عہد ِ رفتہ
افسر ساجد کی کتاب ’’ کچھ خطوط میرے نام‘‘ میں اس نے 68خطوط شامل کیے ہیں۔
ایک ماہ قبل میری فرمائش پر میری بیٹی نے امریکا سے مجھے ڈاکٹر احمد منیر کے ذریعےBarack Obama کی کتاب A Promised Land بھجوائی تھی۔ یہ Obama کی سوانح عمری ہے۔
کئی بار اسے پڑھنے کے لیے عزم کیا لیکن ہر بار اس کے وزن اور اس کے 751 صفحات نے میری ہمت کا شاید اس لیے ساتھ نہ دیا کہ شاید مجھے ان واقعات ، معاملات اور افراد سے واسطہ پڑتا جن سے ایک پاکستانی کو شاید کوئی دلچسپی نہیں تھی اور کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے اپنے علم اور ذہنی ارتقاء کا بھی قطعی یقین نہیں تھا ۔ اگرچہ یہ کتاب میں نے فرمائش کر کے منگوائی تھی لیکن جب یہ Covid کی وبا پلٹا کھالیتی ہے تو امریکا جا کر یہ سوانح عمری ڈاکٹر احمد منیر کو پیش کروں گا۔
ایک بات کی وضاحت کردوں کہ میں بارک اوباما کو پسند کرتا ہوں۔ یہ عجیب حسن اتفاق ہوا کہ دو دن قبل مجھے بذریعہ پوسٹ اپنے ہم سروس سید افسر ساجد کی کتاب '' کچھ خطوط میرے نام'' موصول ہوئی ہے۔
ساجد ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر شعبئہ تعلیم سے منسلک اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں بطور وزٹنگ فیکلٹی انگریزی ادب تدریسی فرائض انجام دے رہا ہے۔ افسر ساجد اور میں ساہیوال ڈسٹرکٹ کورٹ میں اکٹھے ملازمت کرتے رہے لیکن اس نے خود کو شعرو ادب کی محفلوں سے دور رکھا جب کہ میں قتیل شفائی کے مشورے پر شعر گوئی ترک کر چکا تھا۔
افسر ساجد کی کتاب '' کچھ خطوط میرے نام'' میں اس نے 68خطوط شامل کیے ہیں۔ ان خطوط کے لکھنے والوں میں ڈاکٹر وزیر آغا ، احمد ندیم قاسمی ، شبنم رومانی، عبداللہ حسین، ڈاکٹر سلیم اختر، حکیم محمد سعید، جمیل الدین عالیؔ، پروفیسر جیلانی کامران، ڈاکٹر انور سدید کے علاوہ کئی اصحاب شامل ہیں۔ اس کتاب کے علاوہ سید افسر ساجد کی سات شعری ، نثری اور تنقیدی کتب بھی شایع ہو چکی ہیں۔
افسر ساجد کی کتاب کے مطالعے کے بعد مجھے بھی تحریک ہوئی اور میں نے پورے دو دن اپنے صندوقوں اور الماریوں کی تلاشی لینی شروع کر دی تاکہ اپنے مرے کالج سیالکوٹ کے فرسٹ اور سیکنڈ ایئر کے زمانے کی معروف شخصیات اور اساتذہ کے خطوط اور اسی دَور کی شاعری نذر ِ قارئین کروں کیونکہ کہتے ہیں کہ عہد ِ رفتہ کو آواز دیتے رہنا چاہیے۔ اب مجھے لکھے گئے چند خطوط پیش خدمت ہیں۔
Bombay,
6-9-58
محترمی، تسلیمات، آپ کا خط ملا۔ آسمان اور روشن ھُوا۔ سیال کوٹ بہت عرصہ ہوا چند گھنٹوں کے لیے گیا تھا۔غالباً ایبٹ روڈ ہی پر ٹھہرا تھا۔ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ عین ممکن ہے آپ کے گھر کے قریب سے گزرا ہوں۔ انسان کی زندگی گزرگاہ خیال سی ہے۔ ورنہ میں اس وقت سیالکوٹ میں کیسے ہوتا اور آپ سے باتیں کیسے کرتا!
سالک صاحب میرے مربی ہیں۔ زندہ دل پنجابیوں کی چند مخصوص روایات اُن کے دم قدم سے زندہ ھیںَ۔ میں شعر نہیں کہتا ورنہ اُن کا قصیدہ پنجابی زبان میں لکھتا۔! آپ معلوم نہیںشاعری کس زبان میں کرتے ہیں؟ خط تو اُردو میں لکھتے ہیں!
بمبئی عمدہ شہر ہے۔ مجھے بے حد پسند ہے۔ادب کا تعلق روح سے ہے۔اس لیے جسم کو زندہ رکھنے کے لیے فلمی پیشہ اختیار کر رکھا ہے۔بحالت مجبوری!
