اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں
کوئی جلاوطن، کوئی سولی چڑھ گیا اور کوئی لیاقت باغ کی شاہراہوں پر مارا گیا۔
PARIS:
قائداعظم محمد علی جناح کی جہاندیدہ آنکھ پاکستان میں انتہاپسندی کے جراثیم کو دیکھ رہی تھی اور یہی و جہ تھی کہ انھوں نے اپنی گیارہ اگست 1947 کی تقریر میں تمام ابہام دور کرنے کی کوشش کی اور بتادیا کہ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوری ملک ہوگا جہاں انتہاپسندی کی گنجائش نہیں ہے مگرہم نے جناح کی تقریر ہی غائب کردی، جو اس ملک کا محب وطن لیڈر تھا ہم نے اس کی حب الوطنی پر شک کیا۔
کوئی جلاوطن، کوئی سولی چڑھ گیا اور کوئی لیاقت باغ کی شاہراہوں پر مارا گیا۔ انتہا پسند نظریات اور ان سے جڑے لوگ ہی ہمارے ہتھیار نے جن کو ہم نے جمہوریت کے خلاف استعمال کیا۔
اس ملک خداد ادکی تمام وحدتوں نے، تاریخی اعتبار سے تمام موجود قوموں یا قومیتوں نے ، فرقوں اور مذاہب کے لوگوں نے، ثقافتوں سے جڑے لوگوں نے اس صورتحال سے دوچار ہونا پایا ہے جسے ریاست کی مخصوص سوچ نے نقصان پہنچایا ہے۔
ریاست ایک طرف او ر باقی سب دوسری طرف۔ یہ ٹھیک ہے کہ پی ڈی ایم بکھر گئی مگرجو باتیں پی ڈی ایم نے باور کروائیں اس پر ٹھنڈے دل سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے،وہ باتیں اب بھی وہیں موجود ہیں ،وہ تضاد اب بھی باقی ہیںبلکہ شدت پکڑتے جا رہے ہیں۔
آج مہنگائی ہے کہ اس ملک میں آسمانوں سے باتیں کررہی ہے۔ یو این ڈی پی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ بیس فیصد افراد کی حالت تو ان سے بھی بد تر ہے جو سومالیہ کے بدترین غربت کے دائرے میں پھنسے لوگ ہیں۔ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں ۔ سب سے بڑی بات کہ ہماری شرح نمو جمود کو توڑنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ کیسے پیداوار بڑھے گی، کس طرح روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ کیسے غیر ترقیاتی اخراجات کم ہوںگے، محصولات بڑھیں گی اور افراط زر پے قابو پایا جائے گا۔
میاں نواز شریف صاحب کی حکومت کے خلاف خان صاحب اور طاہرالقادری کے دھرنوں کے اثرات آج پھر سامنے آرہے ہیں۔ اس وقت یہ پتا اپنے مخالفین کے خلاف خوب کھیلا اور اب واویلا کیسا؟
کچھ دن پہلے خواتین کے حوالے سے اختلافی بیان داغ دیا گیا تھا ،جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ ایک وزیر صاحب نے جس طرح ہماری قومی ایئر لائن پی آئی اے اور پائلٹس کے بارے میں بیان دیا جس سے ہمارا اربوں کا نقصان ہوا۔ روز کوئی نہ کوئی بین الاقوامی رسوائی ہے، جس سے ہمیں گذرنا پڑتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب ملک کے حکمران لوگوں کے مقبول لیڈر نہ ہوں ۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارا جھگڑا اپنے ہی لوگوں سے ہے۔ کئی لوگوں کو میں جانتا ہوں جو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول سے واپس نکال رہے ہیں کہ اب ان کے پاس فیس دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
جس طرح بجلی مہنگی ہوئی ہے اور پھر گرمیوں میں اس کا استعمال ۔ یہ سب کچھ خان صاحب کے دورِ حکومت میں سو فیصد مہنگا ہوا ہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہونے کے دوران ۔ سب کو سر جوڑ کے بیٹھنا ہوگا، یہ ہمارا ہی ملک ہے ، خدا کی نعمت ہے،اس کو آئین کے مطابق چلنا ہوگا۔ اب تک جو پاکستان کا وجود باقی ہے، وہ آئین کے دم سے ہے وگرنہ ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ستر سال کے اس بھنور سے نکلنے کے لیے پاکستان کو دہائیاں لگیںگی مگر اس بھنور سے نکلنے کے لیے یہ بھی ضرورہے کہ ہم درست راہوں کا تعین کریں۔پی ڈی ایم تو وہ کارکردگی نہ دکھا سکی مگر جو کچھ وزیراعظم صاحب خود اپنے ساتھ کر رہے ہیںاس کو درست کیسے کر سکیں گے، وہ جہانگیر ترین جو کل تک ممبرانِ اسمبلی کو جہاز میں بٹھا کر بنی گالہ لے جاتے تھے، آج وہ ہی اپنی پیشی پر کوسٹر میں بیٹھ کر انھیں ممبران کے ساتھ عدالت جارہے ہیں،یہ صورت حال بھی اب جلد ہی واضح ہو جائے گی۔
جناب شہباز شریف ضمانت پر رہا اور اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کا سلسلہ شروع۔بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ بس اب بہت کچھ شروع ہوا چاہتا ہے،بہت تیزی سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے جارہا ہے۔افغانستان میں ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہونے جارہی ہے۔امریکی افواج کے انخلاء سے۔ یہاں مہنگائی مزید بے قابو ہونے جارہی ہے۔
کچھ ایسا ہے کہ دیر آید درست آید۔ریاست میں سسٹم کے اندر رہ کر ہی سسٹم کو ٹھیک کرنا ہوگا،یہی زمینی حقائق ہیں ۔ پی ڈی ایم آج جس دوراہے پر کھڑی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے،مگر یہ بھی حقیقت ہے اس سسٹم میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے با لخصوص اس ریاست میں قانون کی حکمرانی ،پارلیمنٹ کی حکمرانی۔ ہماری راہیں اب اس سمت کا تعین کریں تو بہتر ہوگا۔