکر ملنا ''اگلی صبح ان کی ملاقات ہوئی تو سقراط نے کہا''آئو میرے ساتھ دریا کی طرف چلو ''وہ چلتے چلتے دریامیں اتر گئے مگر آگے بڑھتے رہے جب پانی گردن تک پہنچا تو سقراط نے نوجوان کو پکڑکر اسے پانی میں غوطہ دے دیا۔ نوجوان نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن سقراط اس سے زیادہ طاقتور تھا اس لیے نوجوان کامیاب نہیں ہوا۔
سقراط نے اسے پانی میں ڈبوئے رکھا جب نوجوان کا حال خراب ہوگیا تو سقراط نے اسے پانی سے نکال لیا نوجوان نے پانی سے سر نکالتے ہی منہ کھول کر لمبا سانس لیا۔ سقراط نے نوجوان سے پوچھا جب تم پانی کے نیچے تھے تو تمہیں سب سے زیادہ کس چیز کی خواہش تھی نوجوان نے کہا ''ہوا کی '' سقراط نے کہا ''یہ ہی کامیابی کا راز ہے ۔ جب تم کامیابی کی اس طرح شدید خواہش کرتے ہو جس طرح پانی میں ڈوبے ہوئے نوجوان نے ہوا کی خواہش کی تھی تب تم کامیاب ہوجاتے ہو ۔''
جس طرح تھوڑی سی آگ زیادہ حرارت نہیں دے سکتی اس طرح کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی ۔خوشحالی ، ترقی اور کامیابی ہماری سوچوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے کامیابی اتفاقاً نہیں ملتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے خدارا ماضی کے مزاروں سے نکل آئو مستقبل کے خیابانوں کی طرف دیکھو انسان کی آنکھیں اس کے سر کے اگلے حصے میں ہوتی ہے پچھلے حصے میں نہیں گویا فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان پیچھے نہ دیکھے آگے کی طرف دیکھے ۔
ہم پرانے زمانے کی رجعت اور قدامت پرست روایات سے آگے بڑھ چکے ہیں اب نئی سر زمینیں ہیں نئے لوگ ہیں اور نئے افکار ہیں ۔تو آئیے ہم اٹھارویں صدی کی نقل کرنے ان کے نقش قدم پر چلنے سے انکار کردیں، ہم نئی دنیائوں کو دیکھیں اور نئی روایتیں بنائیں ۔دوسروں کے پیروکار اور چیلا بننے سے انکار کردیں اس کے بجائے اپنی دنیا خود بنائیں۔
یاد رکھو کہ ایک شخص کی نجی زندگی کو تاریخ کی کسی سلطنت سے زیادہ بلند مرتبہ اور نامور بنایاجاسکتا ہے آپ جو بھی ہیں بس یہ جان لیجئے کہ اس ساری دنیا کا وجود آپ کے لیے ہے آئیں نفرت ، تعصب ، غلامی کا پردہ تارتار کر ڈالیں اپنے آپ کو منوائیے دوسروں سے الگ تھلگ ہوکر نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر جو کچھ آدم کے پاس تھا اورجو کچھ سیزر کر سکتا تھا وہ آپ کے پاس ہے اور آپ بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں ذہن کی زنجیریں توڑ دیں اپنے ذہن کو آزاد کریں اور اپنے آپ کو جانیں اس انسان کے طور پر جو آپ بن سکتے ہیں جو آپ کا مقدر ہے۔
انسان کے پاس امکانات بے پناہ ہیں ان کی کوئی حد نہیں ہے پھر آپ نے کیوں خود پر بے بسی طاری کررکھی ہے اپنے امکانات کو کیوں زنجیروں میں باندھ رکھا ہے ۔یہ بے معنی زنجیریں ہیں آپ جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں یہ زندگی آپ کی ہے اپنے بارے میں فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے نہ کہ مٹھی بھر افراد نے ۔ آئیں! مٹھی بھر افراد کے خلاف کھڑے ہوں اور انھیں بتادیں ہماری زندگیوں کا فیصلہ آپ نہیں بلکہ ہم خود کریں گے پھر دیکھیں خوشحال ، ترقی ، آزادی ، آپ کا کس بے تابی کے ساتھ انتظار کرتی ہے ۔