جب کبھی پاکستان سے اپنے کسی بھائی کا خط آ جاتا ہے، روح محبت سے لبریز ہو جاتی ہے۔ خدا آپ کو شادو کام رکھے۔ ادب اور سائینس دونوں سے آپ کا میل جول بڑہائے۔ادب اور سائنس کو ایک دوسرے کا دشمن نہ ہونا چاہیے۔ ان دونوںکے امتزاج ہی سے انسانی تہذیب ترقی کر سکتی ہے۔ اچھا اب اجازت دیجیے۔
آپ کا
کرشن چندر
مسلم ٹائون لاہور
18 اگست
عزیزی السلام علیکم
اشعار دیکھ لیے۔ اور آپ کے کہنے کے مطابق دو کاٹ دیے۔''سوداگر'' دیکھا۔اس میںبھی دو چار جگہ اصلاح کر دی۔ لیکن لیل و نہار والے اسے نہ چھاپیں گے۔ کوئی اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ نہ ادبی اعتبار سے۔ نہ موضوع کے لحاظ سے۔ میں نے آپ سے کہا تھا ۔ کہ جھٹ پٹ ''چھپنے'' کی خواہش کو جہاں تک ہو سکے دبانا چاہیے اور مشق برابر جاری رکھنی چاہیے۔
میں پنجابی میں شاعری نہیں کرتا۔ ایک آدھ چیز لکھی تھی۔ بس اسی کی وجہ سے مجھے لوگ گھسیٹتے ہیں۔ ساری عمر اردو میں صرف کی۔ اب پنجابی کی طرف متوجہ ہونا بے حد دشوار ہے۔
میں سال ڈیڑھ سال سے ہر ہفتے کی شام پونے سات بجے حالات حاضرہ کے عنوان سے تقریر کر رہا ہوں۔ اس ہفتے وہ تقریر بند کر دی ہے۔ اب ہر ''جمعرات کے دن شام 9 1/4 بجے '' صرف بھارت کی بعض خبروں پر تبصرہ کیا کروںگا۔ جس میں بھارتی ریڈیو کے اینٹی پاکستان پروپیگنڈے کا جواب ہو گا۔
وہ مصرع جس پر میں نے پہلی غزل لکھی۔ یہ تھا: '' یوسف کو قید خانہ بھی بازار ہو گیا''۔ باقی سب خیریت۔ اب آپ پڑھنے لکھنے کی طرف توجہ کیجیے۔
(عبدالمجید سالک)
عزیز مکرم السلام علیکم
آپ کی نظمیں میں نے دیکھ لی ہیں۔ اچھی خاصی ہیں۔ آپ کے کلام کی یہ خوبی مجھے متاثر کرتی ہے کہ آپ کی زبان بے حد سادہ اور انداز بیان سلیس ہے۔ کہیں الجھائو کا نام نشان نہیں۔ لیکن ارزاں خیالات سے پرہیز کیجیے۔ موضوع سوچ کر تلاش کیا کیجیے۔
انقلاب بند کرنے کے بعد تین سال تک حکومت پاکستان نے مجھے کراچی بلا لیا۔ وہاں مضمون نویسی کرتا رہا۔ اب مستقل طور پر لاہور میں ہوں۔ اور تصنیف تالیف کا کام کرتا ہوں۔ نوکری یا اخبار جاری کرنے کا کبھی خیال نہیں آیا۔ سکون کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔
(عبدالمجید سالک)
ڈاکٹر سیّد عبداللہ ، ایم اے، ڈی لٹ
(پرنسپل اوریئنٹل کالج، لاہور)
19 جنوری 1960
مکرمی السلام علیکم
آپ کا خط ملا۔ یاد فرمائی کا از حد ممنون ہوں۔ مجھے آپ کے ارشاد کی تعمیل سے بڑی مسرت ہوتی مگر آجکل بہت مصروف ہوں۔ اس لیے کوئی مضمون ارسال نہ کر سکوں گا ۔ مگر کبھی بوقت فرصت آپ کے ارشاد کی تعمیل کروں گا۔
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ فقط
والسلام
مخلص
سید عبداللہ
لاہور
18جون 60ء
عزیز ِمکرم۔ سلام مسنون
آپ بہت دنوں سے یاد آ رہے تھے۔ آج سوچا خط لکھ کر آپ کی خیریت معلوم کر لوں۔ میںان دنوں سخت پریشان رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری آپا (والدہ ظہیر بابر) علیل ہو کر یہاں آئیں۔ ۳ جولائی کو انتقال کر گئیں۔ پھرہم سب گائوں چلے گئے۔ چند روز پہلے واپس آیا ہوں۔ سوچتا ہوں نہ جانے آپ نے میرے بارے میں کیا سوچا ہو گا کہ آپ نے مجھے اتنے بہت سے خطوط لکھے اور میں نے کسی ایک کی رسید تک نہ دی۔
اپنے حالات سے مطلع کیجیے۔
پیار کے ساتھ
مخلص
احمد ندیم قاسمی
ڈیئر حمید یہ تین شعر تمہاری پہلی کتاب کے لیے:
نہ خوشامد کروں اس کی، نہ قصیدہ لکھوں
میں تو اس دوست کے اوصاف حمیدہ لکھوں
کام ہے جس کا گل ِ افشانی قرطاس و قلم
اس کے لفظوں کو متاع دل و دیدہ لکھوں
جب حمید آئے قلم تھامے تو جی چاہے مرا
اس کی تعریف میں اک پورا جریدہ لکھوں
(قتیل شفائی)